Monday 29 November 2021

کوئی شکوہ نہیں ہے ہم کو اپنی بے نوائی سے

 کوئی شکوہ نہیں ہے ہم کو اپنی بے نوائی سے

ملے ہیں حوصلے کیا کیا تمہاری بے وفائی سے

ہزاروں رہزنوں سے بچ کے جو پہنچے تھے منزل پر

انہیں یاروں نے لُوٹا ہے فریبِ پارسائی سے

عِوض پھولوں کے ہم نے تو ہمیشہ زخم کھائے ہیں

یہی شیوہ ہے اپنا تو بھلائی کر، برائی سے

میرے رہوار سے جو زندگی بھر طے نہ ہو پایا

ہے کیسا فاصلہ اس ہاتھ کا میری کلائی سے

یہ تنہائی، یہ رُسوائی تو ہے انجام چاہت کا

بھلا ہم مر نہ جائیں گے ذرا سی جگ ہنسائی سے

وہ جس نے جُرمِ الفت کی سزا میں فُرقتیں بخشی

اُسے کہنا؛ کوئی مرتا نہیں دردِ جدائی سے


فرحت شکور

No comments:

Post a Comment