کوئی شکوہ نہیں ہے ہم کو اپنی بے نوائی سے
ملے ہیں حوصلے کیا کیا تمہاری بے وفائی سے
ہزاروں رہزنوں سے بچ کے جو پہنچے تھے منزل پر
انہیں یاروں نے لُوٹا ہے فریبِ پارسائی سے
عِوض پھولوں کے ہم نے تو ہمیشہ زخم کھائے ہیں
یہی شیوہ ہے اپنا تو بھلائی کر، برائی سے
میرے رہوار سے جو زندگی بھر طے نہ ہو پایا
ہے کیسا فاصلہ اس ہاتھ کا میری کلائی سے
یہ تنہائی، یہ رُسوائی تو ہے انجام چاہت کا
بھلا ہم مر نہ جائیں گے ذرا سی جگ ہنسائی سے
وہ جس نے جُرمِ الفت کی سزا میں فُرقتیں بخشی
اُسے کہنا؛ کوئی مرتا نہیں دردِ جدائی سے
فرحت شکور
No comments:
Post a Comment