میرا رفیق جو مشہور ہے زمانے میں
اسی نے آگ لگائی تھی آشیانے میں
زرا سی دیر میں سب کچھ بکھر گیا اپنا
تمام عمر لگی تھی جسے بنانے میں
جدھر نگاہ اٹھی، آگ سی بھڑک اٹھی
تیرا جواب نہیں 🗲 بجلیاں گرانے میں
ہمارے باغ کی کلیاں بھی کِھل گئی ہوتیں
جو تم نے دیر نہ کی ہوتی مسکرانے میں
وہ سنگدل بھی تڑپ اٹھا جب سنا اس نے
عجیب درد بھرا تھا میرے فسانے میں
یہ ربط ضبط مسلسل میرا نہ کم ہو گا
ابھی تو وقت لگے گا تجھے بھلانے میں
اب اپنا وقت میں ضائع نہ کر سکوں گا رئیس
اک آزمائے ہوئے کو پھر آزمانے میں
رئیس جہانگیرآبادی
No comments:
Post a Comment