Thursday 31 August 2017

دل صبر کے منبر پہ بٹھایا کہ خدا ہے

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

دل صبر کے منبر پہ بٹھایا کہ خدا ہے
اور شکر کو اعزاز بنایا کہ خدا ہے
اکبرؑ کے لہو سے کیا توحید کو تحریر
اصغرؑ کی شجاعت سے بتایا کہ خدا ہے
قاسمؑ کی شہادت سے کِیا ریت کو گلشن
بکھرے ہوئے پھولوں میں دکھایا کہ خدا ہے

اذیت

اذیت

کتنے چہرے
دن بھر دھوکہ دیتے ہیں
کتنی آنکھیں
دن بھر دھوکہ کھاتی ہیں
کتنے دل
ہر رات نئی ویرانی سے

دعائیں سکھاتے ہو

دعائیں سکھاتے ہو

دعا
بے بسی کا اعتراف
اختیار کا منطقی انجام
دعائیں سکھاتے ہو
اور پوری بھی نہیں کرتے

فرحت عباس شاہ

تماشا

تماشا

روز اداسی چہرہ بدلے
روز دکھائے ہاتھ
روز اک نئے سرے سے کھیلے
بازی دل کے ساتھ

فرحت عباس شاہ

تو کافی ہے تو شافی ہے

تو کافی ہے
تو شافی ہے
تو الباسط
تو الباعث
تو الباقی
تو الباری

ہم نے جس رات

ہم نے جس رات

ہم نے جس رات تِرے ہجر کی دہلیز پر غم رکھا ہے
چاند حیران ہوا ہے
کہ بھلا کون چمکتا ہے افق کے اس پار
ہنس دیا کوئی ستارہ جو کبھی پلکوں پر
کہکشاں چونک اٹھی

جب سفر گردش میں آیا راستہ

جب سفر گردش میں آیا راستہ
راستوں میں گُم ہوا تھا راستہ
آدمی کو راستہ ملتا نہیں
کس طرف جائے اکیلا راستہ
جب نظر میں ہوں بہت سے راستے
منتخب کرنا پڑے گا راستہ

جب سے تیور جناب کے بدلے

جب سے تیور جناب کے بدلے
ہم نے بھی اپنے راستے بدلے
ہم نے تو پیار سے بلایا تھا
تم نے کس بات کے لیے بدلے
یہ اگر عدل کا تقاضہ ہے
جان دے دیں گے جان کے بدلے

سن کر اس کی بات ہم چپ ہو گئے

سن کر اس کی بات ہم چپ ہو گئے
دیکھ کر حالات ہم چپ ہو گئے
بادلوں کی گھن گرج اور بِجلیاں
آئی جب برسات ہم چپ ہو گئے
جب سمجھ آئی حقیقت دہر کی
حوصلے کے ساتھ ہم چپ ہو گئے

اب میں کہاں سے لاؤں کوئی دوسرا دماغ

اب میں کہاں سے لاؤں کوئی دوسرا دماغ
تم نے ہی تو خراب کیا ہے مِرا دماغ
کچھ زندگی سے بھی ہمیں دیوانگی مِلی
کچھ سوچ سوچ کر بھی الجھتا گیا دماغ
عقل و شعور، فہم و فراست کا کیا کریں
دل کے معاملے میں تو بے کار تھا دماغ

چراغ یاد کی دیوار پر جلائے ہیں

چراغ یاد کی دیوار پر جلائے ہیں
اندھیری رات کے دل میں کنول سجائے ہیں
وہ دن عجب تھا کہ جب ہر طرف سیاہی تھی
یہ کیسی شام ہے جِس کے سفید سائے ہیں
یہ زرد زرد سی رنگت ، بجھی بجھی آنکھیں
ضرور تم نے محبت کے دکھ اٹھائے ہیں

Wednesday 30 August 2017

ہوائے اہل دنیا کی نگہبانی میں رکھوں گا

ہوائے اہلِ دنیا کی نگہبانی میں رکھوں گا
دیا روشن کروں گا اور پیشانی میں رکھوں گا
اسے معلوم تو ہو تیرنا کیا ڈوبنا کیا ہے؟
کسی دن اس کو تندوتیز طغیانی میں رکھوں گا
کم از کم دھجیاں اڑنے سے حیرت تو نہیں ہونگی
ہوا کو گھر بلا کر چاک دامانی میں رکھوں گا

کھل گئی گٹھڑی تو سب بار گراں مر جائے گا

کھل گئی گٹھڑی تو سب بارِ گراں مر جائے گا 
استعارہ اس طرف مصرعہ وہاں مر جائے گا
اک ملاقاتی نکل آئے گا آتش دان سے 
پھر شبِ ہجراں! تِرا کالا دھواں مر جائے گا
ڈس لیا ہے اک مسافر کو اچانک سانپ نے 
اب مجھے لگتا ہے سارا کارواں مر جائے گا

اس گھڑی اتنا ہی کافی ہے کہ جل تھل ہو جائے

اس گھڑی اتنا ہی کافی ہے کہ جل تھل ہو جائے
موج میں آیا ہوا اور بھی پاگل ہو جائے
میری وحشت سے یہاں بھیڑ لگی رہتی ہے 
شہر میں رم نہ کروں میں تو یہ جنگل ہو جائے
سن رہا ہوں، وہ مِرے دل سے نکل جائے گا
کیوں نہ اس شہر کا دروازہ مقفل ہو جائے

بددعا دینے پہ آؤں تو کرامت ہو جائے

بددعا دینے پہ آؤں تو کرامت ہو جائے 
دوست جس عشق پہ مرتے ہیں مصیبت ہو جائے
شکل و صورت سے تو درویش نہیں لگتے آپ 
پھر بھی اس گھر میں رکیں تھوڑی سی خدمت ہو جائے
لوگ سیلاب کا مطلب ہی نہیں جانتے ہیں 
آج تم رو ہی پڑے ہو تو وضاحت ہو جائے

مرا محور اداسی ہے

مِرا محور اداسی ہے
تمہاری روح کا عالم
تمہی جانو
زمانے بھر کے رسم و راہ کو
جی جان سے مانو
مِرا کوئی دخل کیسے؟
تِرا نعمل البدل کیسے؟

اتنے بے جان سہارے تو نہیں ہوتے ناں

اتنے بے جان سہارے تو نہیں ہوتے ناں
درد دریا کے کنارے تو نہیں ہوتے ناں
رنجشیں ہجر کا معیار گھٹا دیتی ہیں
روٹھ جانے سے گزارے تو نہیں ہوتے ناں
راس رہتی ہے محبت بھی کئی لوگوں کو
وہ بھی عرشوں سے اتارے تو نہیں ہوتے ناں

قصے کو کچھ ایسا اس نے موڑ دیا

قصے کو کچھ ایسا اس نے موڑ دیا
میرا دُکھ سے دائم رشتہ جوڑ دیا
میں تو اب تک، یار! غریقِ حیرت ہوں
کیسے تُو نے میرے دل کو توڑ دیا؟
ہم نے رب سے جتنے سکھ منگوائے تھے
سب کا رستہ تیری جانب موڑ دیا

دشت و ویراں میں کہیں کٹیا بسائے ہوئے لوگ

دشت و ویراں میں کہیں کٹیا بسائے ہوئے لوگ
دیکھ کس حال میں رہتے ہیں ستائے ہوئے لوگ
بارشیں یوں بھی سبھی زخم ہرے کرتی ہیں
اور یاد آ جاتے ہیں آنکھوں سے بہائے ہوئے لوگ
کیسے جائیں گے بھلا اب وہ تسلی کے بغیر
تیرے ملنے کو بڑی دور سے آئے ہوئے لوگ

باقی سارے قصے رد قل ہو اللہ احد

باقی سارے قصے رد، قل ہو اللہ احد 
بھول جا ہر مد و شد، قل ہو اللہ احد 
ہے قریں شہ رگ سے جو، قلبِ انساں جس کا گھر
جس کی کوئی جا نہ حد، قل ہو اللہ احد 
حمدِ باری کے لیے، کیا تخیل، کیا حروف
ہیچ ہیں سارے عدد، قل ہو اللہ احد 

Friday 25 August 2017

بیٹھے تھے لوگ پہلو بہ پہلو پیۓ ہوئے

بیٹھے تھے لوگ پہلو بہ پہلو پیے ہوئے 
اک ہم تھے تیری بزم میں آنسو پیے ہوئے 
دیکھا جسے بھی اس کی محبت میں مست تھا 
جیسے تمام شہر ہو دارو پیے ہوئے 
تکرار بے سبب تو نہ تھی رند و شیخ میں 
کرتے بھی کیا شراب تھے ہر دو پیے ہوئے 

قرب جاناں کا نہ مے خانے کا موسم آیا

قربِ جاناں کا نہ مے خانے کا موسم آیا 
پھر سے بے صرفہ اجڑ جانے کا موسم آیا 
کنجِ غربت میں کبھی گوشۂ زنداں میں تھے ہم 
جان جاں جب بھی تِرے آنے کا موسم آیا 
اب لہو رونے کی خواہش نہ لہو ہونے کی 
دلِ زندہ! تِرے مر جانے کا موسم آیا 

یہ بے دلی ہے تو کشتی سے یار کیا اتریں

یہ بے دلی ہے تو کشتی سے یار کیا اتریں 
ادھر بھی کون ہے دریا کے پار کیا اتریں 
تمام دولتِ جاں ہار دی محبت میں 
جو زندگی سے لیے تھے ادھار کیا اتریں 
ہزار جام سے ٹکرا کے جام خالی ہوں 
جو آ گئے ہیں دلوں میں غبار کیا اتریں 

ترس رہا ہوں مگر تو نظر نہ آ مجھ کو

ترس رہا ہوں مگر تُو نظر نہ آ مجھ کو 
کہ خود جدا ہے تو مجھ سے نہ کر جدا مجھ کو 
وہ کپکپاتے ہوئے ہونٹ میرے شانے پر 
وہ خواب سانپ کی مانند ڈس گیا مجھ کو 
چٹخ اٹھا ہو سلگتی چٹان کی صورت 
پکار اب تو مِرے دیر آشنا مجھ کو 

Thursday 24 August 2017

یہ وقت عصر ہے لہجے میں پیاس شامل کر

یہ وقتِ عصر ہے لہجے میں پیاس شامل کر
دعائے شام میں خالی گلاس شامل کر
ہمارا فیصلہ سابق مثال سے تو نہ ہو
لکھے کو چھوڑ کے اپنا قیاس شامل کر
تو اپنے وصل کے اس میٹھےلال شربت میں 
ہماری مان، زرا سی کھٹاس شامل کر

اے زمیں آسمان چپ ہو جا

اے زمیں، آسمان! چپ ہو جا
عشق کے درمیان، چپ ہو جا
بند ہو کر بھی بولتی کھڑکی 
مت بٹا میرا دھیان، چپ ہو جا
آج گاہک ہے سخت غصے میں 
شور کرتی دکان! چپ ہو جا

عشق کو اشتعال آ گیا تھا

عشق کو اشتعال آ گیا تھا
دل کے شیشےمیں بال آ گیا تھا
میں نے اظہارِ عشق ایسے کیا
کچھ پرندوں کو حال آ گیا تھا
ہجر کو وصل سے بدلتا تھا
مجھ میں ایسا کمال آ گیا تھا

اک سرخ پھول وصل کا رخسار پر کھلا

اک سرخ پھول وصل کا رخسار پر کِھلا
آخر یہ گل بھی شہر کی دیوار پر کھلا
چڑھتی جوانیوں کا شفق لا جواب تھا
لیکن جو رنگ شہر میں دوچار پر کھلا
پگڈنڈیوں پہ رکھ دے بنفشے کے پھول بھی
اور زرد زعفران بھی رخسار پر کھلا

بہشت میں بھی کہاں یار کی مثالیں ہیں

بہشت میں بھی کہاں یار کی مثالیں ہیں
یہ چند پھول تو رخسار کی مثالیں ہیں
جہاں بھی تم ہو تمہارا طواف کرتی ہیں
یہ تتلیاں بھی مِرے پیار کی مثالیں ہیں
یہ عشق تھوڑی ہے جو ہر کسی کو مل جائے
ہوس کے ذکر میں دو چار کی مثالیں ہیں

Wednesday 23 August 2017

ہوش کی تازگی بھی ساتھ رہی

ہوش کی تازگی بھی ساتھ رہی
اور دیوانگی بھی ساتھ رہی
گھر کے کاموں میں بھی رہے مصروف
اور آوارگی بھی ساتھ رہی
فیصلے سوچ کر کیے ہم نے
دل کی آمادگی بھی ساتھ رہی

مانگو سب کی خیر اپنے ہوں یا غیر

مانگو سب کی خیر
اپنے ہوں یا غیر
دیکھو اس کی شان
مسجد ہو یا دَیر
ڈوبی ہے کشتی
اب پانی میں تَیر

کیا ملا ہے تمہیں تنہا ہو کر

کیا ملا ہے تمہیں تنہا ہو کر
اپنے ہی سائے سے کھائی ٹھوکر
اپنی کوشش تھی کہ کچھ ضبط کریں
تم نے ہم کو بھی رُلایا، رو کر
شام ہوتے ہی تیرے دیوانے
کیوں بھٹکتے ہیں پریشاں ہو کر

یوں بھروسہ نہیں کسی پل کا

یوں بھروسہ نہیں کسی پل کا
اور ہے انتظار بھی کل کا
رات بھر جاگتی ہے تنہائی
چاہے بستر ملا ہو مخمل کا
بھولتی ہی نہیں تِری آنکھیں
یاد ہے بَل بھی تیرے آنچل کا

Tuesday 22 August 2017

کم و زیادہ کی اس کشمکش نے مار دیا

کم و زیادہ کی اس کشمکش نے مار دیا 
اسے اکائی مجھے میرے رش نے مار دیا
وہ لمبی عمر سمجھتا تھا غم کے سگرٹ کو
خبر ملی اسے پہلے ہی کش نے مار دیا
جدائی ہے کہ حسین و جمیل لڑکی ہے 
سب اہلِ عشق کو اس ماہ وش نے مار دیا

بارہا منظر حیرانی بنایا میں نے

بار ہا منظرِ حیرانی بنایا میں نے 
آنکھ میں ریت بھری پانی بنایا میں نے
یوسفِ عشق تِرے سامنے رکھا ہے چراغ 
آئینے یوں بھی تِرا ثانی بنایا میں نے
کیا ہوا میں نے اگر تیر نہیں برسائے 
کم سے کم لہجہ تو طوفانی بنایا میں نے

میں تو سمجھا تھا زمانہ ہے پریشانی میں

میں تو سمجھا تھا زمانہ ہے پریشانی میں 
یہ تو سب آئینہ خانہ ہے پریشانی میں
وہ کوئی اور شکایت تھی تھکی ہاری سی 
یہ کوئی اور بہانہ ہے پریشانی میں
آنکھ روتی ہے کہیں اور ٹھکانہ کر کے 
دل کہیں اور روانہ ہے پریشانی میں

سونے کو بھی مٹی جیسا کہتے ہیں

سونے کو بھی مٹی جیسا کہتے ہیں 
کیوں بارات کو لوگ جنازہ کہتے ہیں
بچوں سے بھی ایک شکایت رہتی ہے 
مر جاتا ہوں جب یہ بوڑھا کہتے ہیں
گونگی بہری ماں کی اپنی مجبوری 
ورنہ لوگ تو بیٹا بیٹا کہتے ہیں

درد آنسو نہیں بنتا سو تبسم تو بنے

درد آنسو نہیں بنتا سو تبسم تو بنے
کوئی پیرایۂ آغاز تکلم تو بنے
ہے طبیعت میں سکوت ازلی حیرت سا
اس سمندر کی کوئی موج تلاطم تو بنے
کون منظور کرے نام کی دریا بخشی
میں سبو تک نہ بھروں گا کوئی قلزم تو بنے

دکان اور کی ہے اختیار اس کا ہے

دکان اور کی ہے، اختیار اس کا ہے
بہت دنوں سے یہی کاروبار اس کا ہے
بس اس کے نام کا سِکہ ڈھلا نہیں، ورنہ
وزیر اس کے ہیں سب شہریار اس کا ہے
کسی سے کچھ نہیں کہتا سوائے حرفِ دعا
اسی ادا سے ہنر آشکار اس کا ہے

اچھا اگر نہیں تو برا مان لے مجھے

اچھا اگر نہیں تو برا مان لے مجھے
بہتر یہی ہے تو ابھی پہچان لے مجھے
چہرہ بدل لیا ہے رقیبوں کے خوف سے
ایسا نہ ہو کہ پھر کوئی پہچان لے مجھے
انسان ہوں خطاؤں کا پتلا, خیال رکھ
میں نے یہ کب کہا کہ خدا مان لے مجھے

بہت دنوں سے یہی ہو رہا ہے آج ہی کیا

بہت دنوں سے یہی ہو رہا ہے آج ہی کیا
پلک جھپکتے بدل جائے تو سماج ہی کیا
نظر جھکا کے مگر سر اٹھا کے چلتے تھے
رہا نہ شہر کی گلیوں میں وہ رواج ہی کیا
لگائے بیٹھے رہو دوربین آنکھوں سے
ہمارے دیدہ ورو! تم کو کام کاج ہی کیا

Monday 21 August 2017

ماں رتھ فاؤ

ماں رُتھ فاؤ
تھوڑی دیر ذرا یہ جیون آنکھیں کھولو
مجھ کو اپنے نرم مسیحا ہاتھوں پر بوسہ دینے دو
جن رحمان صفت ہاتھوں نے
زخموں کا مذہب نہیں دیکھا
آہوں سے مسلک نہیں پوچھا

دھرتی نوحوں میں ڈوبی ہے

دھرتی نوحوں میں ڈوبی ہے

دھرتی نوحوں میں ڈوبی ہے
شاعر اپنی اپنی ہاہاکار میں گم ہیں
میں کی اک تفصیل ہے جس کے لفظ غلاظت میں لتھڑے ہیں
سوچ رہا ہوں
دھرتی کے بیٹوں کو ماں کا اجڑا چہرہ کیوں نہیں دِکھتا؟