بددعا دینے پہ آؤں تو کرامت ہو جائے
دوست جس عشق پہ مرتے ہیں مصیبت ہو جائے
شکل و صورت سے تو درویش نہیں لگتے آپ
پھر بھی اس گھر میں رکیں تھوڑی سی خدمت ہو جائے
لوگ سیلاب کا مطلب ہی نہیں جانتے ہیں
ہر گھنے پیڑ کا صدمہ بھی گھنا ہوتا ہے
کیا کروں گا جو پرندوں میں بغاوت ہو جائے
پھول ویسے بھی تو جھڑتے ہیں تمہارے لب سے
کیوں نہ وہ بات کرو تم کہ کہاوت ہو جائے
اک مصیبت نے مِرے ہونٹ جکڑ رکھے ہیں
آیتِ ردِ بلا کیسے تلاوت ہو جائے
عاطف کمال رانا
No comments:
Post a Comment