Wednesday, 30 August 2017

بددعا دینے پہ آؤں تو کرامت ہو جائے

بددعا دینے پہ آؤں تو کرامت ہو جائے 
دوست جس عشق پہ مرتے ہیں مصیبت ہو جائے
شکل و صورت سے تو درویش نہیں لگتے آپ 
پھر بھی اس گھر میں رکیں تھوڑی سی خدمت ہو جائے
لوگ سیلاب کا مطلب ہی نہیں جانتے ہیں 
آج تم رو ہی پڑے ہو تو وضاحت ہو جائے
ہر گھنے پیڑ کا صدمہ بھی گھنا ہوتا ہے 
کیا کروں گا جو پرندوں میں بغاوت ہو جائے
پھول ویسے بھی تو جھڑتے ہیں تمہارے لب سے
کیوں نہ وہ بات کرو تم کہ کہاوت ہو جائے
اک مصیبت نے مِرے ہونٹ جکڑ رکھے ہیں 
آیتِ ردِ بلا کیسے تلاوت ہو جائے

عاطف کمال رانا

No comments:

Post a Comment