دھرتی نوحوں میں ڈوبی ہے
دھرتی نوحوں میں ڈوبی ہے
شاعر اپنی اپنی ہاہاکار میں گم ہیں
میں کی اک تفصیل ہے جس کے لفظ غلاظت میں لتھڑے ہیں
سوچ رہا ہوں
ان کو آخرکیوں وہ لوگ نظر نہیں آتے؟
جن کے باطن کی تنہائی دھاڑیں مار کے پوچھ رہی ہے
ہم چیخوں پر کب لکھو گے؟
ہم نوحوں پر کب بولو گے؟
تب مجھ کو کچھ لوگ بہت ہی یاد آتے ہیں
جن کو میں کا کوڑھ نہیں تھا
میں تو کوڑھیوں میں بیٹھا ہوں
دو کوڑی کے گھٹیا کوڑھی
یہ دھرتی کے اجڑے پن پر خاک لکھیں گے؟
مجمع گیر بھلا کیسے ادراک لکھیں گے؟
یہ تو جسم کے وہ بھوکے ہیں
جن کو ہر لکھنے والی کے اندر جنس نظر آتی ہے
یہ پیمائش کے رسیا ہیں
جسموں کے اوزان بتانے میں ماہر ہیں
ان کی گِدھ آنکھوں کو ننگا کر لینے کا فن آتا ہے
جو ان کو فنکار نہ مانیں
وہ ان کے لفظوں میں گندی کہلاتی ہیں
جو ان کی بکواس کو یکسر رد کرتے ہیں
وہ ان کی دانست میں ناقص ہو جاتے ہیں
سوچ رہا ہوں
کیا ان کو خود اپنے آپ سے بُو نہیں آتی ؟
سوچ رہا ہوں
کیا بدقسمت لوگ ہیں جن سے شاعری بھی پردہ کرتی ہے
علی زریون
No comments:
Post a Comment