Monday 21 August 2017

دھرتی نوحوں میں ڈوبی ہے

دھرتی نوحوں میں ڈوبی ہے

دھرتی نوحوں میں ڈوبی ہے
شاعر اپنی اپنی ہاہاکار میں گم ہیں
میں کی اک تفصیل ہے جس کے لفظ غلاظت میں لتھڑے ہیں
سوچ رہا ہوں
دھرتی کے بیٹوں کو ماں کا اجڑا چہرہ کیوں نہیں دِکھتا؟
ان کو آخرکیوں وہ لوگ نظر نہیں آتے؟
جن کے باطن کی تنہائی دھاڑیں مار کے پوچھ رہی ہے
ہم چیخوں پر کب لکھو گے؟
ہم نوحوں پر کب بولو گے؟
تب مجھ کو کچھ لوگ بہت ہی یاد آتے ہیں
جن کو میں کا کوڑھ نہیں تھا
میں تو کوڑھیوں میں بیٹھا ہوں
دو کوڑی کے گھٹیا کوڑھی
یہ دھرتی کے اجڑے پن پر خاک لکھیں گے؟
مجمع گیر بھلا کیسے ادراک لکھیں گے؟
یہ تو جسم کے وہ بھوکے ہیں
جن کو ہر لکھنے والی کے اندر جنس نظر آتی ہے
یہ پیمائش کے رسیا ہیں
جسموں کے اوزان بتانے میں ماہر ہیں
ان کی گِدھ آنکھوں کو ننگا کر لینے کا فن آتا ہے
جو ان کو فنکار  نہ مانیں
وہ ان کے لفظوں میں گندی کہلاتی ہیں
جو ان کی بکواس کو یکسر رد کرتے ہیں
وہ ان کی دانست میں ناقص ہو جاتے ہیں
سوچ رہا ہوں
کیا ان کو خود اپنے آپ سے بُو نہیں آتی ؟
سوچ رہا ہوں
کیا بدقسمت لوگ ہیں جن سے شاعری بھی پردہ کرتی ہے

علی زریون

No comments:

Post a Comment