Thursday 31 January 2019

رات اندھیری بن ہے سونا کوئی نہیں ہے سات

نارسائی

رات اندھیری، بن ہے سُونا، کوئی نہیں ہے ساتھ
پون جھکولے پیڑ ہلائیں تھر تھر کانپیں پات
دل میں ڈر کا تیر چبھا ہے سینے پر ہے ہاتھ
رہ رہ کر سوچوں، یوں کیسے پوری ہو گی رات؟
برکھا رُت ہے اور جوانی، لہروں کا طوفان
پیتم ہے نادان، میرا دل رسموں سے انجان

سلسلہ روز و شب

سلسلۂ روز و شب

خدا نے الاؤ جلایا ہوا ہے
اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے
ہر اک سمت اس کے خلا ہی خلا ہے
سمٹتے ہوئے، دل میں وہ سوچتا ہے
تعجب کہ نورِ ازل مٹ چکا ہے

جوہو کے کنارے

جوہُو کے کنارے

افق پہ دور
کشتیاں ہی کشتیاں جہاں تہاں
کوئی قریب بارِ نور سے عیاں تو کوئی دور کہر میں نہاں
ہر ایک ایسے جیسے ساکن و خموش و پر سکون، ہر ایک
بادباں ہے ناتواں
مگر ہر ایک ہے کبھی یہاں کبھی وہاں

کیف حیات

کیفِ حیات

نرم اور نازک، تند اور تیز
میٹھا میٹھا درد مِرے دل میں جاگا
میرا ہے، میرا ہے جھُولا خوشیوں کا
مست، منوہر، میٹھا میٹھا درد مِرے دل میں جاگا
جھُول رہی ہوں، جھُول رہی ہوں سندر جھُولا خوشیوں کا

Wednesday 30 January 2019

چشم بے خواب کو سامان بہت

چشمِ بے خواب کو سامان بہت

رات بھر شہر کی گلیوں میں ہوا
ہاتھ میں سنگ لیے
خوف سے زرد مکانوں کے دھڑکتے دل پر
دستکیں دیتی چلی جاتی ہے
روشنی بند کواڑوں سے نکلتے ہوئے گھبراتی ہے

سمے کے رستے میں بیٹھنے سے

اکیسویں صدی کے لیے ایک نظم

سمے کے رستے میں بیٹھنے سے
تو صرف چہروں پہ گرد جمتی ہے
اور آنکھوں میں خواب مرتے ہیں
جن کی لاشیں اٹھانے والا کوئی نہیں ہے
ہماری قسمت کے زائچوں کو بنانے والا کوئی ہو شاید

اہل نظر کی آنکھ میں تاج وہ کلاہ کیا

اہلِ نظر کی آنکھ میں تاج وہ کلاہ کیا
سایہ ہو جن پہ درد کا، ان کو پناہ کیا؟
ٹھہرا ہے اک نگاہ پہ سارا مقدمہ
کیسے وکیل، کون سا منصف، گواہ کیا
کرنے لگے ہو آٹھوں پہر کیوں خدا کو یاد؟
اس بت سے ہو گئی ہے کوئی رسم و راہ کیا؟

جیسے میں دیکھتا ہوں لوگ نہیں دیکھتے ہیں

جیسے میں دیکھتا ہوں لوگ نہیں دیکھتے ہیں 
ظلم ہوتا ہے کہیں اور، کہیں دیکھتے ہیں
تیر آیا تھا جدھر یہ مِرے شہر کے لوگ 
کتنے سادہ ہیں کہ مرہم بھی وہیں دیکھتے ہیں
کیا ہوا وقت کا دعویٰ کہ ہر اک اگلے برس 
ہم اسے اور حسیں، اور حسیں دیکھتے ہیں

Thursday 24 January 2019

مرکز جستجو عالم رنگ و بو

مرکزِ جستجو، عالمِ رنگ و بو
تم بہت دلربا، تم بہت خوبرو
عرش کی عظمتیں، فرش کی آبرو
تم ہو کونین کا حاصلِ آرزو
آؤ پردے سے تم آنکھ کے روبرو
چند لمحے ملن، دو گھڑی گفتگو

رنگ و رس کی ہوس اور بس

رنگ و رس کی ہوس اور بس
مسئلہ دسترس اور بس
یوں بُنی ہیں رگیں جسم کی
ایک نس ٹس سے مس اور بس
سب تماشائے کُن ختم شُد
کہہ دیا اس نے بس اور بس

مرتبہ تھا مقام تھا میرا

مرتبہ تھا مقام تھا میرا
روشنی پر قیام تھا میرا
میں نے سب کو معاف کر دیا تھا
اور یہ انتقام تھا میرا
آخری وقت آنکھ کھل گئی تھی
ورنہ قصہ تمام تھا میرا

Tuesday 22 January 2019

ویلکم

ویلکم

تو اک گِدھ اڑا
اور پورب میں پچھم میں
چاروں دِشاؤں میں جا کر
ہر اک دوست کو
اس نے کل صبح کھانے پہ مدعو کیا

ہوا سرد ہے

ہوا سرد ہے

ہوا سرد ہے 
راستے کا دیا زرد ہے 
ہر طرف دھند ہے 
گرد ہے 
دور سے جو چلا آ رہا ہے 

ایسا ہو

ایسا ہو

ایک چھوٹا سا لکڑی کا گھر 
اور آنگن میں پھرتی ہوئی مرغیاں 
بیچ میں اک کنواں 
اور چاروں طرف کھیت ہی کھیت 
کھیتوں میں اک رستہ ہو 

پہلے ایسا ہوتا تھا

پہلے ایسا ہوتا تھا
بھانت بھانت کے بندر
شہر کی فصیلوں پر
محفلیں جماتے تھے
گھر میں کود آتے تھے
ہاتھ میں سے بچوں کے
روٹی نوچ جاتے تھے

Saturday 19 January 2019

جب خزاں آئے تو پتے نہ ثمر بچتا ہے

جب خزاں آۓ تو پتے نہ ثمر بچتا ہے
خالی جھولی لیے ویران شجر بچتا ہے
نکتہ چیں! شوق سے دن رات مرے عیب نکال
کیونکہ جب عیب نکل جائیں، ہنر بچتا ہے
سارے ڈر بس اسی ڈر سے ہیں کہ کھو جائے نہ یار
یار کھو جائے تو پھر کون سا ڈر بچتا ہے

گرچہ مہنگا ہے مذہب خدا مفت ہے

گرچہ مہنگا ہے مذہب، خدا مفت ہے
اک خریدو گے تو دوسرا مفت ہے
کیوں الجھتے ہو ساقی سے قیمت پہ تم 
دام تو جام کے ہیں، نشہ مفت ہے
آئینوں کی دُکاں میں لکھا تھا کہیں
آپ اندھے ہیں تو آئینہ مفت ہے

Saturday 5 January 2019

ہر بول اس کا روح کے آزار چاٹ لے

ہر بول اس کا روح کے آزار چاٹ لے
جس کی زبان خاکِ درِ یار چاٹ لے
گلچیں نہ پا سکا کبھی جوہر پہ دسترس
مشکل ہے کوئی پھول کی مہکار چاٹ لے
ملتا ہے اور تشنگئ راہرو کو چین
پانی جو آبلے کا کوئی خار چاٹ لے

ان کی نظریں راز الفت پا گئیں

ان کی نظریں رازِ الفت پا گئیں
آنکھوں ہی آنکھوں میں دل تک آ گئیں
حسن کی کرنیں تھیں سب پہ چھا گئیں
وقت کی رفتار تک ٹھہرا گئیں
کیا بتائیں کیوں ہے آنکھوں میں نمی
کچھ پرانی محفلیں یاد آ گئیں