رنگ بدلا یار نے، وہ پیار کی باتیں گئیں
وہ ملاقاتیں گئیں، وہ چاندنی راتیں گئیں
پی تو لیتا ہوں مگر پینے کی وہ باتیں گئیں
وہ جوانی، وہ سِیہ مستی، وہ برساتیں گئیں
اللہ، اللہ، کہہ کے بس اِک آہ کرنا رہ گیا
وہ نمازیں، وہ دعائیں، وہ مناجاتیں گئیں
دو روز میں شباب کا عالم گزر گیا
“بدنام کرنے آیا تھا، بدنام کر گیا”
بیمارِ غم، مسِیحا کو حیران کر گیا
اٹھا، جھکا، سلام کِیا، گِر کے مر گیا
گزرے ہوئے زمانے کا اب تذکرہ ہی کیا
اچھا گزر گیا، بہت اچھا گزر گیا
بدل سکا نہ جدائی کے غم اٹھا کر بھی
کہ میں تو میں ہی رہا تجھ سے دور جا کر بھی
میں سخت جان تھا اس کرب سے بھی بچ نکلا
میں جی رہا ہوں تجھے ہاتھ سے گنوا کر بھی
خدا کرے، تجھے دوری ہی راس آ جائے
تُو کیا کرے گا بھلا اب یہاں پہ آ کر بھی
جو سیلِ درد اٹھا تھا، وہ جان چھوڑ گیا
مگر وہ جسم پہ اپنا نشان چھوڑ گیا
ہر ایک چیز میں خوشبو ہے اسکے ہونے کی
عجب نشانیاں وہ مِرا میہمان چھوڑ گیا
ذرا سی دیر کو بیٹھا، جھکا گیا شاخیں
پرندہ پیڑ میں اپنی تھکان چھوڑ گیا
مکانِ دل سے جو اٹھتا تھا وہ دھواں بھی گیا
بُجھی جو آتشِ جاں، زِیست نشاں بھی گیا
بہت پناہ تھی اس گھر کی چھت کے سائے میں
وہاں سے نکلے تو پھر سر سے آسماں بھی گیا
بڑھا کچھ اور تجسس، جلا کچھ اور بھی ذہن
حقیقتوں کے تعاقب میں، میں جہاں بھی گیا
وقت خوش خوش کاٹنے کا مشورہ دیتے ہوئے
رو پڑا وہ آپ، مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئے
اس سے کب دیکھی گئ تھی میرے رُخ کی مُردنی
پھیر لیتا تھا وہ منہ، مجھ کو دوا دیتے ہوئے
خوابِ بے تعبیر سی سوچیں مِرے کس کام کی
سوچتا اتنا تو وہ دستِ عطا دیتے ہوئے
نشان قافلہ در قافلہ رہے گا مِرا
جہاں ہے گردِ سفر، سِلسلہ رہے گا مِرا
مجھے نہ تُو نے مِری زندگی گزارنے دی
زمانے! تجھ سے ہمیشہ گِلہ رہے گا مِرا
سِیہ دلوں میں ستاروں کی فصل بونے کو
ہنر چراغ کی لَو سے مِلا رہے گا مِرا
تم غلط سمجھے، ہمیں اور پریشانی ہے
یہ تو آسانی ہے جو بے سر و سامانی ہے
خواہشِ دِید سرِ وصل جو نکلی نہیں تھی
لمحۂ ہجر میں تجرید کی عریانی ہے
کیوں بھلا بوجھ اٹھاؤں میں تِرے خوابوں کا
میرے آئینے میں کیا کم کوئی حیرانی یے
رہینِ خواب ہوں اور خواب کے مکاں میں ہوں
جہان مجھ سے سوا ہے، میں جس جہاں میں ہوں
عجب طرح کا خِرد خیز ہے جنوں میرا
مجھے خبر ہے، میں کارِ رائیگاں میں ہوں
تُو مجھ کو پھینک چکا کب کا اپنے دشمن پر
میں اب کماں میں نہیں ہوں، تِرے گماں میں ہوں
گزرے ہوئے طویل زمانے کے بعد بھی
دل میں رہا وہ چھوڑ کے جانے کے بعد بھی
پہلو میں رہ کے دل نے دیا ہے بہت فریب
رکھا ہے اس کو یاد بھلانے کے بعد بھی
وہ حسن ہے، کسی میں نہیں تابِ دید کی
پنہاں ہے وہ نقاب اٹھانے کے بعد بھی
نہ کوئی رنگ نہ ہاتھوں میں حنا میرے بعد
وہ مکمل ہی سِیہ پوش ہوا میرے بعد
لےکے جاتا رہا ہر شام وہ پھول اور چراغ
بس یہی اس نے کِیا، جتنا جِیا میرے بعد
روز جا کر وہ سمندر کے کنارے چپ چاپ
ناؤ کاغذ کی بہاتا ہی رہا میرے بعد
کتنا حسین پھر سے نظارہ بنا دیا
جیسے خدا نے اس کو دوبارہ بنا دیا
آیا تھا امتحان میں مضمون حسن پر
پرچے میں سب نے چہرہ تمہارا بنا دیا
کشتی کو آسرا کوئی تھوڑا سا تو رہے
رنگوں سے بادباں پہ کنارہ بنا دیا
آنکھوں میں آنسوؤں کو ابھرنے نہیں دیا
مٹی میں موتیوں کو بکھرنے نہیں دیا
جس راہ پر پڑے تھے تِرے پاؤں کے نشاں
اس راہ سے کسی کو گزرنے نہیں دیا
چاہا تو چاہتوں کی حدوں سے گزر گئے
نشہ محبتوں کا اترنے نہیں دیا
فلک سے خاک پر لایا گیا ہوں
کہاں کھویا، کہاں پایا گیا ہوں
میں زیور ہوں عروسِ زِندگی کا
بڑے تیور سے پہنایا گیا ہوں
نہیں عرض و گزارش میرا شیوہ
صدائے کُن میں فرمایا گیا ہوں
گزر گیا جو زمانہ اسے بھُلا ہی دو
جو نقش بن نہیں سکتا سے مِٹا ہی دو
کھُلے گا ترکِ تعلق کے بعد بابِ فنا
یہ آخری پردہ بھی اب اُٹھا ہی دو
رُکی رُکی سی ہوا ہے، تھکا سا تھکا سا چاند
وفا کے دشت میں حیراں کھڑے ہیں راہی دو
میں تیرے سنگ کیسے چلوں سجنا
تُو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا
تُو میرا ہاتھ ہاتھوں میں لے کے چلے، مہربانی تیری
تیری آہٹ سے دل کا درِیچہ کھلے، میں دیوانی تیری
تُوغبارِ سفر، میں خِزاں کی صدا
تُو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا
ہم تھے، ہمارے ساتھ کوئی تیسرا نہ تھا
ایسا حسِین دن کہیں دیکھا سنا نہ تھا
آنکھوں میں اس کی تَیر رہے تھے حیا کے رنگ
پلکیں اٹھا کے میری طرف دیکھتا نہ تھا
کچھ ایسے اس کی جِھیل سی آنکھیں تھیں ہر طرف
ہم کو سوائے ڈوبنے کے راستہ نہ تھا
دامِ خوشبو میں گرفتار صبا ہے کب سے
لفظ، اظہار کی الجھن میں پڑا ہے کب سے
اے کڑی چُپ کے در و بام سجانے والے
منتظر کوئی سرِ کوہِ ندا ہے کب سے
چاند بھی میری طرح حسن شناسا نِکلا
اس کی دیوار پہ حیران کھڑا ہے کب سے
زندگی کے میلے میں، خواہشوں کے ریلے میں
تم سے کیا کہیں جاناں! اس قدر جھمیلے میں
وقت کی روانی ہے، بخت کی گرانی ہے
سخت بے زمینی ہے، سخت لامکانی ہے
ہجر کے سمندر میں
تخت اور تختے کی ایک ہی کہانی ہے
چپکے چپکے جل جاتے ہيں لوگ محبت کرنے والے
پُروا سنگ نکل جاتے ہيں، لوگ محبت کرنے والے
آنکھوں آنکھوں چل پڑتے ہيں تاروں کی قنديل لئے
چاند کے ساتھ ہی ڈھل جاتے ہيں لوگ محبت کرنے والے
دل ميں پھول کھلا ديتے ہيں لوگ محبت کرنے والے
آگ ميں راگ جگاتے ديتے ہيں لوگ محبت کرنے والے
تیرے اِرد گِرد وہ شور تھا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
نہ میں کہہ سکا نہ تُو سن سکا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
میرے دل کو درد سے بھر گیا، مجھے بے یقین سا کر گیا
تیرا بات بات پہ ٹوکنا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
تِرے شہر میں مِرا ہمسفر، وہ دُکھوں جمِ غفیر تھا
مجھے راستہ نہیں مِل سکا، مِری بات بیچ میں رہ گئی
حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے
تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارا ہے
کسی چراغ میں ہم ہیں، کسی کنول میں ہو تم
کہیں جمال ہمارا، کہیں تمہارا ہے
وہ کیا وصال کا لمحہ تھا جس کے نشے میں
تمام عمر کی فرقت ہمیں گوارا ہے
ظاہر شمال میں کوئی تارا ہُوا تو ہے
اِذنِ سفر کا ایک اشارا ہُوا تو ہے
کیا ہے، جو رکھ دیں آخری داؤ میں نقدِ جاں
ویسے بھی ہم نے کھیل ہارا ہُوا تو ہے
وہ جان، اس کو خیر خبر ہے بھی یا نہیں
دِل ہم نے اس کے نام پہ وارا ہُوا تو ہے
ہم ہی کچھ کارِ محبت میں تھے انجان بہت
ورنہ نِکلے تھے تِرے وصل کے عنوان بہت
دل بھی کیا چیز ہے اب پا کے اسے سوچتا ہوں
کیا اسی واسطے چھانے تھے بیابان بہت
فاصلے راہِ تعلق کے مِٹیں گے کیونکر
حُسن پابندِ انا، عشق تن آسان بہت
کوئی بھی لمحہ کبھی لوٹ کر نہیں آیا
وہ شخص ایسا گیا، پھر نظر نہیں آیا
وفا کے دشت میں رَستہ نہیں مِلا کوئی
سوائے گردِ سفر، ہمسفر نہیں آیا
پلٹ کے آنے لگے شام کے پرندے بھی
ہمارا صُبح کا بُھولا مگر نہیں آیا
امید کے افق سے نہ اٹھا غبار تک
دیکھی اگرچہ راہ، خزاں سے بہار تک
رکھنے کو تیرے وعدۂ نامعتبر کی لاج
جھیلی ہے دل نے زحمتِ صبر و قرار تک
دیکھا ہے کس نے منہ سحرِ جلوہ ساز کا
سب ولولے ہیں ایک شبِ انتظار تک
اِک مہک سی دمِ تحریر کہاں سے آئی
نام میں تیرے یہ تاثیر کہاں سے آئی
پہلوئے ساز سے اِک موجِ ہوا گزری تھی
یہ چھنکتی ہوئی زنجیر کہاں سے آئی
دَم ہمارا تو رہا حلقۂ لب ہی میں اسیر
بُوئے گل یہ تِری تقدیر کہاں سے آئی
جھپکی ذرا جو آنکھ، جوانی گزر گئی
بدلی کی چھاؤں تھی، اِدھر آئی اُدھر گئی
مشاطۂ بہار عجب گُل کتر گئی
منہ بند جو کلی تھی، کِھلی اور سنور گئی
پیشِ جمالِ یار، کِرن آفتاب کی
شرما کے چاہتی تھی کہ پلٹے، بِکھر گئی
غم نہیں مجھ کو جو وقتِ امتحاں مارا گیا
خوش ہوں تیرے ہاتھ سے اے جانِ جاں! مارا گیا
تیغِ ابرو سے دلِ عاشق کو ملتی کیا پناہ
جو چڑھا منہ پر اجل کے بے گماں مارا گیا
منزلِ معشوق تک پہنچا سلامت کب کوئی
رہزنوں سے کارواں کا کارواں مارا گیا
دل کا رونا ٹھیک نہیں ہے، منہ کو کلیجا آنے دو
تھمتے ہی تھمتے اشک تھمیں گے، ناصح کو سمجھانے دو
کہتے ہی کہتے حال کہیں گے، ایسی تمہیں کیا جلدی ہے
دل کو ٹھکانے ہونے دو اور آپ میں ہم کو آنے دو
بزمِ طرب میں دیکھ کے مجھ کو پھیر لیں آنکھیں ساقی نے
میرے لیے تھے زہرِ ہلاہل، اس کے بھرے پیمانے دو
اس کی کتھئی آنکھوں میں ہیں جنتر منتر سب
چاقو واقو، چھریاں وریاں، خنجر ونجر سب
جس دن سے تم روٹھیں، مجھ سے روٹھے روٹھے ہیں
چادر وادر، تکیہ وکیہ، بستر وستر سب
مجھ سے بچھڑ کے وہ بھی کہاں اب پہلے جیسی ہے
پھیکے پڑ گئے کپڑے وپڑے، زیور ویور سب
تمہارے جسم کی خوشبو گُلوں سے آتی ہے خبر تمہاری بھی اب دوسروں سے آتی ہے ہمیں اکیلے نہیں جاگتے ہیں راتوں میں اُسے بھی نیند بڑی مشکلوں سے آتی ہے ہماری آنکھوں کو میلا تو کر دیا ہے، مگر محبتوں میں چمک آنسوؤں سے آتی ہے
پیروں کو میرے دیدۂ تر باندھے ہوئے ہے زنجیر کی صورت مجھے گھر باندھے ہوئے ہے ہر چہرے میں آتا ہے نظر ایک ہی چہرہ لگتا ہے کوئی میری نظر باندھے ہوئے ہے بچھڑیں گے تو مر جائیں گے ہم دونوں بچھڑ کر اک ڈور میں ہم کو یہی ڈر باندھے ہوئے ہے
خون رُلوائے گی یہ جنگل پرستی ایک دن سب چلے جائیں گے خالی کر کے بستی ایک دن چُوستا رہتا ہے رس بھونرا ابھی تک دیکھ لو پھُول نے بھُولے سے کی تھی سرپرستی ایک دن دینے والے نے طبیعت کیا عجب دی ہے اسے ایک دن خانہ بدوشی، گھر گرہستی ایک دن
جرأت سے ہر نتیجے کی پرواہ کیے بغیر
دربار چھوڑ آیا ہوں سجدہ کیے بغیر
یہ شہرِ احتجاج ہے خاموش مت رہو
حق بھی نہیں ملے گا تقاضا کیے بغیر
پھر ایک امتحاں سے گزرنا ہے عشق کو
روتا ہے وہ بھی آنکھ کو میلا کیے بغیر
بابل کی دعائیں لیتی جا، جا تجھ کو سُکھی سنسار ملے
میکے کی کبھی نہ یاد آئے، سسرال میں اتنا پیار ملے
بابل کی دعائیں لیتی جا
نازوں سے تجھے پالا میں نے، کلیوں کی طرح، پھولوں کی طرح
بچپن میں جھُلایا ہے تجھ کو بانہوں نے میری جھُولوں کی طرح
میرے باغ کی اے نازک ڈالی! تجھے ہر پَل نئی بہار ملے
آخر کو تِرا درد سے یارانہ ہوا نا
تُو اُن کی عنایات سے بے گانہ ہوا نا
ویسے تو بہت بانٹتا پھِرتا ہوں محبت
دل کھول کے دیتا نہیں، دریا نہ ہوا نا
ملتی ہے شراب اور، شباب اور، کباب اور
جنت نہ ہوئی آپ کی، مے خانہ ہوا نا
کچھ لوگ جو جاتے ہیں پلٹتے ہی نہیں ہیں
اور ان کے بِنا دن ہیں کہ کٹتے ہی نہیں ہیں
بِکھرے ہی کچھ ایسے ہیں کہ کیا شعر کہوں میں
گیسُو تِرے لفظوں میں سِمٹتے ہی نہیں ہیں
ماتھے پہ جو آئے ہیں یہ ہاتھوں سے ہٹا لوں
پر، بال جو شیشے میں ہیں ہٹتے ہی نہیں ہیں
وہ ضبط جو اس درد کے مارے میں نہیں تھا
وہ آپ کے ابرو کے اشارے میں نہیں تھا
ہر لفظ میں اس کے، مِری باتوں کی جھلک تھی
اِک لفظ بھی اس کا مِرے بارے میں نہیں تھا
میں نے تِری دنیا کی ہرایک چیز خریدی
پر پیار کا سودا مِرے وارے میں نہیں تھا
آئینہ خانے کو مشکل میں تو ڈالا ہی نہیں
مسکراہٹ کو ابھی اس نے اچھالا ہی نہیں
کون کہتا ہے کہ تُو چھوڑ گیا ہے مجھ کو
سچ تو یہ ہے کہ تجھے دل سے نکالا ہی نہیں
ہم اسی بات پہ درویش بنے پھرتے ہیں
دولتِ بابِ سخن پر کوئی تالہ ہی نہیں
سوچنا رُوح میں کانٹے سے بچھائے رکھنا
یہ بھی کیا سانس کی تلوار بنائے رکھنا
اب تو یہ رسم ہے خُوشبو کے قصیدے پڑھنا
پھُول گُلدان میں کاغذ کے سجائے رکھنا
تیرگی ٹُوٹ پڑے بھی تو بُرا مت کہیو
ہو سکے گر تو چراغوں کو جلائے رکھنا
اشارتوں کی وہ شرحیں وہ تجزیہ بھی گیا
جو گردِ متن بنا تھا، وہ حاشیہ بھی گیا
وہ دلربا سے جو سپنے تھے لے اڑیں نیندیں
دھنک نگر سے وہ دھندلا سا رابطہ بھی گیا
ہمیں بھی بننے سنورنے کا دھیان رہتا تھا
وہ ایک شخص کہ تھا ایک آئینہ بھی، گیا
پڑھنے بھی نہ پائے تھے کہ وہ مِٹ بھی گئی تھی
بجلی نے گھٹاؤں پہ جو تحریر لکھی تھی
اس شہر کے دیوار و در آسیب زدہ تھے
گلیوں میں بھی تا حدِ نظر برف جمی تھی
چپ سادھ کے بیٹھے تھے سبھی لوگ وہاں پر
پردے میں جو تصویر تھی، کچھ بول رہی تھی
کیوں کِسی اور کو دکھ درد سناؤں اپنے
اپنی آنکھوں سے بھی میں زخم چھپاؤں اپنے
میں تو قائم ہوں تیرے غم کی بدولت، ورنہ
یوں بِکھر جاؤں، کہ خُود ہاتھ نہ آؤں اپنے
شعر لوگوں کے بہت یاد ہیں اوروں کے لیے
تُو مِلے تو میں تجھے شعر سناؤں اپنے
آج تمہاری خُونخواری پر حیرت ہے حیوانوں کو
تم تو کل تہذیب سِکھانے نکلے تھے انسانوں کو
یہ بھی کیسا شوق ہے تم کو شہروں کی بربادی کا
جگہ جگہ آباد کیا ہے تم نے قبرستانوں کو
ہنستے بستے قریے تم نے شعلوں میں کفنائے ہیں
ریت میں دفن کیا ہے تم نے کتنے نَخلستانوں کو
غبارِ جاں نکلنا جانتا ہے
دھواں روزن کا رَستہ جانتا ہے
تم اس کی رہنمائی کیا کرو گے
کِدھر جانا ہے، دریا جانتا ہے
بہت حیراں ہوا میں اس سے مل کر
مجھے اِک شخص کتنا جانتا ہے
مِری آبائی تلواروں کے دَستے بیچ ڈالے ہیں
بہت مہنگے تھے یہ ہِیرے جو سَستے بیچ ڈالے ہیں
وہ جن پہ چل کے منزل پر پہنچنا تھا غریبوں کو
امیرِ شہر نے وہ سارے رَستے بیچ ڈالے ہیں
مِرے دریاؤں کا پانی اٹھا ڈالا ہے ٹھیکے پر
وہ بادل تھے جو کھیتوں پر برستے، بیچ ڈالے ہیں
دنیا بھی عجب قافلۂ تشنہ لباں ہے
ہر شخص سرابوں کے تعاقب میں رواں ہے
تنہا تِری محفل میں نہیں ہوں کہ مِرے ساتھ
اِک لذّتِ پابندئ اظہار و بیاں ہے
جو دل کے سمندر میں ابھرتا ہے، یقیں ہے
جو ذہن کے ساحل سے گزرتا ہے، گماں ہے
میں جرمِ خموشی کی صفائی نہیں دیتا
ظالم اسے کہیے جو دھائی نہیں دیتا
کہتا ہے کہ آواز یہیں چھوڑ کے جاؤ
میں ورنہ تمہیں اِذنِ رِہائی نہیں دیتا
چَرکے بھی لگے جاتے ہیں دیوارِ بدن پر
اور دستِ سِتمگر بھی دِکھائی نہیں دیتا
کب ضیاء بار ترا چہرۂ زیبا ہو گا
کیا جب آنکھیں نہ رہیں گی تو اجالا ہو گا
مشغلہ اس نے عجب سونپ دیا ہے یارو
عمر بھر سوچتے رہیے کہ وہ کیسا ہو گا
جانے کس رنگ سے روٹھے گی طبعیت اس کی
جانے کس ڈھنگ سے اب اس کو منانا ہو گا
عمر بھر کاوشِ اظہار نے سونے نہ دیا
حرفِ ناگفتہ کے آزار نے سونے نہ دیا
دشت کی وسعتِ بے قید میں کیا نیند آتی
گھر کی قید، در و دیوار نے سونے نہ دیا
تھک کے سو رہنے کو رَستے میں ٹھکانے تھے بہت
ہوسِ سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا
وہ مِرے دل کی روشنی، وہ میرے داغ لے گئی
ایسی چلی ہوائے شام، سارے چراغ لے گئی
شاخ و گُل و ثمر کی بات کون کرے، کہ ایک رات
بادِ شمال آئی تھی، باغ کا باغ لے گئی
وقت کی موجِ تُند رو آئی تھی، سُوئے مے کدہ
میری شراب پھینک کر میرے ایاغ لے گئی
عشق میں جس کے یہ احوال بنا رکھا ہے
اب وہی کہتا ہے اِس وضع میں کیا رکھا ہے
لے چلے ہو مجھے اس بزم میں یارو! لیکن
کچھ مِرا حال بھی پہلے سے سُنا رکھا ہے
حالِ دل کون سنائے اُسے، فُرصت کس کو
سب کو اُس آنکھ نے باتوں میں لگا رکھا ہے
دیکھنے کے لیے اِک شرط ہے منظر ہونا
دوسری شرط ہے پھر آنکھ کا پتھر ہونا
وہیں دیوار اٹھا دی مِرے معماروں نے
گھر کے نقشے میں مقرر تھا جہاں در ہونا
مجھ کو دیکھا تو فلک زاد رفیقوں نے کہا
اس ستارے کا مقدر ہے زمیں پر ہونا
دلوں میں درد بھرتا، آنکھ میں گوہر بناتا ہوں
جنہیں مائیں پہنتی ہیں میں وہ زیور بناتا ہوں
غنِیمِ وقت کے حملے کا مجھ کو خوف رہتا ہے
میں کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتا ہوں
پرانی کشتیاں ہیں میرے ملاحوں کی قسمت میں
میں ان کے بادباں سِیتا ہوں اور لنگر بناتا ہوں
جانے کسی نے کیا کہا تیز ہوا کے شور میں
مجھ سے سُنا نہیں گیا تیز ہوا کے شور میں
میں بھی تجھے نہ سُن سکا تُو بھی مجھے نہ سُن سکا
تجھ سے ہُوا مکالمہ، تیز ہوا کے شور میں
کشتیوں والے بے خبر بڑھتے رہے بھنور کی سمت
اور میں چیختا رہا تیز ہوا کے شور میں
تَرک ان سے رسم و راہ و ملاقات ہو گئی
یوں مِل گئے کہیں تو کوئی بات ہو گئی
دل تھا اُداس عالمِ غُربت کی شام تھی
کیا وقت تھا کہ تم سے ملاقات ہو گئی
یہ دشتِ ہول خیز یہ منزل کی دُھن یہ شوق
یہ بھی خبر نہیں کہ کہاں رات ہو گئی
اب بتاؤ! جائے گی زندگی کہاں یارو
پھر ہیں برق کی نظریں سُوئے آشیاں یارو
اب نہ کوئی منزل ہے اور نہ رہگزر کوئی
جانے قافلہ بھٹکے اب کہاں کہاں یارو
پھول ہیں کہ لاشیں ہیں، باغ ہے کہ مقتل ہے
شاخ شاخ ہوتا ہے دار کا گُماں یارو
منزل کے خواب دیکھتے ہیں پاؤں کاٹ کے
کیا سادہ دل یہ لوگ ہیں گھر کے نہ گھاٹ کے
اب اپنے آنسوؤں میں ہیں ڈوبے ہوئے تمام
آئے تھے اپنے خون کا دریا جو پاٹ کے
شہرِ وفا میں حقِ نمک یوں ادا ہوا
محفل میں ہیں لگے ہوئے پیوند ٹاٹ کے
اِس بار وہ مِلا تو عجیب اُس کا رنگ تھا
الفاظ میں ترنگ، نہ لہجہ دَبنگ تھا
اِک سوچ تھی کہ بِکھری ہوئی خال و خد میں تھی
اِک درد تھا کہ جس کا شاہد انگ انگ تھا
اِک آگ تھی کہ راکھ میں پوشیدہ تھی کہیں
اِک جِسم تھا کہ رُوح سے مصروفِ جنگ تھا
میں کون ہوں کیا ہوں میری تحریر کہے گی
خاموش ہوا تو میری تصویر کہے گی
کیوں سرخ ہیں نقشِ کفِ پا، راہِ طلب میں
کوئی نہ کہے، پاؤں کی زنجیر کہے گی
ہم کو تو سدا نیند میں چلنے کا مرض ہے
پہنچیں گے کہاں، خواب کی تعبیر کہے گی
یہ آرزُو ہی رہی، کوئی آرزُو کرتے
خُود اپنی آگ میں جلتے، جِگر لہُو کرتے
تیرے جمال کا پَرتَو نگاہ میں ہوتا
کبھی صبا سے کبھی گُل سے گُفتگُو کرتے
تیرے خیال میں گُم ہو کے اِک غزل کہتے
اور اِس غزل کو نہ رُسوا کُو بہ کُو کرتے
یہ آرزُو ہے کہ جب بھی گلے لگاؤں اُسے
حصارِ زِیست سے باہر نکال لاؤں اسے
وہ جل رہا تھا کڑی دُھوپ کی تمازت میں
مِلا جو اب تو اوڑھا دوں گا اپنی چھاؤں اسے
یہ عشق بھی ہے عجب امتحانِ عہدِ وفا
وہ آزمائے مجھے اور میں آزماؤں اسے
تجھ کو معلوم نہیں، تجھ کو بھلا کیا معلوم
تیرے چہرے کے وہ سادہ سے اچُھوتے سے نقُوش
کیا تخیّل کو مِرے رنگ عطا کرتے ہیں
تیری زُلفیں، تِری آنکھیں، تِرے عارض، تِرے ہونٹ
کیسی انجانی سی معصُوم خطا کرتے ہیں
اٹھا لیتا ہے اپنی ایڑیاں جب ساتھ چلتا ہے
وہ بونا کس قدر میرے قد و قامت سے جلتا ہے
کبھی اپنے وسائل سے نہ بڑھ کر خواہشیں پالوں
وہ پودا ٹوٹ جاتا ہے جو لا محدود پھلتا ہے
مسافت میں نہیں حاجت اسے چھتنار پیڑوں کی
بیاباں کی دہکتی گود میں جو شخص پلتا ہے
دن کو میں لوہے کی ایک مِل میں مزدوری کرتا ہوں
شام کی اپنی نامکمل غزلیں پوری کرتا ہوں
میری گمنامی کا مؤجب ان لوگوں کی شہرت ہے
اپنے تن من دھن سے جن کی میں مشہوری کرتا ہوں
تم اپنے ان زہر بھرے پیالوں پر جتنے نازاں ہو
میں بھی رسمِ سقراط پر اتنی ہی مغروری کرتا ہوں
نہ شورشِ غمِ دوراں نہ خودسری اپنی
بہت دنوں سے ہے گُم صُم سُخنوری اپنی
سپرد آئینہ کرتا نہ تھا وہ عکس اپنا
اسے عزیز تھی کس درجہ دلبری اپنی
یہ دوپہر تو ڈھلے، تجھ کو راکھ ہونا ہے
جتا نہ خاک نشینوں پہ برتری اپنی
زندگی، ساقی! بہت محفوظ مے خانے میں ہے
کچھ تِری آنکھوں میں ہے، کچھ میرے پیمانےمیں ہے
پی بھی لے اے پیر صد سالہ! ذرا سی پی بھی لے
مے نہیں زاہد، جوانی میرے پیمانے میں ہے
کون سی جنت کا واعظ! کر رہا ہے ذکر تُو؟
ایسی اِک جنت تو ہم رِندوں کے مے خانے میں ہے
آنکھوں کے چراغوں میں اجالے نہ رہیں گے
آ جاؤ، کہ پھر دیکھنے والے نہ رہیں گے
جا شوق سے، لیکن پلٹ آنے کے لیے جا
ہم دیر تک اپنے کو سنبھالے نہ رہیں گے
اے ذوقِ سفر! خیر ہو نزدیک ہے منزل
سب کہتے ہیں اب پاؤں میں چھالے نہ رہیں گے
اکیلے ہیں وہ اور جھنجلا رہے ہیں
مِری یاد سے جنگ فرما رہے ہیں
الٰہی! مِرے دوست ہوں خیریت سے
یہ کیوں گھر میں پتھر نہیں آ رہے ہیں
یہ کیسی ہوائے ترقی چلی ہے
دِیے تو دِیے، دل بجھے جا رہے ہیں
تشنگی اپنی بجھانے کے لیے جب گئے ہیں
دَشت بے چارے سمندر کے تَلے دَب گئے ہیں
کوچ کرنے کی گھڑی ہے، مگر اے ہمسفرو
ہم ادھر جا نہیں سکتے جدھر سب گئے ہیں
غیر شائستۂ آدابِ 💗محبت💗 نہ سہی
میں تو سایہ ہوں گھٹاؤں سے اترنے والا
ہے کوئی پیاس کے صحرا سے گزرنے والا
تُو سمجھتا ہے مجھے حرفِ مکرّر، لیکن
میں صحیفہ ہوں تِرے دل پہ اترنے والا
تُو مجھے اپنی ہی آواز کا پابند نہ کر
میں تو نغمہ ہوں فضاؤں میں بِکھرنے والا
زہرِ چشمِ ساقی میں کچھ عجیب مستی ہے
غرق کُفر و اِیماں ہیں، دَورِ مے پرستی ہے
شمع ہے سرِ محفل، کچھ کہا نہیں جاتا
شعلۂ زباں لے کر، بات کو ترستی ہے
زُلفِ یار کی زَد میں دَیر بھی ہے کعبہ بھی
یہ گھٹا جب اٹھتی ہے، دُور تک برستی ہے
وہ برقِ ناز گریزاں نہیں تو کچھ بھی نہیں
مگر شریکِ رگِ جاں نہیں تو کچھ بھی نہیں
ہزار، دل ہے تِرا مشرقِ مہ و خورشید
غبارِ منزلِ جاناں نہیں تو کچھ بھی نہیں
سکونِ دل تو کہاں ہے، مگر یہ خوابِ سکوں
نثارِ زُلفِ پریشاں نہیں تو کچھ بھی نہیں
عشقِ بُتاں کا لے کے سہارا کبھی کبھی
اپنے خدا کو ہم نے پکارا کبھی کبھی
آسودۂ خاطر ہی نہیں مطمحِ وفا
غم بھی کِیا ہے ہم نے گوارہ کبھی کبھی
اِس اِنتہائے ترکِ محبت کے باوجود
ہم نے لِیا ہے نام تمہارا کبھی کبھی
سب دیکھنے والے انہیں غش کھائے ہوئے ہیں
اس پر بھی تعجب ہے، وہ شرمائے ہوئے ہیں
اے جان جہاں! ہم کو زمانے سے غرض کیا
جب کھو کے زمانے کو تجھے پائے ہوئے ہیں
حیران ہوں، کیوں مجھ کو دکھائی نہیں دیتے
سنتا ہوں مِری بزم وہ آئے ہوئے ہیں
جب پیار نہیں تھا تو بھُلا کیوں نہیں دیتے
خط کس لیے رکھے ہیں، جلا کیوں نہیں دیتے
کس واسطے لِکھا ہے ہتھیلی پہ میرا نام
میں حرفِ غلط ہوں تو مِٹا کیوں نہیں دیتے
لِلّہ شب و روز کی الجھن سے تو نکلوں
تم میرے نہیں ہو تو بتا کیوں نہیں دیتے
یہ کون آ گئی، دِلرُبا مہکی مہکی
فضا مہکی مہکی، ہوا مہکی مہکی
وہ آنکھوں میں کاجل، وہ بالوں میں گَجرا
ہتھیلی پہ اس کی حِنا مہکی مہکی
خدا جانے کس کس کی یہ جان لے گی
وہ قاتل ادا، وہ صبا مہکی مہکی
شعلہ ہی سہی، آگ لگانے کے لئے آ
پھر طُور کے منظر کو دِکھانے کے لئے آ
یہ کِس نے کہا ہے، میری تقدیر بنا دے
آ، اپنے ہی ہاتھوں سے مِٹانے کے لئے آ
اے دوست! مجھے گردشِ حالات نے گھیرا
تو زُلف کی کَملی میں چھُپانے کے لئے آ
وہ اپنے چہرے میں سو آفتاب رکھتے ہیں
اسی لئے تو وہ رُخ پہ نقاب رکھتے ہیں
وہ پاس بیٹھے تو آتی ہے دِلرُبا خُوشبو
وہ اپنے ہونٹوں پہ کھِلتے گُلاب رکھتے ہیں
ہر ایک ورق میں تم ہی تم ہو جانِ محبوب
ہم اپنے دل کی کچھ ایسی کتاب رکھتے ہیں
رات کچھ یارِ طرحدار بہت یاد آئے
وہ گلی کوچے، وہ بازار بہت یاد آئے
جن کے ہونے کی تسلی سے خوشی ہوتی تھی
درد چمکا، تو وہ غمخوار بہت یاد آئے
شامِ فُرقت میں چمکتی ہوئی صبحوں کی طرح
اپنے گھر کے در و دیوار بہت یاد آئے
مجھے سارے رنج قبول ہیں اسی ایک شخص کے پیار میں
مِری زیست کے کسی موڑ پر جو مجھے مِلا تھا بہار میں
وہی اِک امید ہے آخری اسی ایک شمع سے روشنی
کوئی اور اس کے سوا نہیں، میری خواہشوں کے دیار میں
وہ یہ جانتے تھے کہ آسمانوں، کے فیصلے ہیں کچھ اور ہیں
سو ستارے دیکھ کے ہنس پڑے مجھے تیری بانہوں کے ہار میں
تمام عمر تڑپتے رہیں کسی کے لیے
اور اپنی موت بھی آئے تو بس اُسی کے لیے
جوازِ ترکِ تعلق تو کچھ نہ تھا، پھر بھی
بِچھڑ گیا ہوں میں تجھ سے تِری خوشی کے لیے
کھُلا یہ بھید بھی، لیکن تجھے گنوا کے کھُلا
مُنافقت بھی ضروری تھی دوستی کے لیے
ہر درد پہن لینا، ہر خواب میں کھو جانا
کیا اپنی طبیعت ہے، ہر شخص کا ہو جانا
اِک شہر بسا لینا بِچھڑے ہوئے لوگوں کا
پھر شب کے جزیرے میں دل تھام کے سو جانا
موضوعِ سخن کچھ ہو، تا دیر اُسے تَکنا
ہر لفظ پہ رُک جانا، ہر بات پہ کھو جانا
کیا دوستوں کا رَنج کہ بہتر نہیں مِلے
دُشمن بھی ہم کو قد کے برابر نہیں مِلے
اس بحرِ آرزُو میں جو کرتے ہمیں تلاش
اب تک تو ہم کو ایسے شناور نہیں مِلے
بس ایسا کچھ ہُوا کہ سمجھ میں نہ آ سکا
دل مِل گئے، ہمارے مقدر نہیں مِلے
باتوں باتوں میں بِچھڑنے کا اِشارہ کر کے
خود بھی رویا وہ بہت ہم سے کنارہ کر کے
سوچتا رہتا ہوں تنہائی میں انجامِ خلوص
پھر اسی جُرمِ محبت کو دوبارہ کر کے
جگمگا دی ہیں تیرے شہر کی گلیاں میں نے
اپنے ہر اشک کو پلکوں پہ ستارہ کر کے
ڈھونڈتے کیا ہو ان آنکھوں میں کہانی میری
خود میں گم رہنا تو عادت ہے پرانی میری
بھِیڑ میں بھی تمہیں مل جاؤں گا آسانی سے
کھویا کھویا ہوا رہنا ہے نشانی میری
میں نے اِک بار کہا تھا، کہ بہت پیاسا ہوں
تب سے مشہور ہوئی تشنہ دہانی میری
یونہی سی ایک بات تھی اس کا ملال کیا کریں
میرِؔ خراب حال سا اپنا بھی حال کیا کریں
ایسی فضا کے قہر میں، ایسی ہوا کے زہر میں
زندہ ہیں ایسے شہر میں، اور کمال کیا کریں
اور بہت سی الجھنیں طوق و رَسن سے بڑھ کے ہیں
ذکرِ جمال کیا کریں، فکرِ وصال کیا کریں
ہر شام اس سے مِلنے کی عادت سی ہو گئی
پھر رفتہ رفتہ اس سے محبت سی ہو گئی
شاید یہ تازہ تازہ جدائی کا تھا اثر
ہر شکل یک بیک تِری صورت سی ہو گئی
اِک نام جھِلملانے لگا دل کے طاق پر
اِک یاد جیسے باعثِ راحت سی ہو گئی
مجھے مِلنے جب آیا، ساتھ پہرے دار لے آیا
وہ خُود تلوار تھا، اِک دوسری تلوار لے آیا
کہیں مل بیٹھتے ہم، گفتگو آرام سے کرتے
انا کی بے سبب وہ بیچ میں دیوار لے آیا
مِری پسپائی ناممکن تھی، لیکن میں بھی کیا کرتا
مِرا دشمن نہتے میرے سب سالار لے آیا
خِزاں کے جانے سے ہو یا بہار آنے سے
چمن میں پھُول کھِلیں گے کسی بہانے سے
وہ دیکھتا رہے مُڑ مُڑ کے سُوئے دَر کب تک
جو کروٹیں بھی بدلتا نہیں ٹھکانے سے
اُگل نہ سنگِ ملامت، خُدا سے ڈر ناصح
مِلے گا کیا تُجھے شیشوں کے ٹُوٹ جانے سے
رُخ پہ گیسُو جو بِکھر جائیں گے
ہم اندھیرے میں کِدھر جائیں گے
اپنے شانے پہ نہ زُلفیں چھوڑو
دل کے شیرازے بِکھر جائیں گے
یار آیا نہ اگر وعدے پر
ہم تو بے موت کے مر جائیں گے
اب ملاقات کہاں شیشے سے، پیمانے سے
فاتحہ پڑھ کے چلے آتے ہیں مے خانے سے
کیا کریں، جام و سبو ہاتھ پکڑ لیتے ہیں
جی تو کہتا ہے کہ اُٹھ جائیے مے خانے سے
پھونک کر ہم نے ہر اِک گام پہ رکھا ہے قدم
آسماں پھر بھی نہ باز آیا سِتم ڈھانے سے
نہ اپنے ضبط کو رسوا کرو ستا کے مجھے
خُدا کے واسطے دیکھو نہ مُسکرا کے مجھے
سوائے داغ مِلا کیا چمن میں آ کے مجھے
قفس نصیب ہو آشیاں بنا کے مجھے
ادب ہے میں جھکائے ہوئے آنکھ اپنی
غضب ہے تم جو نہ دیکھو نظر اُٹھا کے مجھے
اب دَم بخود ہیں نبض کی رفتار دیکھ کر
تم ہنس رہے ہو، حالتِ بیمار دیکھ کر
سودا وہ کیا کرے گا خریدار دیکھ کر
گھبرا گیا جو گرمئ بازار دیکھ کر
اللہ! تیرے ہاتھ ہے اب آبروئے شوق
دَم گھُٹ رہا ہے وقت کی رفتار دیکھ کر
میری دعا، کہ غیر پہ ان کی نظر نہ ہو
وہ ہاتھ اٹھا رہے ہیں کہ یارب! اثر نہ ہو
ہم کو بھی ضِد یہی ہے کہ تیری سحر نہ ہو
اے شب! تجھے خدا کی قسم، مختصر نہ ہو
تم اِک طرف، تمہاری خدائی ہے اِک طرف
حیرت زدہ ہے دل کہ کِدھر ہو، کِدھر نہ ہو
تنگ آ گئے ہیں کیا کریں اس زندگی سے ہم
گھبرا کے پوچھتے ہیں اکیلے میں جی سے ہم
مجبوریوں کو اپنی کہیں کیا کسی سے ہم
لائے گئے ہیں، آئے نہیں ہیں خوشی سے ہم
کمبخت دل کی مان گئے، بیٹھنا پڑا
یوں تو ہزار بار اٹھے اس گلی سے ہم
سرفروشی کی تمنّا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
اے شہیدِ مُلک و مِلت! میں تِرے اوپر نثار
لے تِری ہِمّت کا چرچا غیر کی محفل میں ہے
وائے قسمت پاؤں کی اے ضُعف کچھ چلتی نہیں
کارواں اپنا ابھی تک پہلی ہی منزل میں ہے
اب رہا کیا ہے جو اب آئے ہیں آنے والے
جان پر کھیل چکے جان سے جانے والے
یہ نہ سمجھے تھے کہ یہ دن بھی ہیں آنے والے
انگلیاں ہم پہ اٹھائیں گے اٹھانے والے
کون سمجھائے، نہ اِٹھلا کے سرِ رہ چلیے
ہیں یہ انداز گنہ گار بنانے والے
دل شاخوں پہ کھِل اٹھیں گے پھُول، مُرادوں والے
جس دن ہم سے آن ملیں گے ساجن وعدوں والے
منظر منظر ڈھونڈ رہے ہیں ایک پھُول سا چہرہ
جس سے کچھ دن وابستہ ہیں اچھی یادوں والے
دل پہ یہ کیسی چادر ہے ایک گھنیرے دُکھ کی
جیسے شہر پہ گہرے بادل ساون بھادوں والے
پھر بجُز دشت کہاں جا کے رہیں چاہنے والے تیرے
عرصۂ شہر میں عُنقا ہیں زمانے سے حوالے تیرے
تُو نے کوتاہی نہ کی خاک اڑانے میں ہماری تو کیا
ہم نے بھی باغ میں کلیوں میں بہت رنگ اچھالے تیرے
یہ الگ بات کہ ہے اس میں زیاں ان کا سراسر لیکن
نقدِ جاں نیزوں پہ رکھے ہوئے پھِرتے ہیں جیالے تیرے
کوئی شخص کب سے بسا ہوا مِرے شہرِ جاں میں عجیب ہے
جو خزاں کی راہ میں یار ہے، جو گلاب رُت میں رقیب ہے
میں چراغ بن کے جلوں تو کیا، سرِ شاخِ سبز کھِلوں تو کیا
یہ ہوا جو میرے جلَو میں ہے، یہ زیاں جو میرا نصیب ہے
نہ کوئی کِرن مِری راہ میں، نہ وہ چاند چہرہ نگاہ میں
مِرا دشت کتنا طویل ہے، مِری رات کتنی مہیب ہے
کچھ سائے ماضی و حال کے ہیں کچھ منظر استقبال کے ہیں
کچھ راتیں ہجر پہ آمادہ، کچھ لمحے شوقِ وصال کے ہیں
اس شہرِ زیاں سے باہر کے، منظر ہوں مبارک یاروں کو
ہم خُوگر دھوپ کی شدت کے، ہم عادی گردِ ملال کے ہیں
اِک نہر رواں ہے جذبوں کی، ہم جس کے کنارے بیٹھے ہیں
اسباب ہے کچھ اندیشوں کا،کچھ خیمے خواب و خیال کے ہیں
میں وحشت خوردہ آہُو تھا دنیا نے مجھے زنجیر کیا
مِری کھال کو اپنے کمروں کی آرائش سے تعبیر کیا
تھی چہروں کی پہچان مجھے،اس جرم پہ ظالم لوگوں نے
مِرے سر کو نیزے پر رکھا، مِرے دل میں ترازو تیر کیا
ہر دھوپ کو تیرے روپ کی چھَب، ہر رنگ کو تیرا رنگِ لب
ہر جھیل سمندر دریا کو تِری آنکھوں سے تعبیر کیا
میں جھُوٹا حرف گواہی کا، میں کاذب لفظ کہانی کا
کیوں اب تک رشتہ باقی ہے، مِری آنکھوں سے حیرانی کا
میں ابرِ وصال میں بھِیگ چکا، میں ہِجر کی آگ میں راکھ ہوا
دل دریا اب بھی جوش میں ہے،عالم ہے وہی طغیانی کا
میں تنہائی کے ساحل پر، مصروفِ نظارہ ہوں کب سے
اِک اپنا حُسن نِرالا ہے یاں ہر موجِ امکانی کا
وہ لوگ بھی کیسے لوگ ہیں جو کوئی بات فضول نہیں کرتے
یہ سارے قِصے جھُوٹے ہیں، ہم ان کو قبول نہیں کرتے
تمہیں علم نہیں ہے یقین کرو، میں قریب سے جانتا ہوں ان کو
کچھ سوداگر ایسے بھی ہیں، جو قرض وصول نہیں کرتے
میں پتھر لے کر بیٹھا ہوں اور اس بستی کے دانا اب
کیوں کارِ شیشہ گری کر کے مجھ کو مشغول نہیں کرتے
میں سوچ رہا ہوں اب کے بڑا کمال ہوا
مجھے اس سے بِچھڑتے وقت ذرا نہ ملال ہوا
اِک محفل کچھ دن گرم رہی ہنگاموں کی
اور اس کے بعد سبھی کچھ خواب و خیال ہوا
اب یاد سفر کا قِصہ ہے بس اتنا سا
مجھے پیاس لگی، مِرے ہونٹ جلے میں نڈھال ہوا
سب کے پیروں میں وہی رزق کا چکر کیوں ہے
گِریہ اس عہد کے لوگوں کا مقدر کیوں ہے
یہ جو منظر ہیں بڑے کیوں ہیں مِری آنکھوں سے
یہ جو دنیا ہے مِرے دل کے برابر کیوں ہے
آسمانوں پہ بہت دیر سے ٹھہری ہے شفق
سوچتا ہوں کہ ابھی تک یہی منظر کیوں ہے
کہتے ہیں لوگ شہر تو یہ بھی خدا کا ہے
منظر یہاں تمام مگر کربلا کا ہے
آتے ہیں برگ و بار درختوں کے جسم پر
تم بھی اٹھاؤ ہاتھ کہ موسم دعا کا ہے
غیروں کو کیا پڑی ہے کہ رُسوا کریں مجھے
ان سازشوں میں ہاتھ کسی آشنا کا ہے
چھُڑائیں کس طرح پیچھا تِرے غم سے
یہی تو طے نہیں ہو پائے گا ہم سے
ابھی پہلُو سے نکلا تھا کہ پھر آ کر
خیالِ یار، دل پر آ گِرا دَھم سے
تجھے دیکھیں تو کیسے جانِ جاں! اب تک
یہ آنکھیں تَر ہیں تیرے ہِجر کے نَم سے
خمارِ ذات کی حِدت سے جھُومتا ہُوا دیکھ
دِیا ہوا کے سمندر میں تیرتا ہوا دیکھ
نظر اٹھا سرِ آئینۂ فراق، اور پھر
خزاں کا رنگ رگِ گُل میں رینگتا ہوا دیکھ
اب ایسے وقت میں تُو کیا کرے گا میرے لیے
چل ایسا کر، مِری سانسوں کو ٹُوٹتا ہوا دیکھ
ایک سے ایک انوکھا ستم ایجاد کیا
تُو نے ہر دل کو نئے ڈھنگ سے برباد کیا
پھر سے کچھ جمع کیے ہم نے تِرے خواب، سراب
پھر انہیں اس دلِ مسمار کی بنیاد کیا
شامِ آوارگی تھی، میں بھی تھا اور میرا رقیب
دیر تک بیٹھ کے پھر ہم نے تجھے یاد کیا
اک خواب ہے، اس خواب کو کھونا بھی نہیں ہے
تعبیر کے دھاگے میں پرونا بھی نہیں ہے
لپٹا ہوا ہے دل سے کسی راز کی صورت
اک شخص کہ جس کو مِرا ہونا بھی نہیں ہے
رکھنا ہے سرِ چشم اسے ساکت و جامد
پانی میں ابھی چاند بھگونا بھی نہیں ہے
طلسمِ اسمِ محبت ہے درپئے درِ دل
کوئی بتائے اب اس کا کرے تو کیا کرے دل
فسونِ جنبشِ مژگاں نہ پوچھئے، سرِ راہ
پکارتے ہی رہے ہم ارے! ارے! ارے دل
پھر اس کے بعد ہمیں یہ بھی تو نہیں رہا یاد
نظر گِری ہے کہاں، کھو گیا کہاں زرِ دل
عشاق بہت ہیں، تِرے بیمار بہت ہیں
تجھ حٗسنِ دلآرام کے حقدار بہت ہیں
اے سنگ صفت! آ کے سرِ بام ذرا دیکھ
اِک ہم ہی نہیں، تیرے طلبگار بہت ہیں
بے چین کیے رکھتی ہے ہر آن یہ دل کو
کم بخت محبت کے بھی آزار بہت ہیں
آپ سے مل کے ہم کچھ بدل سے گئے، شعر پڑھنے لگے گنگنانے لگے
پہلے مشہور تھی اپنی سنجیدگی، اب تو جب دیکھیے مسکرانے لگے
ہم کو لوگوں سے ملنے کا کب شوق تھا، محفل آرائی کا کب ہمیں ذوق تھا
آپ کے واسطے ہم نے یہ بھی کیا، ملنے جلنے لگے، آنے جانے لگے
ہم نے جب آپ کی دیکھیں دلچسپیاں، آ گئیں چند ہم میں بھی تبدیلیاں
اک مصور سے بھی ہو گئی دوستی، اور غزلیں بھی سننے سنانے لگے
کِس شے پہ یہاں وقت کا سایہ نہیں ہوتا
اِک خوابِ محبت ہے کہ بوڑھا نہیں ہوتا
وہ وقت بھی آتا ہے جب آنکھوں میں ہماری
پھرتی ہیں وہ شکلیں جنہیں دیکھا نہیں ہوتا
بارش وہ برستی ہے کہ بھر جاتے ہیں جل تھل
دیکھو تو کہیں ابر کا ٹکڑا نہیں ہوتا
تِرے دیوانے ہر رنگ رہے، تِرے دھیان کی جوت جگائے ہوئے
کبھی نتھرے سُتھرے کپڑوں میں، کبھی انگ بھبھوت رمائے ہوئے
اس راہ سے چھپ چھپ کر گزری، رُت سبز سنہرے پھولوں کی
جس راہ پہ تم کبھی نکلے تھے، گھبرائے ہوئے، شرمائے ہوئے
اب تک ہے وہی عالم دل کا، وہی رنگِ شفق، وہی تیز ہوا
وہی سارا منظر جادو کا، میرے نین سے نین ملائے ہوئے
دلوں کی اور دھواں سا دکھائی دیتا ہے
یہ شہر تو مجھے جلتا دکھائی دیتا ہے
جہاں کہ داغ ہے، یاں آگے درد رہتا تھا
مگر یہ داغ بھی جاتا دکھائی دیتا ہے
پکارتی ہیں بھرے شہر کی گُزرگاہیں
وہ روز شام کو تنہا دکھائی دیتا ہے
اشک دامن میں بھرے، خواب کمر پر رکھا
پھر قدم ہم نے تِری راہگزر پر رکھا
ہم نے ایک ہاتھ سے تھاما شبِ غم کا آنچل
اور اِک ہاتھ کو دامانِ سحر پر رکھا
چلتے چلتے جو تھکے پاؤں تو ہم بیٹھ گئے
نیند گٹھڑی پہ دھری، خواب شجر پر رکھا
الجھے رہے تم ہم سے بِنا بات کے لوگو
ہم صرف مخالف تھے سیہ رات کے لوگو
کچھ شہر میں رسمِ وفا اور طرح کی
کچھ ہم بھی ہیں اندر سے مضافات کے لوگو
لوٹ آتے ہیں بازار سے تھک ہار کے ہر شام
ہم زخم لیے دل میں سوالات کے لوگو
اک صبحِ شب آثار ہے اِس پار بھی اُس پار بھی
کچھ روشنی درکار ہے اس پار بھی اس پار بھی
شیشہ بنانا سنگ کو، گویائی دینا رنگ کو
اب یہ ہنر بے کار ہے اس پار بھی اس پار بھی
کلیوں کو چھو کر آئے گی لیکن صبا کیا لائے گی
پابندئ اظہار ہے اس پار بھی اس پار بھی
صرف اتنا ہی نہیں دھوپ بڑھا دی اس نے
دکھ کی دیوار سے ہر چھاؤں لگا دی اس نے
پچھلا ہی نوحہ مکمل نہیں ہو پایا تھا
میرے بغداد کو پھر آگ لگا دی اس نے
کوئی رَستہ، نہ کوئی رَستہ بتانے والا
کیسے بے فیض زمانے میں صدا دی اس نے
باہر سے نہیں ٹوٹ کے اندر سے گِرا ہوں
اس بار میں اک دستِ ہنرور سے گرا ہوں
ان نظروں سے گرنے کا سبب تو نہیں معلوم
بس اتنا پتہ ہے بہت "اوپر" سے گرا ہوں
رکھ لے گا مری خاک نمائش کے لیے وہ
میں جلتا ہوا رات کے منظر سے گرا ہوں
یہ کیسا شہر ہے جس میں مکمل گھر نہیں ملتا
کسی کو چھت نہیں ملتی کسی کو در نہیں ملتا
اٹھا رکھے ہیں اپنے نا مکمل جسم لوگوں نے
کسی کے پاؤں غائب ہیں، کسی کا سر نہیں ملتا
گھِری رہتی ہیں جانے کس بلا کے خوف میں گلیاں
یہاں روشن دنوں میں بھی کوئی باہر نہیں ملتا
اِس عہد کے مزاج سے ڈر جانا چاہیے
کہنا ہو سچ تو کہہ کے مُکر جانا چاہیے
جلتی ہیں روز جس کے اشارے پہ بستیاں
اس آنکھ تک دھوئیں کا اثر جانا چاہیے
ہم وہ سفر نصیب ہیں جن کو خبر نہیں
کسی سمت جا رہے ہیں، کدھر جانا چاہیے
مجھے بھی وحشتِ صحرا پکار میں بھی ہوں
تِرے وصال کا امیدوار میں بھی ہوں
پرِند کیوں مِری شاخوں سے خوف کھاتے ہیں
کہ اِک درخت ہوں اور سایہ دار میں بھی ہوں
مجھے بھی حکم مِلے، جان سے گزرنے کا
میں انتظار میں ہوں، شہسوار میں بھی ہوں
بستیوں میں آہ و زاری ہو رہی ہے شام سے
کچھ نہ کچھ نازل تو ہو گا چرخِ نیلی فام سے
دشتِ غُربت میں ہوا ساری طنابیں لے اڑی
میرا خیمہ رہ سکا کب ایک پَل آرام سے
اب تو آوازوں کے جمگھٹ ہیں مِرے چاروں طرف
رابطہ پہلے تھا میرا بس سکوتِ شام سے
راستہ کوئی، سفر کوئی، مسافت کوئی
پھر خرابی کی عطا ہو مجھے صورت کوئی
سارے دریا ہیں یہاں موج میں اپنی اپنی
میرے صحرا کو نہیں ان سے شکایت کوئی
جم گئی دُھول ملاقات کے آئینوں پر
مجھ کو اس کی نہ اسے میری ضرورت کوئی
پوشیدہ کیوں ہے طور پہ جلوہ دکھا کے دیکھ
اے دوست! میری تاب نظر آزما کے دیکھ
پھولوں کی تازگی ہی نہیں دیکھنے کی چیز
کانٹوں کی سمت بھی تو نگاہیں اٹھا کے دیکھ
لیتا نہیں کسی کا پسِ مرگ کوئی نام
دنیا کو دیکھنا ہے تو دنیا سے جا کے دیکھ
ہنسی لبوں پہ سجائے اداس رہتا ہے
یہ کون ہے جو میرے گھر کے پاس رہتا ہے
یہ اور بات کہ ملتا نہیں کوئی اس سے
مگر وہ شخص سراپا سپاس رہتا ہے
جہاں پہ ڈوب گیا میری آس کا سورج
اسی جگہ وہ ستارہ شناس رہتا ہے
سرِ طُور کوئی جائے، اسے آپ کیا کہیں گے
جسے خود خُدا بلائے، اسے آپ کیا کہیں گے
جو ہوا کا رُخ بدل دے، ہمیں دعوتِ عمل دے
جو شعور کو جگائے، اسے آپ کیا کہیں گے
شب و روز دشمنوں کو جو دعاؤں سے نوازے
جو ستم پہ مسکرائے، اسے آپ کیا کہیں گے
شجر کی چھاؤں نہ دی، سایۂ غبار دیا
مجھے تو دشت میں اپنی طلب نے مار دیا
میں تیری رو میں گھڑی دو گھڑی کو آیا تھا
اور اِک زمانہ تِرے دھیان میں گزار دیا
تِرا جمال نہ آفاق بھی سمیٹ سکیں
مِری نگاہ سے دامن کہاں پسار دیا
دل بھرے دیوار و در میں بے نوا کیوں کر ہوا
شہر میں حرفِ وفا رزقِ ہوا، کیوں کر ہوا
تُو میری بانہوں میں تھا اور میں تیری راہوں میں تھا
تیرے میرے درمیاں پھر فاصلہ کیوں کر ہوا
جو میری خاطر نہیں، کیسے اُسے اپنا کہوں
میں نہیں جس میں وہ میرا آئینہ کیوں کر ہوا
اسی حریف کی غارت گری کا ڈر بھی تھا
یہ دل کا درد مگر زادِ رہگزر بھی تھا
اسی پہ شہر کی ساری ہوائیں برہم تھیں
کہ اِک دِیا مِرے گھر کی منڈیر پر بھی تھا
یہ جسم و جان تیری ہی عطا سہی، لیکن
تِرے جہان میں جینا مِرا ہُنر بھی تھا
کس تکلف سے ہمیں زیرِ اماں رکھا گیا
آہنی پنجرے میں اپنا آشیاں رکھا گیا
ایک ہی زنجیر تھی، اِس پار سے اُس پار تک
کَج روی کا کوئی وقفہ ہی کہاں رکھا گیا
اب تو ہم آپس میں بھی مِلتے نہیں، کھُلتے نہیں
کس بَلا کا خوف اپنے درمیاں رکھا گیا
دریا تو بَل دکھائے گا اپنے بہاؤ کا
سہنا ہے اِک جہان کو صدمہ کٹاؤ کا
دنیا سے ڈر کے آئے تھے جس کی پناہ میں
چارہ نہیں اب اس کی ہوس سے بچاؤ کا
ہر لَو کو چاٹتی ہوئی بارش کی رات میں
روشن ہے اِک چراغ ابھی دل کے گھاؤ کا
نہیں کہ صرف پرندے اڑا دیے اس نے
سدا بہار شجر بھی جلا دیے اس نے
جو کوہِ زرد سے اترا بڑا سخی بن کر
ہمارے ہاتھ میں کاسے تھما دیے اس نے
یہ حکم ہے کہ انہیں خلعتیں کہا جائے
جو چیتھڑے سے بنامِ خدا دیے اس نے
ہم ایک تیری نظر میں بحال ہونے لگے
تو کتنے آئینہ خانے سوال ہونے لگے
تُو ساتھ تھا تو گھنے سائے بھی سلامت تھے
جدا ہوا تو شجر بھی نڈھال ہونے لگے
کبھی جو تیرے تصور پہ آنچ بھی آئی
دھواں دھواں سے مِرے خدوخال ہونے لگے
جو بات شرطِ وصال ٹھہری وہی ہے اب وجہ بد گمانی
ادھر ہے اس بات پر خموشی ادھر ہے پہلی سے بے زبانی
کسی ستارے سے کیا شکایت کہ رات سب کچھ بجھا ہوا تھا
فسردگی لکھ رہی تھی دل پر شکستگی کی نئی کہانی
عجیب آشوبِ وضع داری ہمارے اعصاب پر ہے طاری
لبوں پہ ترتیب خوش کلامی دلوں میں تنظیمِ نوحہ خوانی
اب کے بچھڑا ہے تو کچھ ناشادماں وہ بھی تو ہے
دھوپ ہم پر ہی نہیں، بے سائباں وہ بھی تو ہے
شکوۂ بیدادِ موسم اس سے کیجیے بھی تو کیوں
کیا کرے وہ بھی کہ زیرِ آسماں وہ بھی تو ہے
اور اب کیا چاہتے ہیں لوگ، دیکھیں تو سہی
دربدر ہم ہی نہیں، بے خانماں وہ بھی تو ہے
محافظِ روشِ رفتگاں، کوئی نہیں ہے
جہاں کا میں ہوں مِرا اب وہاں کوئی نہیں ہے
محاذِ زیست کے ہر معرکے میں فتح کے بعد
کھُلا، کہ حاصلِ عمرِ رواں کوئی نہیں ہے
ستارگاں سے جو پوچھا، کہ اُس طرف کیا ہے
چمک کے بولے کہ اے جانِ جاں! کوئی نہیں ہے
مِرا ہر لفظ بے توقیر رہنے کے لیے ہے
مِرا ہر خوف دامن گیر رہنے کے لیے ہے
میں جس شہرِ جمال آثار کا مارا ہوا ہوں
وہ سارا شہر بے تعمیر رہنے کے لیے ہے
میں ایسے خواب کی پاداش میں معتوب ٹھہرا
جو ساری عمر بے تعبیر رہنے کے لیے ہے
ملکِ سخن میں درد کی دولت کو کیا ہوا
اے شہرِ میرؔ! تیری روایت کو کیا ہوا
ہم تو سدا کے بندۂ زر تھے ہمارا کیا
نام آورانِ عہدِ بغاوت کو کیا ہوا
گرد و غبارِ کوچۂ شہرت میں آ کے دیکھ
آسودگانِ کنجِ قناعت کو کیا ہوا
بیاباں دور تک میں نے سجایا تھا
مگر وہ شہر کے رستے سے آیا تھا
دیئے کی آرزو کو جب بجھایا تھا
پھر اس کے بعد آہٹ تھی نہ سایہ تھا
اسے جب دیکھنے کے بعد دیکھا تو
وہ خود بھی دل ہی دل میں مسکرایا تھا
کہوں کس سے رات کا ماجرا، نئے منظروں پہ نگاہ تھی
نہ کسی کا دامن، چاک تھا، نہ کسی کی طرف کلاہ تھی
کئی چاند تھے سرِ آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو مِرے ہی جگر میں تھا، نہ تمہاری زلف سیاہ تھی
دلِ کم الم پہ وہ کیفیت کہ ٹھہر سکے نہ گزر سکے
نہ حضر ہی راحتِ روح تھا، نہ سفر میں رامشِ راہ تھی
کہاں کی گونج دلِ ناتواں میں رہتی ہے
کہ تھرتھری سی عجب جسم و جاں میں رہتی ہے
مزہ تو یہ ہے کہ وہ خود تو ہے نئے گھر میں
اور اس کی یاد پرانے مکاں میں رہتی ہے
اگرچہ اس سے مِری بے تکلفی ہے بہت
جھجک سی ایک مگر درمیاں میں رہتی ہے
کہاں ڈھونڈیں اسے، کیسے بلائیں
یہاں اپنی بھی آوازیں نہ آئیں
پرانا چاند ڈوبا جا رہا ہے
وہ اب کوئی نیا جادو جگائیں
اب ایسا ہی زمانہ آ رہا ہے
عجب کیا، وہ تو آئیں ہم نہ آئیں
چاند اس گھر کے دریچوں کے برابر آیا
دلِ مشتاقؔ ٹھہر جا، وہی منظر آیا
میں بہت خوش تھا کڑی دھوپ کے سناٹے میں
کیوں تِری یاد کا بادل میرے سر پر آیا
بجھ گئی رونقِ پروانہ، تو محفل چمکی
سو گئے اہلِ تمنا تو ستمگر آیا
یہ تنہا رات، یہ گہری فضائیں
اسے ڈھونڈیں کہ اس کو بھول جائیں
خیالوں کی گھنی خاموشیوں میں
گُھلی جاتی ہیں لفظوں کی صدائیں
یہ رَستے رہروؤں سے بھاگتے ہیں
یہاں چھپ چھپ کے چلتی ہیں ہوائیں
یہ کس ترنگ میں ہم نے مکان بیچ دیا
درخت کاٹ لئے، سائبان بیچ دیا
دری لپیٹ کے رکھ دی، بساط الٹ ڈالی
چراغ توڑ دئیے، شمع دان بیچ دیا
خزاں کے ہاتھ خزاں کے نیازمندوں نے
نوائے موسمِ گُل کا نشان بیچ دیا