Friday 22 May 2015

آئینہ خانے کو مشکل میں تو ڈالا ہی نہیں

آئینہ خانے کو مشکل میں تو ڈالا ہی نہیں
مسکراہٹ کو ابھی اس نے اچھالا ہی نہیں
کون کہتا ہے کہ تُو چھوڑ گیا ہے مجھ کو
سچ تو یہ ہے کہ تجھے دل سے نکالا ہی نہیں
ہم اسی بات پہ درویش بنے پھرتے ہیں
دولتِ بابِ سخن پر کوئی تالہ ہی نہیں
اس کے تو جی میں جو آتا ہے، کیے جاتا ہے
اس کو دنیا میں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں
آخری تیری نشانی ہے یہی ”میں“ میری
اب بچا اِس کے سوا کوئی حوالہ ہی نہیں
کیوں بضد ہو کہ شبِ تار کہوں، دن نہ کہوں
زلف کا رنگ سنہری بھی ہے، کالا ہی نہیں
یونہی آزادؔ! کیا نام کو، دکھلاوے کو
تم نے گردن سے مِری طوق نکالا ہی نہیں

ادریس آزاد

No comments:

Post a Comment