Wednesday 27 May 2015

حجاب رنگ و بو ہے اور میں ہوں

حجابِ رنگ و بُو ہے، اور میں ہوں 
یہ دھوکا تھا کہ تُو ہے، اور میں ہوں
مقامِ بے نیازی، آ گیا ہے 
وہ جانِ آرزو ہے، اور میں ہوں
فریبِ شوق سے اکثر یہ سمجھا 
کہ وہ بیگانہ خُو ہے اور میں ہوں
کبھی سودا تھا تیری جُستجُو کا
اب اپنی جُستجُو ہے اور میں ہوں
کبھی دیکھا تھا اِک خوابِ محبت
اب اس کی آرزُو ہے، اور میں ہوں
فقط اِک تم نہیں تو کچھ نہیں ہے
چمن ہے، آبجُو ہے، اور میں ہوں
پھر اس کے بعد ہے اِک ہُو کا عالم
بس اِک حد تک ہی تُو ہے اور میں ہوں

اثر لکھنوی 

No comments:

Post a Comment