Thursday 21 May 2015

کب ضیاء بار ترا چہرہ زیبا ہو گا

کب ضیاء بار ترا چہرۂ زیبا ہو گا
کیا جب آنکھیں نہ رہیں گی تو اجالا ہو گا
مشغلہ اس نے عجب سونپ دیا ہے یارو
عمر بھر سوچتے رہیے کہ وہ کیسا ہو گا
جانے کس رنگ سے روٹھے گی طبعیت اس کی
جانے کس ڈھنگ سے اب اس کو منانا ہو گا
اِس طرف شہر، اُدھر ڈوب رہا تھا سورج
کون سیلاب کے منظر پہ نہ رویا ہو گا
یہی اندازِ دیانت ہے تو کل کا تاجر
برف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہو گا
دیکھنا حال ذرا ریت کی دیواروں کا
جب چلی تیز ہوا ایک تماشا ہو گا
آستینوں کی چمک نے ہمیں مارا انورؔ
ہم تو خنجر کو بھی سمجھے یدِ بیضا ہو گا

انور مسعود

No comments:

Post a Comment