کب ضیاء بار ترا چہرۂ زیبا ہو گا
کیا جب آنکھیں نہ رہیں گی تو اجالا ہو گا
مشغلہ اس نے عجب سونپ دیا ہے یارو
عمر بھر سوچتے رہیے کہ وہ کیسا ہو گا
جانے کس رنگ سے روٹھے گی طبعیت اس کی
جانے کس ڈھنگ سے اب اس کو منانا ہو گا
اِس طرف شہر، اُدھر ڈوب رہا تھا سورج
کون سیلاب کے منظر پہ نہ رویا ہو گا
یہی اندازِ دیانت ہے تو کل کا تاجر
برف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہو گا
دیکھنا حال ذرا ریت کی دیواروں کا
جب چلی تیز ہوا ایک تماشا ہو گا
آستینوں کی چمک نے ہمیں مارا انورؔ
ہم تو خنجر کو بھی سمجھے یدِ بیضا ہو گا
کیا جب آنکھیں نہ رہیں گی تو اجالا ہو گا
مشغلہ اس نے عجب سونپ دیا ہے یارو
عمر بھر سوچتے رہیے کہ وہ کیسا ہو گا
جانے کس رنگ سے روٹھے گی طبعیت اس کی
جانے کس ڈھنگ سے اب اس کو منانا ہو گا
اِس طرف شہر، اُدھر ڈوب رہا تھا سورج
کون سیلاب کے منظر پہ نہ رویا ہو گا
یہی اندازِ دیانت ہے تو کل کا تاجر
برف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہو گا
دیکھنا حال ذرا ریت کی دیواروں کا
جب چلی تیز ہوا ایک تماشا ہو گا
آستینوں کی چمک نے ہمیں مارا انورؔ
ہم تو خنجر کو بھی سمجھے یدِ بیضا ہو گا
انور مسعود
No comments:
Post a Comment