شہر کیا دیکھیں کہ ہر منظر میں جالے پڑ گئے
ایسی گرمی ہے کہ پیلے پھول کالے پڑ گئے
میں اندھیروں سے بچا لایا تھا اپنے آپ کو
میرا دکھ یہ ہے میرے پیچھے اجالے پڑ گئے
جن زمیںوں کی قبالے ہیں مِرے پُرکھوں کے نام
طاق میں بیٹھا ہوا بوڑھا کبوتر رو دیا
جس میں ڈیرہ تھا اسی مسجد میں تالے پڑ گئے
کوئی وارث ہو تو آئے، اور آ کر دیکھ لے
ظلِ سبحانی کی اونچی چھت میں جالے پڑ گئے
راحت اندوری
No comments:
Post a Comment