یہ پیاس پانی میں تحلیل ہونے والی ہے
اب اضطراب کی تکمیل ہونے والی ہے
ابھر رہا ہے کہیں کوہِ ہجر سے سورج
جدائی وصل میں تبدیل ہونے والی ہے
کنول کھلیں گے جہاں خاکِ ہجر اڑتی تھی
جو بے وجود تھی احساس کے ہیولوں میں
وہی ہیولوں سے تمثیل ہونے والی ہے
وہ رات جس کے اندھیروں میں سانس گھٹتی تھی
وہ رات اب مجھے قندیل ہونے والی ہے
میں جِس کے واسطے لمحاتِ وصل بُنتا تھا
اب اس نگاہ کی تشکیل ہونے والی ہے
نہیں رہے گی کسی آرزو کی گنجائش
کچھ ایسی صورتِ زنبیل ہونے والی ہے
خلاؤں میں تھی جو مدت سے آیتِ خوشبو
وہ فصلِ وَرْدؔ میں تنزیل ہونے والی ہے
ورد بزمی
No comments:
Post a Comment