Saturday 23 May 2015

جب بھی ملتی ہے مجھے اجنبی لگتی کیوں ہے

جب بھی ملتی ہے مجھے اجنبی لگتی کیوں ہے 
زندگی، روز نئے رنگ بدلتی کیوں ہے
دھوپ کے قہر کا ڈر ہے تو دیارِ شب سے
سر برہنہ کوئی پرچھائیں نکلتی کیوں ہے
مجھ کو اپنا نہ کہا اس کا گِلہ تجھ سے نہیں 
اس کا شِکوہ ہے کہ بے گانہ سمجھتی کیوں ہے
تجھ سے مِل کر بھی تنہائی نہ مِٹے گی میری 
دل میں رہ رہ کے یہی بات کھٹکتی کیوں ہے
مجھ سے کیا پوچھ رہے ہو میری وحشت کا سبب
بُوئے آوارہ سے پوچھو، کہ بھٹکتی کیوں ہے

شہریار خان

No comments:

Post a Comment