جب بھی ملتی ہے مجھے اجنبی لگتی کیوں ہے
زندگی، روز نئے رنگ بدلتی کیوں ہے
دھوپ کے قہر کا ڈر ہے تو دیارِ شب سے
سر برہنہ کوئی پرچھائیں نکلتی کیوں ہے
مجھ کو اپنا نہ کہا اس کا گِلہ تجھ سے نہیں
تجھ سے مِل کر بھی تنہائی نہ مِٹے گی میری
دل میں رہ رہ کے یہی بات کھٹکتی کیوں ہے
مجھ سے کیا پوچھ رہے ہو میری وحشت کا سبب
بُوئے آوارہ سے پوچھو، کہ بھٹکتی کیوں ہے
شہریار خان
No comments:
Post a Comment