ہم پڑھ رہے تھے خواب کے پرزوں کو جوڑ کے
آندھی نے یہ طلسم بھی رکھ ڈالا توڑ کے
آغاز کیوں کیا تھا سفر ان خلاؤں کا
پچھتا رہے ہو سبز زمینوں کو چھوڑ کے
اِک بوند زہر کے لئے پھیلا رہے ہو ہاتھ
کچھ بھی نہیں جو خواب کی طرح دکھائی دے
کوئی نہیں جو ہم کو جگائے جھنجھوڑ کے
ان پانیوں سے کوئی سلامت نہیں گیا
ہے وقت اب بھی کشتیاں لے جاؤ موڑ کے
شہریار خان
No comments:
Post a Comment