Saturday 30 May 2015

اے مری نیند مجھے خواب سے اب یاد میں لا

اے مِری نیند مجھے خواب سے اب یاد میں لا
کنجِ ویراں سے اٹھا خطۂ آباد میں لا
منکرِ صبر نہیں ہیں مگر اے صبر فشاں
صبر کرنے کی دوا کو کسی معیاد میں لا
بکھرے بکھرے ہوئے خاکوں میں ہیں بکھرے سے نقوش
میرے چہرے کو کبھی موسمِ ایجاد میں لا
نہ بنا صرف محبت سے عمارت مری جاں
اعتماد اور بھروسے کو بھی بنیاد میں لا
در بدر یوں نہ بھٹکنے دے جنوں کو مجنوں
عشق کا ہاتھ پکڑ کر ابد آباد میں لا
نہ محل میں نہ کسی وادئ کہسار میں اب
عصرِ شیریں کو ذرا کوچۂ فرہاد میں لا
دم ہی گھٹ جائے گا اس ہجر بھرے موسم میں
قاطعِ حبس! مجھے حلقۂ آزاد میں لا
مرقدِ ہجر زداں سے نہ اٹھانا مجھ کو
وہ جو وصلیدہ ہیں مجھ کو انہی افراد میں لا
صرف خوش رنگی نہیں خاصۂ امواسمِ گُل
خوشبوئے وَرْدؔ بھی سن، اس کو بھی کچھ داد میں لا

ورد بزمی

No comments:

Post a Comment