Friday 31 December 2021

نئے برس کا پہلا لمحہ دل آنگن میں اتر رہا ہے

 نئے برس کا پہلا لمحہ


میرے ہمنشیں

نئے برس کا پہلا لمحہ دل آنگن میں اتر رہا ہے

میرے ہاتھ میں گزرے برس کی کچھ یادیں تھمی ہیں

اور ان یادوں میں میرے اچھے برے کئی پل ہیں

اور ان لمحوں میں

نئے سال کی صبح اول کے سورج

 نئے سال کی صبحِ اول کے سورج

میرے آنسوؤں کے شکستہ نگینے

میرے زخم در زخم بٹتے ہوئے دل کے

یاقوت ریزے

تِری نذر کرنے کے قابل نہیں ہیں

مگر میں

کلام دسمبر کی ایسی کی تیسی

 کلامِ دسمبر کی ایسی کی تیسی

اس کے سخنور کی ایسی کی تیسی

دوبارہ یہ چخ چخ اگر میں نے سن لی

تو قندِ مکرر کی ایسی کی تیسی

اسی ماہ محبوبہ بھاگی سبھی کی

تمہارے مقدر کی ایسی کی تیسی

کلر لگا دیوار کو کہہ جعفر اب کیا کیجئے

 در صفت پیری گوید


کلّر لگا دیوار کو کہہ جعفر اب کیا کیجییۓ

خطرہ ہوا آثار کو کہہ جعفر اب کیا کیجییۓ

چھاؤنی پرانی ہو گئی کہہ جعفر اب کیا کیجییۓ

ہو کر پرانی جھڑ گئی کہہ جعفر اب کیا کیجییۓ

اینٹیں پرانی گِھس چلیں، ماٹی تمامی رس چلی

کیا دوس ہے معمار کو کہہ جعفر اب کیا کیجییۓ

شناخت؛ میں ایک آزاد وطن کی شہری ہوں

 شناخت


میں ایک آزاد وطن کی شہری ہوں

اپنے شہر گاؤں گلیوں کھیت کھلیانوں کے

سبھی رستوں کو جانتی

بِن دیکھے سب درختوں کو

ان کی خوشبو سے پہچان سکتی ہوں

بنائی نظم بنی پھر اس نظم کے حصے جوڑے

 بُنائی


میں نے اپنا ذہن اُدھیڑا

ایک خیال کا لمبا سُوتر سیدھا کر کے

قوسِ قزح کے رنگ لگائے

اور لپیٹا

اس کے جسم کا ناپ لیا

مل جل کر ایمان خدا پر لا سکتے ہیں

 مل جل کر، ایمان خدا پر لا سکتے ہیں

اک جنت میں بھوک اور پیاس سما سکتے ہیں

آپ اگر سمجھا دیں خال و خد منظر کے

ہم اپنی حیرت کا نام بتا سکتے ہیں

میرے کھلیانوں سے اٹھتے آگ کے شعلے

جھونکے تیرے باغوں تک پھیلا سکتے ہیں

جھیل کی تلچھٹ میں بیٹھی کسمساتی ریت ہوں

 جھیل کی تلچھٹ میں بیٹھی کسمساتی ریت ہوں

روشنی ہو جاؤں گا پھر کائناتی ریت ہوں

پیش خیمہ ہوں کسی طوفانِ خشم آلود کا

نقرئی جملہ افق کو گدگداتی ریت ہوں

آفرینش نے مجھے کوٹا تھا کاری ضرب سے

مجھ کو اڑنا ہے ابد تک کھنکھناتی ریت ہوں

چشم فردا کے لیے اور تو کیا لائی ہوں میں

 چشمِ فردا کے لیے اور تو کیا لائی ہوں میں

ہجر کا لمحۂ سفاک اٹھا لائی ہوں میں

میری آنکھوں میں جو بھر دی تھی تِری قربت نے

بس اسی ریت سے اک دشت بنا لائی ہوں میں

جانتی تھی کہ کھلیں گے نہ کبھی بند کواڑ

رائیگانی کے لیے اپنی صدا لائی ہوں میں

جب دسمبر کی ہاری ہوئی آخری شام

 دسمبر کی آخری نظم


جب دسمبر کی ہاری ہوئی

آخری شام کی

زرد ٹھٹھری ہوئی سسکیاں

رات کی بے کراں منجمد گود میں

چُھپ کے سو جائیں گی

نہ خود کے نہ رب کے نہ تیرے نہ میرے

 نہ خود کے، نہ رب کے، نہ تیرے، نہ میرے

یہ حاکم، سیاسی، یہ رہبر، وڈیرے

یہ مسند نشیں، چور، ڈاکو، لٹیرے

نہ خود کے نہ رب کے نہ تیرے نہ میرے

یہ قوموں کے مجرم یہ نسلوں کے قاتل

یہ زاغ و زغن اور گدھوں کے جنگل

کون کہتا ہے محبت نہیں کی جا سکتی

 کون کہتا ہے محبت نہیں کی جا سکتی

ہاں محبت کی وضاحت نہیں کی جا سکتی

ہر کوئی دولتِ دنیا کا طلب گار نہیں

ہر کسی دل پہ حکومت نہیں کی جا سکتی

ان کی مرضی ہے کہ سیراب کریں یہ جس کو

بادلوں سے تو شکایت نہیں کی جا سکتی

ہم کو راہ عاشقی میں زندگی کا غم نہ تھا

 ہم کو راہِ عاشقی میں زندگی کا غم نہ تھا

مرحلہ در مرحلہ غمِ عاشقی ہی کم نہ تھا

دھیرے دھیرے سیکھ لی ہم نے نگاہوں کی زباں

ان کا اندازِ تکلم بھی بہت مبہم نہ تھا

شہر کا عالم کہ جیسے سب یہاں پتھر کے ہوں

خون انساں بہہ رہا تھا اور کسی کو غم نہ تھا

بھر گیا مجھ میں روشنی ترا غم

 بھر گیا مجھ میں روشنی تِرا غم

محرما! کس قدر غنی ترا غم

دور کرتا ہے بے کلی ترا غم

چاہیۓ مجھ کو اور بھی ترا غم

جانے کس کس دیار میں ڈھونڈوں

اجنبی تُو ہے،۔ اجنبی ترا غم

نادیدہ موت (وائرس) یک بہ یک پیڑ تابوت بنتے گئے

 نادیدہ موت


یک بہ یک

پیڑ تابوت بنتے گئے

صور پھونکا فرشتے نے

اک موڑ سے

وائرس کی طرح

جانے ہمسر سے بات کرتا ہے

 جانے ہمسر سے بات کرتا ہے

کوئی اندر سے بات کرتا ہے

ظلم کی ایک عمر ہوتی ہے

خون خنجر سے بات کرتا ہے

آؤ، ساتوں ہی مل کے آ جاؤ

غم سمندر سے بات کرتا ہے

کمرے کا یخ بستہ موسم

 تخلیق


کمرے کا یخ بستہ موسم

میرے اندر کی گرمی کو چاٹ چکا تھا

آنکھوں کی جھیلوں میں گویا

بچھڑی ہوئی یادوں کی کائی جمی ہوئی تھی

بستر پر اک بے حس اور انجانی سی چپ

ڈوبنے والے تیرا پار اترنا کیسا

 تیرا پار اترنا کیسا


بہتے دن کا گدلا پانی

کچھ آنکھوں میں

کچھ کانوں میں 

اور شکم میں نا آسودہ درد کی کائی

اس دریا میں لمحہ لمحہ ڈوبنے والے

آپ کے ساتھ خوبصورت ہیں

 آپ کے ساتھ خوبصورت ہیں

سارے لمحات خوبصورت ہیں

وہ مکمل حسین ہیں ایسے

جیسے دیہات خوبصورت ہیں

مجھ سے معدوم ریت نے پوچھا

کیا جمادات خوبصورت ہیں؟

جان لیوا ہے شام بہت

 جان لیوا ہے شام بہت

پر دفتر میں ہے کام بہت

شہد بھرے ان ہونٹوں سے

کھانے کو دُشنام بہت

حسن کے چرچے گلی گلی

اپنے سر الزام بہت

آہ بر لب غم بہ دل نالہ بہ کام آ ہی گیا

 آہ بر لب، غم بہ دل، نالہ بہ کام آ ہی گیا 

زندگی کو موت بننے کا پیام آ ہی گیا 

اب جبینِ شوق کو سجدوں سے فرصت ہو گئی 

دل جہاں جھکتا ہے آخر وہ مقام آ ہی گیا 

بڑھتے بڑھتے آنسوؤں کی خشک سالی بڑھ گئی 

ہچکیوں کی حد میں قلبِ تشنہ کام آ ہی گیا 

جب واپڈا والوں سے کہا جا کے کسی نے

 جب واپڈا والوں سے کہا جا کے کسی نے

یہ کس نے کہا ہے ہمیں راتوں کو سزا دو

بولے؛ ہمیں اقبال کا پیغام ملا تھا

اٹھو مِری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

اور اٹھتے ہوئے باس نے یہ اور کہا تھا

کاخِ اُمراء کے در و دیوار سجا دو

طعنہ زن تھی یہ دنیا راحتوں کے موسم میں

 طعنہ زن تھی یہ دنیا راحتوں کے موسم میں

گھر سے ہم نکل آئے بارشوں کے موسم میں

ہم سا کوئی ناداں ہے، ہم سا کوئی پاگل ہے

خوابِ قصل دیکھے ہے ہجرتوں کے موسم میں

ساتھ کوئی اپنا بھی دوستوں میں دے دیتا

رو رہے تھے ہم تنہا، قہقہوں کے موسم میں

ہم سے ہی روشن رہا ہے تیرے مےخانے کا نام

 ہم سے ہی روشن رہا ہے تیرے میخانے کا نام

ہم ہی لے سکتے نہیں اب ایک پیمانے کا نام

زینت صد انجمن ہے آپ کی موجودگی

ہے قیامت آپ کے محفل سے اٹھ جانے کا نام

دل کے بہلانے پہ دنیا نے کئے ہیں وہ سلوک

اب نہ لیں گے بھول کر بھی دل کو بہلانے کا نام

یہ وحشت یونہی بے معنی نہیں ہے

یہ وحشت یونہی بے معنی نہیں ہے

کہ ساتھ اس کی نگہبانی نہیں ہے

اسے چاہا تھا جس شدت سے تُو نے

وہ بچھڑا ہے تو حیرانی نہیں ہے

سمندر ہے میری پلکوں کے نیچے

وہ کہتا ہے؛ یہاں پانی نہیں ہے

جوہرِ عشق مری خاک میں رکھا ہوا ہے

جوہرِ عشق مِری خاک میں رکھا ہوا ہے

اک زمیں زاد کو افلاک میں رکھا ہوا ہے

موجۂ اشک بہانے میں رہے گا ناکام

خواب جو دیدۂ نمناک میں رکھا ہوا ہے

اک تب و تاب نے ماحول بدل ڈالا ہے

ایک موتی خس و خاشاک میں رکھا ہوا ہے

محو کرنے کی جوشش کا وعدہ

 وعدہ


میرے لفظوں کے نطق براہیم نے

معبدِ عصر کی

بت پرستی سے لتھڑی روایات کو

اپنے برّاں تبر

اور بے خوف بازو کی امداد سے

تم حریم ناز میں بیٹھے ہو بیگانے بنے

 تم حریم ناز میں بیٹھے ہو بے گانے بنے

جستجو میں اہل دل پھرتے ہیں دیوانے بنے

سب کو ساقی نے نہیں بخشا دل درد آشنا

جتنے اہل ظرف تھے اتنے ہی پیمانے بنے

جلوۂ حسن اور سوز عشق دونوں ایک ہیں

شمع کی لو تھرتھرانے ہی سے پروانے بنے

ایک سرگوشی میں اپنی بات کہہ جاتا ہے کون

 ایک سرگوشی میں اپنی بات کہہ جاتا ہے کون

پاس جب کوئی نہیں تو پاس آ جاتا ہے کون

ایک ویراں شہر کو آباد کر جاتا ہے کون

اک دل ناشاد کو یوں شاد کر جاتا ہے کون

تنگ کر دیتی ہے حسرت آرزوؤں کا حصار

اس حصار آرزو میں پھر سما جاتا ہے کون

تیرے بے ربط بیانات سے خوف آتا ہے

 تیرے بے ربط بیانات سے خوف آتا ہے

مجھ کو اب شہر کے حالات سے خوف آتا ہے

اول اول میں سمجھتا تھا مسیحا تجھ کو

منصفا اب تِری ہر بات سے خوف آتا ہے

ہم جنوں خیز مزاجوں کو نہیں تاب شعور

واعظ شہر کے خطبات سے خوف آتا ہے

ترک الفت کو ہوئی عمر پہ جاری ضد ہے

 ترکِ الفت کو ہوئی عمر، پہ جاری ضد ہے

یونہی ہر رات عبث نجم شماری ضد ہے

چاہتا ہوں کہ تمہیں روک لوں اک پل کے لیے

ہاں مگر چھوڑ کے جانا جو تمہاری ضد ہے

آنکھ میں اشک ہیں، کچھ جی بھی ہے بوجھل بوجھل

کیفیت کیا جو مِرے دل پہ ہے طاری، ضد ہے

تخلیق کار اپنی کہانی سے مر گئے

تخلیق کار اپنی کہانی سے مر گئے

آنکھوں کے خواب آنکھ کے پانی سے مر گئے

کچھ پھول تھے جو کھا گئے بھنوروں کا بانکپن

کچھ سانپ تھے جو رات کی رانی سے مر گئے

چڑیا تھی جس نے باز کو گھائل کئے رکھا

دریا تھے جو ندی کی روانی سے مر گئے

نصیب میں ہو ٹھکانہ اگر مدینے میں

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


نصیب میں ہو ٹھکانہ اگر مدینے میں

کمال لطف ہے پھر زندگی کو جینے میں

بھنور کے بیچ میں سنبھلی رہی مِری کشتی

درودﷺ پڑھتا رہا،۔ ڈوبتے سفینے میں

وجودِ رب کا یقیں آپﷺ کے طفیل ہوا

خدا کی بو ملی ہے آپﷺ کے پسینے میں

پہنچ گیا جو تمہارے در پر کہوں گا تم سے سلام سائیں

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام


پہنچ گیا جو تمہارے در پر، کہوں گا تم سے سلام سائیں

جو رہ گیا تو یہیں سے بھیجیں گے میرے آنسو، پیام سائیں

تمہارے ہاتھوں میں دے دیا ہے خدا نے سارا نظام سائیں

کوئی تو کر دو میرے بھی آنے کا در پہ اب اہتمام سائیں

عجیب لذت ہے جب پکاروں میں اپنے آقاﷺ کا نام سائیں

جو سُن کے وہ خوش ہوئے، بنا دیں گے میرے سب بگڑے کام سائیں

اک نور سا تا حد نظر پیش نظر ہے

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


اک نور سا تا حدِ نظر پیشِ نظر ہے​

میں اور مدینے کا سفر پیشِ نظر ہے​

ہر چند نہیں تاب مگر دیکھیۓ پھر بھی​

وہ مطلع انوارِ سحر پیشِ نظر ہے​

جو میرے تخیل کے جھروکے میں کہیں تھا​

صد شکر وہ مقصودِ نظر پیشِ نظر ہے

تعبیر شب غیب شبستان محمد

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


تعبیر شبِ غیب، شبستانِ محمدﷺ

والفجر طلوعِ رخِ تابانِ محمدﷺ

ہے کوئی جو دیکھے رخِ تابانِ محمدﷺ

ہر دم نگہِ حق ہے نگہبانِ محمدﷺ

یہ مشک فشاں، پیکرِ جاں، خلد بادماں

الله رے گلہائے گلستانِ محمدﷺ

Thursday 30 December 2021

ہو تم کو مبارک محبت وغیرہ

 ہمارے گھروں میں ہیں روٹی کے لالے

ہو تم کو مبارک محبت وغیرہ

ہے بیٹی کی گُھٹی میں شامل ازل سے

یہ قربانی، جُھکنا، اطاعت وغیرہ

ہمارا سمے تو کوئی بھی نہیں ہے

گھڑی کو مبارک یہ ساعت وغیرہ

یہ فرش خاک ہے کیا بحر بیکراں کیا ہے

 یہ فرش خاک ہے کیا بحر بیکراں کیا ہے

اگر یہ حدِ نظر ہے تو آسماں کیا ہے

وہ لامکاں کا مکیں ہر مکاں میں کیسے ہے

وہ ہر مکاں میں اگر ہے تو لامکاں کیا ہے

اگر زمیں پہ بشر سے بھی یہ تقاضا ہے

تو پھر فلک پہ عباداتِ قدسیاں کیا ہے

کلی کلی کو دیا باغباں لہو ہم نے

 کلی کلی کو دیا باغباں لہو ہم نے

کیا ہے تجھ کو گلستاں میں سرخرو ہم نے

خدا کے واسطے اس بے وفا کا نام نہ لو

کیا ہے چاک گریباں ابھی رفو ہم نے

خزاں کے داغ مٹے کب گلوں کے دامن سے

تجھے بھی دیکھ لیا موسم نمو ہم نے

کسی دن سڑک پر خدا مل گیا تو بتاؤں گا اس کو

 کسی دن سڑک پر خدا مل گیا تو

بتاؤں گا اس کو

وہ ڈھلتے پہر کی پری زادیوں کے

کنوارے لبادے

بجھے دل کے نوحے

کواڑوں پہ جالوں کی بستی

اوس میں ڈھل کر تکتی ہوں

 اوس کا لمس


کام کاج نبٹا کر سارے

اپنی ذات میں لوٹ آئی ہوں

سبزے جیسی روشنی والا

اک دروازہ کُھلتا ہے

کائی والے رستے پر میں

اسے کہنا دسمبر کی ٹھٹھرتی سرد شاموں میں

 اسے کہنا

دسمبر کی ٹھٹھرتی سرد شاموں میں 

ہوا جب بند دروازوں پہ آ کر دستکیں دیتی ہے

اک بے نام سے دُکھ میں

سسکتی بھیگتی پلکیں مِرا دامن بھگوتی ہیں

یہ آنکھیں خون روتی ہیں

یہ مکافات عمل کا وقت ہے

 مکافاتِ عمل (کرونا وائرس کے تناظر میں)


یہ امتحان نہیں

نتائج کی گھڑی ہے

جس جس نے جو کیا

یہ اس کا حساب ہے

کیوں اہلِ زمیں حیران ہیں کہ

بندی خانے میں موت کی کھڑکی

 بندی خانے میں


جب رفاقت کے پھولوں سے سڑاند اٹھنے لگے

اور جینا محض ایک ضد بن جائے

جب وجود کے کِنگرے

اہانت کی گلیوں سے اکٹھے کرنے پڑ جائیں

دھوپ

وہ جو میری سمت تھا گامزن وہ خوشی کا لمحہ کدھر گیا

وہ جو میری سمت تھا گامزن وہ خوشی کا لمحہ کدھر گیا

مجھے کیوں یہ لگنے لگا ہے اب کہ مِری دعا سے اثر گیا

کبھی رشکِ رونقِ ہر چمن، کبھی حسنِ توبہ شکن کہیں

تِرے قرب میں، مِرے ہم سخن! مِرا رنگ روپ نکھر گیا

کبھی یوں بھی گزرے تھے رات دن، تُو نہ میرے بِن میں نہ تیرے بِن

یہ بھی وقت کا ہی تھا فیصلہ کہ ہر ایک اپنی ڈگر گیا

میں جانتا تھا تیرا ہجر اک سزا بنے گا

 میں جانتا تھا تیرا ہجر اک سزا بنے گا

سو پوچھتا تھا تیرے بعد میرا کیا بنے گا

فقیر لوگوں پہ تو قیس طنز مت کرنا

فقیر وجد میں آئے تو مسئلہ بنے گا

بریدہ چہرے، یہ جب آئینوں میں اتریں گے

یقین جان تبھی جا کے حادثہ بنے گا

دل دکھا تھا مرا ایسا کہ دکھایا نہ گیا

 دل دکھا تھا مِرا ایسا کہ دکھایا نہ گیا

درد اتنا تھا کہ خود ان سے بڑھایا نہ گیا

بے خود عشق سے پھر ہوش میں آیا نہ گیا

سر جو سجدہ میں جھکایا تو اٹھایا نہ گیا

راز اس پردہ نشیں کا کبھی پایا نہ گیا

محرم راز سے بھی راز بتایا نہ گیا

جیون راگ ہم خواب بنیں ان آنکھوں کے

 جیون راگ


ہم خواب بنیں ان آنکھوں کے

جو تارِ بدن کو چُھو لیں تو

خواہش کی سیما سے آگے

سُر سنگم کے دربار لگیں

اور درباری کی لے اندر

سانس کی مہلت کیا کر لے گی

 سانس کی مہلت کیا کر لے گی

اب یہ سہولت کیا کر لے گی

بے بس کر کے رکھ دے گی نا

اور محبت کیا کر لے گی

کیا کر لے گا چارہ گر بھی

درد کی شدت کیا کر لے گی

منظر کا احسان اتارا جا سکتا ہے

 منظر کا احسان اُتارا جا سکتا ہے

آنکھ کو یارا بھوکا مارا جا سکتا ہے

آنگن آنگن آگ اُگائی جا سکتی ہے

کمروں میں دریا کا کنارا جا سکتا ہے

کرچی کرچی خواب چمکتا ہے آنکھوں میں

ان سے اب دنیا کو سنوارا جا سکتا ہے

صرف محبت ہوا کرے صرف تم ہوا کرو

 صرف محبت ہوا کرے


کاش

کوئی ایسا شہر ذات بھی ہوا کرے

جہاں قسمتوں کا کوئی رپھڑ نہیں ہو

ہماری خواہشوں پہ سب ہوا کرے

صرف محبت ہوا کرے

جان لے گر تو جان لیتا ہے کیوں مِرا امتحان لیتا ہے

 جان لے گر تو جان لیتا ہے

کیوں مِرا امتحان لیتا ہے

کیا بتاؤں میں اپنا حالِ دل

جانتا ہوں تو جان لیتا ہے

زخم ڈھلتے نہیں ہیں لفظوں میں

کیوں مِرا تُو بیان لیتا ہے

ہمیں بربادیوں پہ مسکرانا خوب آتا ہے

 ہمیں بربادیوں پہ مسکرانا خوب آتا ہے

اندھیری رات میں دیپک جلانا خوب آتا ہے

غلط فہمی تمہیں کچھ اور آتا ہو نہ آتا ہو

اچانک آگ پانی میں لگانا خوب آتا ہے

ذرا سی بات پہ دیوار کھنچوانے لگا ہے وہ

اسے بھی رائی کا پربت بنانا خوب آتا ہے

تمہارا کچھ بھی پتا نہیں ہے کہاں ہو تم

 کہاں ہو تم


ہم نے مل کر

محبتوں کے سمندروں پہ سفر کیا ہے

ہر ایک خواہش کے ہر جزیرے پہ

ہم رکے ہیں

گداز جذبوں کی وادیوں میں پڑاؤ ڈالے

جس سمت مری خاک لیے اہل ہنر جائیں

 جس سمت مِری خاک لیے اہلِ ہنر جائیں

واں کوزے بصد بغض و حسد ٹوٹیں بکھر جائیں

ہر سمت یہی عالمِ آزردگی ہے دوست

وحشت کدۂ غم سے اٹھیں بھی تو کِدھر جائیں

وہ شمعِ فروزاں سے بھی کئی درجہ حسیں ہے

پروانے اسے دیکھیں تو حیرت سے ہی مر جائیں

تمہارا لوگوں کو یہ بتانا کہ میرا رانجھا فلاں فلاں ہے

 تمہارا لوگوں کو یہ بتانا کہ میرا رانجھا فلاں فلاں ہے

ہماری روحوں کے ایک ہونے کی اک شہادت ہے اک نشاں ہے

بچھڑ گیا ہوں جو تجھ سے تو اک اداسی ہے جسم و جاں میں

کہ بِن تمہارے میں کچھ نہیں ہوں ہر ایک لمحہ وبال جاں ہے

ہم اپنی آنکھوں کی بے بسی کو بیان کیسے کریں گے تم بِن

کہ اب ہمیں کون سن رہا ہے، ہمارا اب کون رازداں ہے

مجھے تپتے ہوئے حرفوں کی بھٹی سے نکالو

 مجھے تپتے ہوئے حرفوں کی بھٹی سے نکالو

میرے تالُو میں چھالے بن گئے ہیں گاؤں والو

پسرتے شہر کے پکے مکانوں میں گُھٹن ہے

کشادہ صحن کی عادی تھی میں اے شہر والو

یہ پگڈنڈی نشاں ہے، بس یہیں تک روشنی ہے

اب اس سے آگے ہاتھوں میں کوئی مشعل اُٹھا لو

بہ مجبوری ہر اک رنج و محن لکھنا پڑا مجھ کو

بہ مجبوری ہر اک رنج و محن لکھنا پڑا مجھ کو

بنا کر خود کو موضوعِ سخن، لکھنا پڑا مجھ کو

زبانیں جن کی قینچی کی طرح چلتی تھیں شوہر پر

انہیں شیریں زباں، شیریں دہن لکھنا پڑا مجھ کو

ہر اک محفل میں جلووں کی جو رشوت پیش کرتی تھیں

وہ جیسی بھی تھیں، "جان انجمن" لکھنا پڑا مجھ کو

تپش گلزار تک پہنچی لہو دیوار تک آیا

 تپش گلزار تک پہنچی لہو دیوار تک آیا

چراغ خود کلامی کا دھواں بازار تک آیا

ہوا کاغذ مصور ایک پیغام زبانی سے

سخن تصویر تک پہنچا ہنر پرکار تک آیا

عبث تاریک رستے کو تہِ خورشیدِ جاں رکھا

یہی تارِ نفس آزار سے پیکار تک آیا

جب قضا مجھ سے یہ کہتی ہے کہ ہاں میں ہوں

 جب قضا مجھ سے یہ کہتی ہے کہ ہاں میں ہوں

میں یہی سوچتا رہتا ہوں، کہاں میں ہوں؟

میں کہاں ہوں کہ تِری سانس بھی چھُو سکتا ہوں

تُو وہاں ہے یہ بتا مجھ کو، جہاں میں ہوں

چاک بھی ہے یہیں موجود گِل و لا بھی ہے

فکر کس بات کا اے کوزہ گراں! میں ہوں

دسمبر جا رہے ہو کیا بتاؤ جا رہے ہو کیا

 دسمبر جا رہے ہو کیا

بتاؤ جا رہے ہو کیا

سبھی سے اب جدا ہو کر

ہمیں خدا حافظ کہہ کر

کوئی سورج نیا لینے

امیدوں کی ضیا لینے

خدا معبدوں میں اکیلا ہے

 الٹے ہونٹ


خدا معبدوں میں اکیلا ہے

کوئی عبادت کو جاتا نہیں

جو گیا

خالی ورزش ہوئی

خود وہ اٹکا رہا، دُور باہر کہیں

راہ حق پہ یوں بھی چلنا چاہیے

 راہ حق پہ یوں بھی چلنا چاہیۓ

نیزہ نیزہ سر اُچھلنا چاہیۓ

رُخ ہواؤں کا بدلنا چاہیۓ

آفتوں کو سر سے ٹلنا چاہیۓ

نیزہ سینے سے میرے یوں کھینچیۓ

ساتھ انی کے دل💔 نکلنا چاہیۓ

فیض حسین چار سو جاری ہے آج تک

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ


فیضِ حسینؑ چار سو جاری ہے آج تک

باطل پہ خوف دیکھ لو طاری ہے آج تک

دستِ حسینؑ چوم نہ پایا تو رو پڑا

تب سے فرات سینہ فگاری ہے آج تک

ہم کو شہادتوں کا نہیں، ظلم کا ہے غم

بس اس لیے یہ نالہ و زاری ہے آج تک

روشنی کا سلسلہ ہے آپ کی دہلیز پر

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


روشنی کا سلسلہ ہے آپﷺ کی دہلیز پر

بابِ گریہ کھل گیا ہے آپﷺ کی دہلیز پر

دل پہ اک آنسو گرا ہے یا مرا احساس ہے

اک دِیا سا جل اٹھا ہے آپﷺ کی دہلیز پر

اسمِ احمدﷺ ہے زباں پر روح تک سرشار ہے

درد کا کیا ذائقہ ہے آپﷺ کی دہلیز پر

مشکل جو پڑی کبھی تو پھر اللہ یاد آیا

عارفانہ کلام حمدیہ کلام


مشکل جو پڑی کبھی تو، پھر اللہ یاد آیا

حاجت جو ہوئی کبھی تو، پھر اللہ یاد آیا

غفلت میں ساری زندگی یہ گزار دی تو نے

اب عمر جو کٹ چلی تو، پھر اللہ یاد آیا

صرف اوروں کے لیے روتا رہا زندگی بھر تو

اب زندگی جو گزر گئی تو، پھر اللہ یاد آیا

جیسا خدا کا حکم ہے ویسا سمجھتا ہوں

 جیسا خدا کا حکم ہے ویسا سمجھتا ہوں

پتھر کے اک مکان کو کعبہ سمجھتا ہوں

تم کہہ رہے ہو؛ اک بڑی نعمت ہے زندگی

میں تو اسے حضورؐ کا صدقہ سمجھتا ہوں

کاغذ کے ایک ٹکڑے سے قائل نہ کر مجھے

میں تو تمہارے فعل کو شجرہ سمجھتا ہوں

Wednesday 29 December 2021

محبتیں رزق ہوتی ہیں پہنچ کے رہتی ہیں

 محبتیں رزق ہوتی ہیں


سنا ہے تمہارے دل کے سبھی رستوں پہ گرد سی جمی ہے

تم نے جذبات کو گہری نیند سلا رکھا ہے

محبتوں سے منہ موڑ رکھا ہے

مگر اے معصوم سی گڑیا

پت جھڑ ہمیشہ تھوڑی رہتے ہیں

ہر ہاتھ میں بندوق ہے ہر نظر تلوار ہے

 ہر ہاتھ میں بندوق ہے، ہر نظر تلوار🗡 ہے

آج تو سارے کا سارا شہر ہی خونخوار ہے

اترا ہوا ہے خون جو ہر ایک شخص کی آنکھ میں

کس سے جا کے پوچھوں میں کون میرا گنہگار ہے

خون میرا جو مل گیا ہے، تیرے شہر کی خاک میں

کُچلا بھی، روندا بھی ہے، یہ تماشہ سرِ بازار ہے

زندگی کی راہ میں اک موڑ ایسا آئے گا

 زندگی کی راہ میں اک موڑ ایسا آئے گا

جس کے آگے ہر کوئی خود کو اکیلا پائے گا

کون کتنا ضبط کر سکتا ہے؟ کربِ‌ ہجر کو

ریل جب چلنے لگے گی، فیصلہ ہو جائے گا

آج بھی اس روٹھنے والے سے یہ امید ہے

میری جانب دیکھ کر اک بار تو مُسکائے گا

کوئی پوچھے تو اس دوانے سے

 کوئی پوچھے تو اس دِوانے سے

عشق بڑھتا ہے آزمانے سے

اس کی یادیں ہیں درد کا درماں

درد بڑھتا ہے بُھول جانے سے

کوئی صُورت نکال، مِلنے کی

خواب ہی میں کسی بہانے سے

اپنی محرومیوں کو چھپاتی ہوئی زندگی اور ہے

 اپنی محرومیوں کو چھپاتی ہوئی زندگی اور ہے

آئینے سے نگاہیں ملاتی ہوئی زندگی اور ہے

وہ دِیے اور ہیں دشمنی جو ہوا سے نبھاتے رہے

تیرگی کو اُجالا بناتی ہوئی زندگی اور ہے

شہرِ جاناں کی گلیوں میں ہنستی ہوئی زندگی اور تھی

دشتِ ہجراں میں یوں خاک اڑاتی ہوئی زندگی اور ہے

دور میں جتنا گیا اتنا وہ نزدیک ہوا

 دور میں جتنا گیا، اتنا وہ نزدیک ہوا

دل نے برجستہ کہا؛ ٹھیک ہوا، ٹھیک ہوا

بے یقینی ہی مِرے کرب کا باعث تو نہیں

ظلمتِ قلب سے تو دن نہیں تاریک ہوا؟

نقص ہے کاریگری میں تِری، ورنہ یہ بتا

جام کے بوجھ سے پیمانہ کبھی لِیک ہوا

شام ڈھلے تو زلف کھلے تو

 شام ڈھلے تو

میلوں پھیلی خوشبو خوشبو گھاس میں رستے

آپ بھٹکنے لگتے ہیں

زُلف کُھلے تو

مانگ کا صندل 

شوق طلب میں

کسی ہیجانیت میں کھو رہی ہے

کسی ہیجانیت میں کھو رہی ہے

مِری تحریر پاگل ہو رہی ہے

مِری چھوٹی سی دنیا قہقہوں کی 

شکستہ آنسوؤں کو رو رہی ہے 

تعصب ہے، تعفن ہے، گھٹن ہے 

یہ دنیا کیوں کدورت بو رہی ہے

جھوٹ اور سچ کے تماشے میری زباں کاٹ دی

 جھوٹ اور سچ کے تماشے


ذرا دیکھ میرے مقدر کی شاخوں پہ

جتنے شگوفے تھے

سب جل گئے ہیں

مِرے رخت جاں پر

بہاروں کا ضامن

اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں


اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

 دہقان تو مرکھپ گیا، اب کس کو جگاؤں

ملتا ہے کہاں خوشۂ گندم، کہ جلاؤں

شاہیں کا ہے گنبدِ شاہی پہ بسیرا 🦅

کنجشکِ فرومایہ کو اب کس سے لڑاؤں

رہنماؤں کی بات کرتے ہو

 رہنماؤں کی بات کرتے ہو

پارساؤں کی بات کرتے ہو

جو اڑا لیں سروں سے آنچل بھی

ان ہواؤں کی بات کرتے ہو

جل رہی ہے زمیں کی کوکھ مگر

تم خلاؤں کی بات کرتے ہو

نہ سب بے خبر ہیں نہ ہشیار سب

 نہ سب بے خبر ہیں نہ ہشیار سب

غرض کے مطابق ہیں کردار سب

دکھاوے کی ہیں ساری دلچسپیاں

حقیقت میں سب سے ہیں بیزار سب

خبر ہے کوئی چارہ گر آئے گا

سلیقے سے بیٹھے ہیں بیمار سب

مٹی ہوں بھیگنے دے مرے کوزہ گر ابھی

 مٹی ہوں بھیگنے دے مِرے کوزہ گر ابھی

مصروف گردشوں میں ہے دستِ ہنر ابھی

خود بڑھ کے قتل گاہ میں قاتل کے سامنے

مقتول ہو گیا ہے بہت با اثر ابھی

چہروں بھری کتاب میں ملتی نہیں ہے اب

دیکھی تھی تیری شکل کسی صفحہ پر ابھی

خواہش وصل میں قطرے سے گہر ہونے تک

 خواہشِ وصل میں، قطرے سے گُہر ہونے تک

اشک پلکوں پہ سجائے ہیں، اثر ہونے تک

خاک جیتے ہیں محبت میں تمہاری آخر

جان سے جاتے رہے، جان جگر ہونے تک

لوگ حیراں ہیں مِرے ضبط طلب پر جاناں

"آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک"

سیکھ لیا جینا میں نے

 سیکھ لیا جینا میں نے

اتنا زہر پیا میں نے

شکوہ نہیں کیا میں نے

آنسو پونچھ لیا میں نے

ان سے مل کر آیا ہوں

خواب نہیں دیکھا میں نے

ہماری سمت مت دیکھو

 ہماری سمت مت دیکھو


ہماری سمت مت دیکھو 

کہ ہم سب زرد ہوتی ساعتیں ہیں

اندھیری رات کی وہ نیلگوں ساعت

جو مشتِ تیرگی میں اک ستارے کی طرح 

روشن ہوئی اور جل بُجھی تھی

ہمارے ناخنوں کی مضمحل بے دھار جنبش

گلوں کا رنگ تپش خوشبوئیں سمندر کھینچ

 گلوں کا رنگ، تپش، خوشبوئیں، سمندر کھینچ

کچھ اس طرح سے مِری آرزو کا پیکر کھینچ

نکل ہی جائے نہ دَم اپنا آہِ سوزاں سے

زباں پہ لفظ تو رکھ اس طرح نہ تیور کھینچ

اٹک رہا ہے مِرا دَم نکل نہ پائے گا

ستم شعار جگر سے مِرے یہ خنجر کھینچ

بچھڑ کے تجھ سے ابھی تک سنبھل نہیں پایا

 بچھڑ کے تجھ سے ابھی تک سنبھل نہیں پایا

دراصل، میں تِرے دُکھ سے نکل نہیں پایا

بجھا دئیے ہیں دِیے اپنی آرزوؤں کے

کہ میں ہواؤں کے رخ کو بدل نہیں پایا

جو بات بات پہ آنکھوں میں پھیل جاتے ہیں

یہ اشک وہ ہیں، جنہیں میں نِگل نہیں پایا

جینے کی تمنا کئے بیٹھے ہیں

 غلام آج بھی ہیں


راستے بوجھل

ساعتیں بے قیام سی ہیں

انہی پُرخار راستوں سے پرے، منزلِ وفا

جس کو پانے کی کہنہ مشقت 

مجھے قدم قدم لیے پھرتی

اللہ اللہ کر بھیا اللہ ہی سے ڈر بھیا

 گیت


اللہ اللہ کر بھیا، اللہ ہی سے ڈر بھیا

اللہ اللہ کر بھیا اللہ ہی سے ڈر بھیا

ہُما ہُما چل بھئی چل ٹُھمک ٹُھمک تا تھئیا


تیرے عشق میں جو بھی ڈوب گیا 

اسے دنیا کی لہروں سے ڈرنا کیا 

اللہ اللہ کر بھیا اللہ ہی سے ڈر بھیا

ایک مدت سے اسے دیکھا نہیں

 ایک مدت سے اسے دیکھا نہیں

اب مگر کاجل مِرا بہتا نہیں

اک مرض میں مبتلا ہے دل مِرا

کیا مرض ہے یہ پتہ چلتا نہیں

دوستی جب سے ہوئی تعبیر سے 

خواب پیچھا ہی مِرا کرتا نہیں

دفعتاً بچھڑے گا وہ بھی دل کو یہ دھڑکا نہ تھا

 دفعتاً بچھڑے گا وہ بھی دل کو یہ دھڑکا نہ تھا

جو مِرے ہمراہ تھا،۔ لیکن مِرا سایہ نہ تھا

سوچ کا طوفان شادابی بہا کر لے گیا

ایسا لگتا ہے کہ یہ چہرہ کبھی میرا نہ تھا

موسمِ گل میں ہوائیں جیسے پتھرائی رہیں

خوشبوؤں کا کوئی جھونکا اس طرف آیا نہ تھا

دھواں سزا ہے سزا کے قریب مت ہونا

 دھواں سزا ہے، سزا کے قریب مت ہونا

چراغ ہو تو ہوا کے قریب مت ہونا🪔

تپش ضروری ہے لیکن گریز اچھا ہے

اسے قریب بلا کے، قریب مت ہونا

وہ جس کو چاہے بنا دے کلام سے پتھر

طلسمِ ہوشربا کے قریب مت ہونا

دنیا کو درس مہر و وفا دے رہے ہیں ہم

 دنیا کو درسِ مہر و وفا دے رہے ہیں ہم

صحرا میں جیسے کوئی صدا دے رہے ہیں ہم

یہ سوچنا فضول ہے دنیا سے کیا ملا

یہ دیکھنا ضرور ہے کیا دے رہے ہیں ہم

لے کر جزائے خُلد کی اک آرزوئے خام

خود کو نہ جانے کب سے سزا دے رہے ہیں ہم

کھلی کتاب تھے ہم کو پڑھا نہیں تم نے

 کھلی کتاب تھے ہم کو پڑھا نہیں تم نے

ہر اک ورق پہ تمہارا ہی نام لکھا تھا

سخاوتوں کے سمندر لنڈھا دئیے اس نے

ہمارے نام بس اک خالی جام لکھا تھا

اگر وہ منکرِ حق تھا، تو کوئی بتلائے

لہو کی بوندوں نے پھر کس کا نام لکھا تھا

گلہائے عقیدت ہیں مرے اشک چکیدہ

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


گُلہائے عقیدت ہیں مِرے اشک چکیدہ

اوقات کہاں میری لکھوں تیراؐ قصیدہ

بیدار ہوا تجھؐ سے زمانوں کا مقدر

آزاد ہوئے دشت کے آشوب رسیدہ

چوکھٹ پہ تِریؐ ٹوٹا فسوں طرزِ کہن کا

اک نعرۂ یک رنگ بنی فکرِ پریدہ

کرم کی اک نظر ہو جان عالم یا رسول اللہ

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


کرم کی اک نظر ہو جانِ عالم، یا رسول اللہﷺ

تِری امت پہ ہے افتاد پیہم، یا رسول اللّہ

بنایا تھا تمہارے نام سے جو آشیاں ہم نے

گری ہے اس پہ ہو کے برہم ، یا رسول اللہ

بڑے دم خم سےآزادی کی صبحِ نو کو دیکھا تھا

ستم ہے دم رہا اس میں نہ اب خم، یا رسول اللہ

عقیدتوں کے مدینے کا تاجدار درود

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


عقیدتوں کے مدینے کا تاجدار درود

عبادتوں کے قرینے کا اعتبار درود

"زہے نصیب کہ بزمِ فروغِ نعتؐ میں ہوں"

برنگِ شعر زباں پر ہے کیف بار درود

سجی ہے آج درود و سلام کی محفل

ہزار بار سلام اور صد ہزار درود

Tuesday 28 December 2021

چہروں پہ کھلی دھوپ سجا کر جو گیا ہے

 چہروں پہ کھلی دھوپ سجا کر جو گیا ہے

اب شہر میں سورج بھی اسے ڈھونڈ رہا ہے

میں خوش ہوں بہت کانچ کی پوشاک پہن کر

پتھر سے جو ٹکرائی ہے وہ میری صدا ہے

وہ شخص جو آئینہ تھا چہروں کے جہاں میں

بکھرا تو کسی سے بھی سمیٹا نہ گیا ہے

پہلے انسان محبت میں مرا ہے شاید

 پہلے انسان محبت میں مرا ہے شاید

زہر تو بعد میں ایجاد ہوا ہے شاید

تُو بہت شوق سے سنتا ہے کہانی غم کی

تُو محبت کے مریضوں میں نیا ہے شاید

لفظ احساس کو تصویر نہیں کر سکتے

عشق دنیا کی زبانوں سے بڑا ہے شاید

ٹوٹ کر پھر سے بکھر جانے کو جی چاہتا ہے

 ٹوٹ کر پھر سے بکھر جانے کو جی چاہتا ہے

اس کی دہلیز پہ مر جانے کو جی چاہتا ہے

دیکھ کر آپ کی زر پاشی و ضو افشانی

آپ کے دل میں اُتر جانے کو جی چاہتا ہے

وادئ حسن میں جی لگتا نہیں ہے میرا

دوستو اس کے نگر جانے کو جی چاہتا ہے

جلتے ہوئے جنگل سے گزرنا تھا ہمیں بھی

 جلتے ہوئے جنگل سے گزرنا تھا ہمیں بھی

پھر برف کے صحرا میں ٹھہرنا تھا ہمیں بھی

معیار نوازی میں کہاں اس کو سکوں تھا

اس شوخ کی نظروں سے اترنا تھا ہمیں بھی

جاں بخش تھا پل بھر کے لیے لمس کسی کا

پھر کرب کے دریا میں اترنا تھا ہمیں بھی

سکون ذات وقف انتشار کر لیا گیا

 سکونِ ذات وقفِ انتشار کر لیا گیا

غضب ہوا کہ دل کا اعتبار کر لیا گیا

قدم قدم ملے جو آبلے رہِ حیات میں

تو آنسوؤں کو مثلِ آبشار کر لیا گیا

ملا فریب و مکر سے بھی کب وہ حیلہ جو مگر

لباس سادگی کا داغدار کر لیا گیا

خاک ان گلیوں کی پلکوں سے بہت چھانی تھی

 خاک ان گلیوں کی پلکوں سے بہت چھانی تھی

پھر بھی صورت مِری اس شہر میں انجانی تھی

ہم بھی کچھ اپنی وفاؤں پہ ہوئے تھے نادم

ان کو بھی ترکِ تعلق پہ پشیمانی تھی

خود فریبی تو الگ بات ہے، ورنہ ہم نے

اپنی صورت کہاں آئینے میں پہچانی تھی

دراز دستوں کی سلطنت

 دراز دستوں کی سلطنت ہے


گُلِ تمنا بکھر چکا ہے

یہ شہر لاشوں سے بھر چکا ہے

دریدہ جسموں کی باس سے 

پُر ہوا کی پا کوب وحشتوں نے

گلی گلی میں دُہائی دی ہے

میں نے تمہاری گاگر سے کبھی پانی پیا تھا پیاسا تھا میں یاد کرو

 گیت


میں نے تمہاری گاگر سے کبھی 

پانی پیا تھا پیاسا تھا میں یاد کرو

سن لو زرا گوری تم شرما کے 

تھوڑا سا بل کھائیں تھیں وہ دن یاد کرو


یہ تیرے کاجل کا رنگ ہوا تھا 

ہاں میری آنکھوں کے سنگ 

ہمارے ان کے مراسم کی بات مت پوچھو

 ہمارے اُن کے مراسم کی بات مت پوچھو 

یہ سلسلہ تو کہیں دور جاں سے ملتا ہے 

ہے اپنے اپنے مقدر کی بات کیا کہیۓ 

ہمارے زخم کو مرہم کہاں سے ملتا ہے 

ہمارے پیار کے قصے گلی گلی بکھرے

یہ مرتبہ بڑے سُود و زیاں سے ملتا ہے 

وه ڈهونڈ لے گا بہت جلد جان من کوئی اور

 وه ڈهونڈ لے گا بہت جلد جانِ من کوئی اور

غلط کہ، پاس نہیں اس کے آپشن کوئی اور

کوئی تو جا کے بتائے یہ بات کاتب کو

کہ حُسنِ زن ہے کوئی اور حُسنِ ظن کوئی اور

کزن سے منگنی اسی وقت ٹوٹ جائے گی

مسز بنا کے وہ لائے گا جب کرن کوئی اور

اک چھوڑو ہو اک اور جو مسمات کرو ہو

 اک چھوڑو ہو اک اور جو مسمات کرو ہو

ہر سال یہ کیا قبلۂ حاجات کرو ہو؟

سمجھو ہو کہاں اوروں کو تم اپنے برابر

بس منہ سے مساوات مساوات کرو ہو

کیا حسن کی دولت بھی کبھی بانٹو ہو صاحب

سننے میں تو آیا ہے کہ خیرات کرو ہو

ایک دن غالب کے پڑھ کر شعر میری اہلیہ

ایک دن غالب کے پڑھ کر شعر میری اہلیہ

مجھ سے بولی آپ تو کہتے تھے ان کو اولیا

عاشقِ بنتِ عنب کو آپ کہتے ہیں ولی

فاقہ مستی میں بھی ہر دم کر رہا ہے میکشی

پوجنے سے مہ جبینوں کے یہ باز آتا نہیں

اور پھر کافر کہے جانے سے شرماتا نہیں

جب ان کی نگاہ ستم دیکھتے ہیں

 جب ان کی نگاہِ ستم دیکھتے ہیں

تو عالم کو جائے الم دیکھتے ہیں

ہو اک آئینہ آئینے کے مقابل

وہ زلفوں کے جب پیچ و خم دیکھتے ہیں

چلے جائیں گے کیوں جھڑکتے ہو صاحب

تمہاری نگاہِ کرم دیکھتے ہیں

اس قدر ہے بیش قیمت زندگانی کے لیے

 اس قدر ہے بیش قیمت زندگانی کے لیے

صنفِ نازک ہے ضروری شادمانی کے لیے

بچپنے میں کھل گیا سب پر کہ ہوں عاشق مزاج

چوڑیاں میں نے خریدیں جب ممانی کے لیے

دوش مت لڑکوں کو دیجے، آج کل کی لڑکیاں

کرتی ہیں آمادہ خود ہی چھیڑ خانی کے لیے

بول میری مچھلی کتنا پانی

 بول میری مچھلی (مکمل)


سنو رے لوگو نئی کہانی

ایک ہے راجہ ایک ہے رانی

راج پاٹ سب راجہ کا ہے 

رانی ہے بس نام کی رانی

پل پل اس سے پوچھ رہی ہے

محبت آگ سی تھی اور تم پانی سے تھے

 محبت آگ سی تھی

اور تم پانی سے تھے

محبت شمع سی تھی

اور تم پروانے سے تھے

محبت جلن سی تھی

اور تم مرہم سے تھے

قدم قدم پہ ہے برق و شرار کی دستک

 قدم قدم پہ ہے برق و شرار کی دستک

درونِ نظمِ عمل انتشار کی دستک

نوائے غنچہ و گل ہو کہ خار کی دستک

برائے فکر و نظر ہے بہار کی دستک

وگرنہ گریہ و ماتم ہے جس طرف دیکھو

کسی کسی کو خوش آتی ہے پیار کی دستک

نہ آنسوؤں میں کبھی تھا نہ دل کی آہ میں ہے

 نہ آنسوؤں میں کبھی تھا نہ دل کی آہ میں ہے

تماش بین ہمیشہ سے رقص گاہ میں ہے

بنامِ عشق مِری زندگی! تِرے قرباں

مگر نصیب مِرا بے طلب نباہ میں ہے

میں جانتا ہوں کہ ہے کس کی آنکھ کا آنسو

وہ ایک لعل جو اب تک مِری کلاہ میں ہے

مالی اداس ہے نہ یہ گلشن اداس ہے

 مالی اداس ہے نہ یہ گلشن اداس ہے

آندھی میں صرف ایک نشیمن اداس ہے

جمنا کے تیر بجتی ہے نیرو کی بانسری

رانجھے کا دیش ہیر کا مدھوبن اداس ہے

مجھ کو سکھی کا امتحاں لینا تھا لے لیا

میری بلا سے گر مِرا دامن اداس ہے

اب وہ کیا کر رہا ہو گا

 اب وہ کیا کر رہا ہو گا


اب، مجھے کسی اور سے محبت ہو گئی ہے

اور، وہ مجھ سے نفرت کر رہا ہو گا

میں خوش ہوں کتنی

وہ اپنے گھر میں اداس ہو گا

میرا ہاتھ کسی اور کے ہاتھ میں دیکھ کر

تنہائی میری سوچ کے دائرے

سوچ کے دائرے


درد ہے، درد کی رات ہے

غم ہے، تنہائی ہے

تو کیا ہوا

یہی تو زندگی کا محاصل ہے

یہی کائنات ہے

اب کس کی جستجو ہو تری جستجو کے بعد

 اب کس کی جُستجُو ہو تِری جُستجُو کے بعد

جچتا نہیں ہے کوئی تری آرزُو کے بعد

ترکِ وفا کے بعد ہے تجدیدِ التفات

مثلِ لباسِ کہنہ جو پہنا رفُو کے بعد

کرتے ہیں بہکی بہکی سی باتیں جنابِ شیخ

آتے ہیں آپ ہوش میں صرف سبُو کے بعد

اے حسن بے مثال ترے خال و خد کی خیر

 اے حسنِ بے مثال! تِرے خال و خد کی خیر

اے صاحب جمال! تِرے خال و خد کی خیر

دیکھیں گے اک نظر تجھے اور لوٹ جائیں گے

ہم کو نہ کل پہ ٹال، تِرے خال و خد کی خیر

ہر روز مانگتے ہیں تِرے واسطے دعا

تجھ پر نہ ہو زوال، تِرے خال و خد کی خیر

کیا کسی بیج کا یہ خون بہا تھا لوگو

 کیا کسی بیج کا یہ خون بہا تھا لوگو 

پیڑ جنگل سے بہت دور اُگا تھا لوگو 

لاکھ مشکل ہو مِرا ہاتھ سنبھالے رکھنا 

در سے دیوار نے کل رات کہا تھا لوگو 

دن کی آغوش میں سورج کا سُلگتا ہوا تن 

شام ہوتے ہی سمندر میں گِرا تھا لوگو 

تھا پہلا سفر اس کی رفاقت بھی نئی تھی

 تھا پہلا سفر اس کی رفاقت بھی نئی تھی

رستے بھی کٹھن اور مسافت بھی نئی تھی

دل تھا کہ کسی طور بھی قابو میں نہیں تھا

رہ رہ کے دھڑکنے کی علامت بھی نئی تھی

جب اس نے کہا تھا کہ مجھے عشق ہے تم سے

آنکھوں میں جو آئی تھی وہ حیرت بھی نئی تھی

جانے کس سانحۂ درد کے غماز رہے

 جانے کس سانحۂ درد کے غمّاز رہے

عہد در عہد بکھرتی ہوئی آواز رہے

گم ہوئی جاتی ہے تاریک خلاؤں میں نظر

اس گھڑی میرے سرہانے مِرا دَمساز رہے

اپنی پہچان ہی کھو بیٹھے ہم رفتہ رفتہ

اپنے ہی آپ سے ہم کتنے نظر انداز رہے

وہیں پہ رکھ دیا میں نے چراغ جلتا ہوا

 وہیں پہ رکھ دیا میں نے چراغ جلتا ہوا

جہاں بھی دیکھ لیا، آفتاب ڈھلتا ہوا

ہزار جال مِری راہ میں بچھائے گئے

مگر میں چلتا رہا، دیکھ کر، سنبھلتا ہوا

منافرت کا جہاں بیج بو گیا تھا تُو

وہاں پر آ کے ذرا دیکھ؛ پیڑ پھلتا ہوا

زندگی میں ایسا کتنی بار ہوتا ہے یہاں

 زندگی میں ایسا کتنی بار ہوتا ہے یہاں

منزلوں کا راستہ دشوار ہوتا ہے یہاں

جو سفر کے لطف کا اندازہ کر سکتا نہیں

خوش سفر میں رہنے سے لاچار ہوتا ہے یہاں

آندھیاں، پُر خار رستے، سنگ روکیں کس طرح

جن کو گلشن کی کلی سے پیار ہوتا ہے یہاں

زہراب تشنگی کا مزہ ہم سے پوچھیے

 زہراب تشنگی کا مزہ ہم سے پوچھیۓ

گزری ہوئی صدی کا مزہ ہم سے پوچھیۓ

اک پل خیالِ یار میں ہم منہمک رہے

اک پل میں اک صدی کا مزہ ہم سے پوچھیۓ

شہرت کی بے خودی کا مزہ آپ جانیۓ

عزت کی زندگی کا مزہ ہم سے پوچھیۓ

میرے اندر کا بہادر شخص بزدل بن گیا

 میرے اندر کا بہادر شخص بزدل بن گیا

میرے اپنے سامنے جب میرا بیٹا تن گیا

زہر بن کر گُھل گئی دل میں خیالوں کی دھنک

ہاتھ اپنے کاٹ کر جب دے دئیے تو فن گیا

ایک بدلی کو مِرے سر سے گزارا جائے گا

اور مجھے یہ ماننا ہو گا؛ مِرا ساون گیا

سکوت بڑھنے لگا ہے صدا ضروری ہے

 سکوت بڑھنے لگا ہے صدا ضروری ہے

کہ جیسے حبس میں تازہ ہوا ضروری ہے

پھر اس کے بعد ہر اک فیصلہ سر آنکھوں پر

مگر گواہ کا سچ بولنا ضروری ہے

بہت قریب سے کچھ بھی نہ دیکھ پاؤ گے

کہ دیکھنے کے لیے فاصلہ ضروری ہے

روٹھے ہیں اس قدر کہ منایا نہ جائے گا

 روٹھے ہیں اس قدر کہ منایا نہ جائے گا

آئی ہے نیند یوں کہ جگایا نہ جائے گا

ہے کون سا دیار؟ جہاں آپ جا بسے

اور کہہ گئے کہ لوٹ کے آیا نہ جائے گا

روئیں گے ہم بھی جائیے ہر روز ہر گھڑی

اب آپ سے تو چُپ بھی کرایا نہ جائے گا

وہ اندر سے مر جاتے ہیں جن کے خواب بکھر جاتے ہیں

 وہ اندر سے مر جاتے ہیں

جن کے خواب بکھر جاتے ہیں

دیجے اُس دیوار کو پُرسہ

جس کے سائے اُتر جاتے ہیں

بھر لیتے ہیں اِک پیمانہ

جب اندر سے بھر جاتے ہیں

جسے رزق ہوا ہونا تھا وہ اب چاک پر ہے

 جسے رزقِ ہوا ہونا تھا، وہ اب چاک پر ہے

سُنا ہے بس یہی الزام میری خاک پر ہے

اسے جس نے بھی سمجھا، بےبسی سے مسکرایا

یہی اک جبر میرے قصۂ نم ناک پر ہے

مجھے کہنا تھا جو بھی، کہہ چکا سارے کا سارا

کہا کیا ہے، یہ تیری قوتِ ادراک پر ہے

اس کا لہجہ اکھڑتا جاتا ہے

 اس کا لہجہ اکھڑتا جاتا ہے

پھر بچھڑنے کا وقت آتا ہے

اس کا اندازِ گفتگو اکثر

میرے لہجے میں جگمگاتا ہے

اس کی سانسیں جب آگ دیتی ہیں

میرا چہرہ بھی تمتماتا ہے

دسمبر کی پر کیف فضا میں تیری یاد آ رہی ہے

 پرسکون


بارش میں بھیگے ہوئے پھول

آنکھوں پہ رکھے پانی کی قطرے

رگڑ رگڑ کر صاف کر رہے ہیں

قریب آتی ہوئی دھوپ

منظر نہلا رہی ہے

دسمبر کے مہینے کا وہ شاید آخری دن تھا

 دسمبر کے مہینے کا وہ شاید آخری دن تھا


گزشتہ سال میں نے

محبت لفظ لکھا تھا

کسی کاغذ کے ٹکڑے پر

اچانک یاد آیا ہے

گزشتہ سال میں مجھ کو

لگے ہیں پھر سے دہرانے وہی باتیں دسمبر کی

 لگے ہیں پھر سے دہرانے وہی باتیں دسمبر کی

سلگتے دن، خفا شامیں، بلا راتیں دسمبر کی

شکستہ دل، تھرکتے لب، برستا آنکھ کا پانی

کہاں ہم بھول پائے ہیں یہ سوغاتیں دسمبر کی

بلا کا سرد لہجہ تھا دسمبر کی طرح ان کا

ہمیں کب راس آئی ہیں ملاقاتیں دسمبر کی

انکار کی سبیل کر اقرار لے کے آ

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


انکار کی سبیل کر، اقرار لے کے آ

اپنی زبانِ گُنگ پہ گفتار لے کے آ

طٰہٰ کا جس میں رنگ ہو، خوشبوئے ھل اتا

والیل کے جمال سا معیار لے کے آ

جس میں خریدے جا سکیں دُر ہائے مصطفٰیؐ

سودائے عشق کا وہی بازار لے کے آ

جو ہیں نام آقا پہ مٹ جانے والے

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


جو ہیں نامِ آقاﷺ پہ مٹ جانے والے

وہ ہیں دائمی زندگی پانے والے

انہیں بھی نہ رحمت سے محروم رکھا

ہمیشہ رہے جو ستم ڈھانے والے

بداندیش کی بھی بھلائی کے خواہاں

عدو پر بھی ہیں رحم فرمانے والے

Monday 27 December 2021

تجھ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


سرورِ سروراں، فخرِ کون و مکاں، تجھؐ سا کوئی کہاں تجھؐ سا کوئی کہاں

تیریؐ چوکھٹ ہے بوسہ گہِ قُدسیاں، تجھؐ سا کوئی کہاں تجھ سا کوئی کہاں

جو زمانے میں پامال و بدحال تھے، ان کو بخشے ہیں تُؐو نے نئے ولولے

تجھؐ سے روشن ہوا بخت تیرہ شباں، تجھؐ سا کوئی کہاں تجھؐ ساکوئی کہاں

حدِ روح الاؑمینی سے بھی ماوراء، تیریؐ محشر خرامی ہے معجز نما

اے گلستانِ وحدت کے سرو رواں، تجھؐ سا کوئی کہاں تجھؐ سا کوئی کہاں

آج تک بہکا نہیں باہر سے دیوانہ ترا

 آج تک بہکا نہیں باہر سے دیوانہ تِرا

حوصلے میری نگاہوں کے ہیں پیمانہ ترا

رات بھر شبنم کی آنکھوں سے سحر کی مانگ میں

میں جسے لکھتا رہا، وہ بھی تھا افسانہ ترا

یہ تِرے دریا سلامت، یہ تِرے بادل بخیر

لُٹ رہے ہیں خُم پہ خُم، ثابت ہے مے خانہ ترا

کس قدر فرقے بنے کتنے قبیلے ہو گئے

 باغباں کی بے رخی سے نیلے پیلے ہو گئے

خار کی مانند اب گل بھی نکیلے ہو گئے

بہتے دریا سے سبھی سیراب ہیں لیکن مجھے

صرف اک قطرہ ملا بس ہونٹ گیلے ہو گئے

مے کشوں نے بس قدم رکھا تھا صحن باغ میں

پھول، پتے، بیل، بوٹے سب نشیلے ہو گئے

یاد اک زخم ہے اور زخم ہرا رہتا ہے

 یاد اک زخم ہے، اور زخم ہرا رہتا ہے

دُکھ مقدر ہے جو ماتھے پہ لکھا رہتا ہے

مجھ کو اک بار مِری ماں نے یہ سمجھایا تھا

جُھک کے رہنے سے ہی انسان بڑا رہتا ہے

اک اذیت سی رگ و پے میں رواں رہتی ہے

ایک غم ہے جو مِری جاں کو لگا رہتا ہے

پھر کوئی خواب ترے رنگوں سے جدا نہیں دیکھا

 پھر کوئی خواب تِرے رنگوں سے جدا نہیں دیکھا

کیا کچھ دیکھ لیا تھا ہم نے کیا نہیں دیکھا

اولِ عشق کی ساعت جا کر پھر نہیں آئی

پھر کوئی موسم پہلے موسم سا نہیں دیکھا

سب نے دیکھا تھا تِرا ہم کو رخصت کرنا

ہم نے جو منظر دیکھنے والا تھا نہیں دیکھا

تو میری یاد کو دل سے بھلا دے کس نے روکا ہے

 تُو میری یاد کو دل سے بُھلا دے کس نے روکا ہے

وفاؤں کا ہے گر یہ ہی صِلہ، دے کس نے روکا ہے

میں آدم ہوں مجھے ہر آدمی سے پیار کرنا ہے

اگر یہ جُرم ہے، مجھ کو سزا دے کس نے روکا ہے

مِرے گھر کو نہیں رونق جو بخشی ایک مُدت سے

اگر جو ہو سکے اتنا بتا دے کس نے روکا ہے؟

آ مجھے پھر سے لڑکپن کی شرارت دے جا

 آ مجھے پھر سے لڑکپن کی شرارت دے جا

ہاتھ رکھ کر آنکھوں پہ، بجھارت دے جا

اپنے ہونے پہ بھی مجھ کو ہے نہ ہونے کا گماں

میرے ہونے کی مجھے تُو ہی بشارت دے جا

وقت بے کار مشاغل میں کہاں تک کاٹوں

اپنی آنکھوں کو ہی پڑھنے کی عبارت دے جا

یہ جان لو محبت کو کبھی یاد نہ بننے دینا

 محبت کو کبھی یاد نہ بننے دینا


کبھی محبت کو یاد نہ بننے دینا

تمہیں معلوم نہیں ہے

محبت یاد بن جائے تو

لمبے گھنے درختوں کی شاخوں کی مانند

بدن کے گرد

رستے روٹھ جاتے ہیں

 رستے رُوٹھ جاتے ہیں


اگر پامال راہوں پر قدم رکھنے کی عادت ختم ہو جائے

مشامِ جاں میں خُوشبو کی بجائے درد در آئے

وصال آمادہ شہراہوں پہ فرقت کا بسیرا ہو

اک ایسا وقت آ جائے

جو تیرا ہو نہ میرا ہو

وہ اترنے کو ہے رات ڈھلنے کو ہے

 رات ڈھلنے کو ہے


سانس روکے ہوئے وقت کے پیڑ کو

چھیڑتی ہے ہوا

حبس چھٹنے لگا

بین کرتی ٹٹیری کی منحوس آواز پہ

اوس پڑنے لگی

اکثر سوچتا ہوں تم سے مل آؤں

 اکثر سوچتا ہوں

کہ تمہارے پاس جائے بغیر

تم سے مل آؤں

اور منہ سے کچھ بولے بغیر

بہت ساری باتیں کہہ آؤں

شاید

خزاں کا جشن عام ہے

 خزاں کا جشن عام ہے


برستے رنگ اور بھیگتے یہ سبز پیرہن

عجیب اہتمام ہے

تمام سبز بخت ہجر کے سحاب راستہ بدل گئے

زمیں پہ سرخ، سبز کاسنی بھنور کے رقص میں

دمکتی پتیوں کے جسم گُھل گئے

دسمبر بس برف گرنے ہی والی ہے

 دسمبر


اونچے نیچے مکانوں کی خالی منڈیروں پہ

لاکھوں برس گہری نیندوں میں سوئے 

پہاڑوں کی گم چوٹیوں تک

زماں دیدہ بوڑھے درختوں کی

بے برگ شاخوں میں

میں جانتا ہوں میرا سفر ختم ہونے والا ہے

 میں پرندوں کی طرح طلوع ہونا چاہتا ہوں


میں جانتا ہوں

میرا سفر ختم ہونے والا ہے

نیند آنکھوں میں پڑاؤ ڈال چکی ہے

اور اندھیرے کی ساکن آواز

کہیں بہت قریب سے سنائی دے رہی ہے

آپ تک آئے گا کون نظم سلجھائے گا کون

نظم سلجھائے گا کون


آپ گھبرائیں نہیں

لوگ میری نظم کی تفہیم تک آئے تو کیا

یہ پسِ مفہوم کوئی نقش پا سکتے نہیں

آپ تک ہرگز بھی آ سکتے نہیں

انگبیں کے ذائقے سے پھول تک آیا کوئی؟

تم بھی کن رس نہیں تھے

 تم بھی کن رس نہیں تھے


یاد ہے ایک دوست نے بتایا تھا

کہ وادی سُر لگانے سے

راگنی باطل ہو جاتی ہے

راگنی کے باطل ہونے کا تصور

مجھے بہت ناگوار گزرا تھا

خوف کی گرد میں لپٹے سناٹے ہیں چاروں جانب

 چاروں جانب


گہری نیند کے ریلے میں دو خستہ آنکھیں

دھیرے دھیرے

بے خبری سے بھر جاتی ہیے

لمبی لمبی سانسیں لے کر

ہمیں کہیں رکنا پڑتا ہے

یوں لگتا ہے خواب تھا سارا

 وہم و گماں تھا


یوں لگتا ہے خواب تھا سارا

سب دھوکا تھا

ہینڈل سے سٹارٹ جو ہوتی تھی وہ لاری

گھوں گھوں کرتی

اونچی نیچی سڑکوں پر ہچکولے کھاتی

کوئی تو ہو جو کرچیوں کو جوڑ کر دل بنا دے

 کوئی تو ہو


جرمِ زندگی کی قید سے، جب کبھی

پیرول پہ رہا ہوتا ہوں

بے قرار لمحوں کی

مجروح حسرتوں سے جب

لڑ کھڑا کے گر جاتا ہوں، تو

آئینہ ہر صورت سے بات نہیں کرتا

 آئینہ ہر صورت سے بات نہیں کرتا


آئینے کی آنکھ ہر آنکھ کو کھنگال نہیں سکتی

نہ آئینے کا دل روح کے پار کی آواز سنتا ہے

آئینے کے لب

ہمارے آنسوؤں کو چھو نہیں سکتے

پر آئینے کے ہاتھ ہمارا جسم

رہنے دو مجھے

 رہنے دو مجھے


گزرے ہوئے وقتوں سے نکل کر دیکھا

آج کا دور علاحدہ تو نہیں ہے

وہ ہی آواز کے سائے وہ ہی بے شرم سراب

آج بھی موجود ہیں کل جیسے خراب

چہرے ذرا بدلے ہیں نئی بات نہیں ہے

زبانیں ہیں مگر چرچے نہیں ہیں

 زبانیں ہیں مگر چرچے نہیں ہیں

جہاں میں کیا مِرے قصے نہیں ہیں

ہماری داستاں ہی عام کر دو

اگر تاریخ کے پنّے نہیں ہیں

کھڑے ہیں شبنمی اخلاق لے کر

کبھی شعلوں سے ہم جلتے نہیں ہیں

شراب شور سے لبریز ہے دنیا کا پیمانہ

 شراب شور سے لبریز ہے دنیا کا پیمانہ

حریف دین و دانش ہے مذاق پیر مے خانہ

بشر ابلیس کو تزویرِ نو کا درس دیتا ہے

مزین ہے گناہِ گوناگوں سے ہر پری خانہ

علومِ نو سے روشن بزم ہے تہذیبِ حاضر کی

یدِ تجدید نے ڈھالا ہے دلآویز بت خانہ

وہ ملا کے نظر اس ادا سے چلا

 وہ ملا کے نظر اس ادا سے چلا

جیسے ملنے کسی اپسرا سے چلا

سر جھکانے کی اس نے ادا سیکھ لی

جو ہمیشہ رضائے خدا سے چلا

اس دِیے کی حماقت ذرا دیکھیۓ

آج لڑنے وہ بہتی ہوا سے چلا

بریدہ سر کوئی چھایا ہوا ہے

 بریدہ سر کوئی چھایا ہوا ہے

کسی نے درد مہکایا ہوا ہے

تمہارے ہاتھ میں جو چوڑیاں ہیں

یہ تم نے مجھ کو بہلایا ہوا ہے

میری جاں تیری آنکھوں کا پرندہ 

عدن کے باغ سے آیا ہوا ہے

بچہ بچہ ہے مرے شہر کا رونے والا

 بچہ بچہ ہے مِرے شہر کا رونے والا

سوچتا ہے کسے بہلائے کھلونے والا

دن جو بدلے تو چلا آیا پذیرائی کو

ہار پھولوں کا لیے خار چبھونے والا

جانے کس جرم کی پاداش میں ان آنکھوں کو

رت جگے دے گیا آرام سے سونے والا

عیش ماضی کے گنا حال کا طعنہ دے دے

 عیش ماضی کے گِنا حال کا طعنہ دے دے

گھر پلٹنے کے لیے کوئی بہانہ دے دے

میں نے اس شہر کو اک شخص کا ہمنام کیا

چاہے اب جو بھی اسے نام زمانہ دے دے

سنگ زادوں کو بھی تعمیر میں شامل کر لو

اس سے پہلے کہ کوئی آئینہ خانہ دے دے

ہر ایک عہد میں جو سنگسار ہوتا رہا

 ہر ایک عہد میں جو سنگسار ہوتا رہا

لہو لہو میں اسی حرف کے بدن میں ہوں

زبان کیوں نہیں بنتی ہے ہمنوا دل کی

یہ شخص کون ہے میں کس کے پیرہن میں ہوں

مِرے لہو سے ہی اس نے سپر کا کام لیا

اسے خبر تھی کہ میں طاق اپنے فن میں ہوں

بارشوں کے بعد آخر دل میں یہ جو ہلچل تھی

 بارشوں کے بعد آخر

دل میں یہ جو ہلچل تھی

بارشوں سے اس کو بھی

کیا عجیب نسبت تھی

آنکھ تک امڈ آئی

دل میں جب نہ رک پائی

کیوں بھلا ایسے دربدر ہوتے

 کیوں بھلا ایسے دربدر ہوتے

ہم کسی کام کے اگر ہوتے

جو گزرتے تمہارے ساتھ وہ دن

جیسے فردوس میں بسر ہوتے

کاش اس راہ سے گزرتے تم

اور ہم گردِ رہگزر ہوتے

کوئی بھی کام ہو کرنے میں وقت لیتا ہے

 کوئی بھی کام ہو، کرنے میں وقت لیتا ہے

کہ پھول تک بھی بکھرنے میں وقت لیتا ہے

شعورِ ذات ودیعت ہوا ہے سب کو مگر

شعورِ ذات ابھرنے میں وقت لیتا ہے

یہ دل کا زخم ہے، اس کا تو خیر کیا کہنا

کوئی بھی زخم ہو بھرنے میں وقت لیتا ہے

چھتوں پہ بازو دراز کر کے لہو سے اپنے بنا کے گارا

 چھتوں پہ بازو دراز کر کے لہو سے اپنے بنا کے گارا

میں باپ تھاِ سو پسر کی خاطر بنا میں رکھا وجود سارا

لہو گِرے گا تو خاک ٹپکے ہوئے لہو کا حساب لے گی

اسی لے تو مِرے عدو نے مجھے سمندر میں لا اتارا

میں اپنے پرچم کی دھجیوں کو اٹھا کے دشمن کی راہ لوں گا

غنیم کی صف میں جا کے اس کی سپاہ کر دوں گا پارا پارا

عجیب کچھ بھی نہ تھا پھر بھی کچھ عجیب ہی تھا

 عجیب کچھ بھی نہ تھا، پھر بھی کچھ عجیب ہی تھا

وہ مجھ سے دور تھا، لیکن مِرے قریب ہی تھا

خبر انوکھی نہیں یہ کہ میں مَرا، لیکن

انوکھا یہ ہے کہ قاتل مِرا طبیب ہی تھا

مجھے قبول کہ غلطی نہ تھی امیر کی کچھ

کچل دیا جسے گاڑی نے وہ غریب ہی تھا

بڑھا دو درد کی لو اور کم ہے میرے لئے

 بڑھا دو درد کی لو اور کم ہے میرے لیے

ابھی یہ عشق میں پہلا قدم ہے میرے لیے

جہاں جہاں سے ہیں وابستہ خواب لوگوں کے

وہ ہر مقام بہت محترم ہے میرے لیے

مٹاتے جاؤ گے تم درج کرتے جائیں گے ہم

تمہارے واسطے خنجر قلم ہے میرے لیے

ہمارے حال دل کی تم کو کچھ ایسے خبر ہو گی

 ہمارے حال دل کی تم کو کچھ ایسے خبر ہو گی

تمہاری آستیں ہو گی، ہماری چشمِ تر ہو گی

حسیں تو اور بھی آ جائیں گے آغوش میں لیکن

کہاں یہ مرمریں باہیں، کہاں ایسی کمر ہو گی

محبت ہے کہاں جب ان سے پوچھا ہنس کے یوں بولے

یہاں ہو گی، وہاں ہو گی، ادھر ہو گی، ادھر ہو گی

یہ شہر کافر ہے یاں بہت ہے ریا کا چرچا

 یہ شہر کافر ہے یاں بہت ہے ریا کا چرچا

ابھی مضافات تک نہیں اس وبا کا چرچا

سنائی دیتا ہے آسمانوں سے مجھ کو اکثر

جو میں نے مانگی تلک نہیں اس دعا کا چرچا

کبھی ملیں گے تو اس کو اچھے سے جان لیں گے

ابھی تو واعظ سے سن رہے ہیں خدا کا چرچا 

جو اس نے مجھ سے کہا تھا وہی ہوا آخر

 جو اس نے مجھ سے کہا تھا وہی ہوا آخر

کہ میں نے اس کو فراموش کر دیا آخر

یہ راستوں کا بدلنا تجھی سے سیکھا ہے

نکال لیں گے کوئی ہم بھی راستہ آخر

قدم زمیں سے اٹھے تھے، دل آسماں سے ہٹا

یہاں تک آ گیا ہجرت کا سلسلہ آخر

پھولوں سے بہاروں میں جدا تھے تو ہمیں تھے

 پھولوں سے بہاروں میں جدا تھے تو ہمیں تھے

کانٹوں کی چبھن پہ بھی فدا تھے تو ہمیں تھے

بازارِ تمنا میں تو ہر شخص مگن تھا

ہر موڑ پہ دنیا سے خفا تھے تو ہمیں تھے

جس بت کو تصور میں خدا مان لیا تھا

اس بت کی نگاہوں میں خدا تھے تو ہمیں تھے

قدم جب لڑکھڑاتے ہیں سہارے مل ہی جاتے ہیں

 قدم جب لڑکھڑاتے ہیں سہارے مل ہی جاتے ہیں 

کبھی ڈوبے ہوؤں کو بھی کنارے مل ہی جاتے ہیں 

مسافر جب مسافت کا ارادہ  ٹھان لیتے ہیں 

منزل پہ پہنچنے کے اشارے مل ہی جاتے ہیں 

نظارہ کوئی بھی نظر سے اوجھل رہ نہیں سکتا 

اگر نظریں سلامت ہوں، نظارے مل ہی جاتے ہیں 

جانے اس شخص کو یہ کیسا ہنر آتا ہے

 جانے اس شخص کو یہ کیسا ہنر آتا ہے

رات ہوتی ہے تو آنکھوں میں اتر آتا ہے

اس کی چاہت کا تو انداز جدا ہے سب سے

وہ تو خوشبو کی طرح روح میں در آتا ہے

بات کرتا ہے تو الفاظ مہک اٹھتے ہیں

جس طرح شاخِ محبت پہ ثمر آتا ہے

کیا ہوا ہم سے جو دنیا بد گماں ہونے لگی

 کیا ہوا ہم سے جو دنیا بد گماں ہونے لگی

اپنی ہستی اور بھی نزدیکِ جاں ہونے لگی

دھیرے دھیرے سر میں آ کر بھر گیا برسوں کا شور

رفتہ رفتہ آرزوئے دل دھواں ہونے لگی

باغ سے آئے ہو میرا گھر بھی چل کر دیکھ لو

اب بہاروں کے دنوں میں بھی خزاں ہونے لگی

ساغر سرشار کی باتیں کریں

 ساغرِ سرشار کی باتیں کریں

آؤ، چشمِ یار کی باتیں کریں

کیا خبر کب آسماں کر دے جدا

ہو سکے تو پیار کی باتیں کریں

دے اجازت آبلہ پائی اگر

وادیٔ پُر خار کی باتیں کریں

نیاز و ناز کے ساغر کھنک جائیں تو اچھا ہے

 نیاز و ناز کے ساغر کھنک جائیں تو اچھا ہے

تِرے میکش تِرے در پر بھٹک جائیں تو اچھا ہے

شرارے سوزِ پیہم کے بھڑک جائیں تو اچھا ہے

محبت کی حسیں راہیں چمک جائیں تو اچھا ہے

شرابِ شوق کے ساغر چھلک جائیں تو اچھا ہے

فضائیں بادہ خانے کی مہک جائیں تو اچھا ہے

کون سا ہو گا وہ دن یارب کہ بطحا جاؤں گا

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


کون سا ہو گا وہ دن یارب کہ بطحا جاؤں گا

جلوہ زارِ مکہ دیکھوں گا، مدینہ جاؤں گا

خلد نظارہ، جناں بر دوش ہو باب السلام

یا ہو بابِ جبرئیل، آنسو بہاتا جاؤں گا

اپنے در پر یا رسولؐ اللہ بلا لیجئے مجھے

سر کے بل جاؤں گا، باذوقِ تماشا جاؤں گا

نبی کا ذکر ہوا ہے تو پھر نماز پڑھی

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


نبیﷺ کا ذکر ہوا ہے تو پھر نماز پڑھی

پتا چلا کہ خدا ہے تو پھر نماز پڑھی

ہم اس حساب سے بھی مختلف ہیں لوگوں سے

جمالِ یار کُھلا ہے تو پھر نماز پڑھی

وہ سبز لمس مجھے لے گیا ہے مسجد میں

کہ اس کا بوسہ لیا ہے تو پھر نماز پڑھی

ہم چراغوں کو مدینے کی ہوا چاہیے ہے

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


عالمِ حبس ہے، ظلمت میں ضیا چاہیۓ ہے

ہم چراغوں کو مدینے کی ہوا چاہیۓ ہے

سایۂ گنبدِ خضریٰ ہو، دمِ آخر ہو

اس سے بڑھ کر کسی بیمار کو کیا چاہیۓ ہے

پہلے طیبہ کی طرف جاؤں گا پھر کعبہ کو

جانتا ہوں کہ کسے کس کی رضا چاہیۓ ہے

آنے والو یہ تو بتاؤ شہر مدینہ کیسا ہے

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


آنے والو یہ تو بتاؤ شہرِ مدینہ کیسا ہے

سر انؐ کے قدموں میں رکھ کر جھک کر جینا کیسا ہے

گنبدِ خضریٰ کے سائے میں بیٹھ کر تم تو آئے ہو

اس سائے میں رب کے آگے سجدہ کرنا کیسا ہے

دل آنکھیں اور روح تمہاری لگتی ہیں سیراب مجھے

انؐ کے در پہ بیٹھ کے آبِ زمزم پینا کیسا ہے

Sunday 26 December 2021

مجھ سے یزید وقت کی بیعت نہیں ہوئی

 ہاتھوں میں سیم و زر کی حرارت نہیں ہوئی

مجھ سے یزیدِ وقت کی بیعت نہیں ہوئی

اس کا جب انتخاب تھا میرے لیے کفن

مجھ سے بھی پاسدارئ خلعت نہیں ہوئی

سچ بولتے وہ کیسے جنہیں جاں عزیز تھی

یہ تاب، یہ مجال ، یہ جرأت نہیں ہوئی

دیار غم سے ہم باہر نکل کے شعر کہتے ہیں

 دیارِ غم سے ہم باہر نکل کے شعر کہتے ہیں

مسائل ہیں بہت سے ان میں ڈھل کے شعر کہتے ہیں

دہکتے آگ کے شعلوں پہ چل کے شعر کہتے ہیں

ہمیں پہچان لیجے، ہم غزل کے شعر کہتے ہیں

روایت کے پجاری اس لیے ناراض ہیں ہم سے

خطا یہ ہے نئے رستوں پہ چل کے شعر کہتے ہیں

کچھ اس طرح سے عشق کے بیمار ہم ہوئے

 کچھ اس طرح سے عشق کے بیمار ہم ہوئے

خود اپنی جان کے لیے، آزار ہم ہوئے

پہلے تو اس جہان سے اُکتا گیا یہ دل

پھر یوں ہوا کہ خود سے بھی بیزار ہم ہوئے

خوشیوں کے تیر روک رہی ہے غموں کی ڈھال

یوں زندگی سے برسرِ پیکار ہم ہوئے

تھپیڑے لو کے بھی جھونکے لگے صبا کے مجھے

 تھپیڑے لُو کے بھی جھونکے لگے صبا کے مجھے

جو اس نے یاد کیا مدتوں، بھلا کے مجھے

جو اس کے ساتھ نہ گزریں وہ پل سزا ہی تو ہیں

گزارنے ہیں مہ و سال اس سزا کے مجھے

طلب کے واسطے حسنِ طلب بھی ہے درکار

طریقے آئیں گے کب عرض مدعا کے مجھے

یہ گنگ دھرتی کی چپ شکایت جو آسمانوں کا مسئلہ تھا

 یہ گنگ دھرتی کی چپ شکایت جو آسمانوں کا مسئلہ تھا

یہ ایک دو دن کا دکھ نہیں تھا، کئی زمانوں کا مسئلہ تھا

کوئی تو آئے جو ہُوک اٹھائے تو سجدۂ غم کا حق ادا ہو

یہ دشتِ گریہ میں گونجتی بے نوا اذانوں کا مسئلہ تھا

بس اتنا کافی نہ تھا کہ سوکھے ہوئے گلابوں کا بوجھ اٹھاتے

یا دستِ گل سے پھسلتی خوشبو بھی پھولدانوں کا مسئلہ تھا

دیکھیے کس کو راس آتے ہیں

 دیکھیے کس کو راس آتے ہیں

اچھے دن سب کے پاس آتے ہیں

ایک بھی کام کا نہیں ہوتا

فون دن میں پچاس آتے ہیں

کل تو وعدہ بھرے گلاس کا تھا

آج خالی گلاس🍷 آتے ہیں

عجیب رنگ یہ والا حضور دیکھتا ہوں

 عجیب رنگ یہ والا حضور، دیکھتا ہوں

جھلک رہا ہے جو رخ سے غرور، دیکھتا ہوں

دبائے دانت میں انگلی، کھڑا ہوں میں حیراں

سما گیا ہے جو تجھ میں فتور، دیکھتا ہوں

تمام شہر تجھے آنکھ بھر کے دیکھتا ہے

تمام شہر کو میں گھور گھور دیکھتا ہوں

فلک نے بھیجے ہیں کیا جانے کس وسیلے سے

 فلک نے بھیجے ہیں کیا جانے کس وسیلے سے

لہو کے بحر میں بھی کچھ صدف ہیں نیلے سے

ابھی تو قافلۂ بادِ سبز راہ میں ہے

اسی لیے تو ہیں اشجار دشت پیلے سے

جو میرے ساتھ ہے صدیوں سے مثلِ عکسِ بہار

خبر نہیں کہ ہے وہ شخص کس قبیلے سے

کشت ویراں میں نئی خواہشیں بونے کے لیے

 کشتِ وِیراں میں نئی خواہشیں بونے کے لیے

کوئی احساس تو ہو، ہونے نہ ہونے کے لیے

یہ ضروری تو نہیں زخم کوئی تازہ لگے

سو بہانے ہیں کسی بات پہ رونے کے لیے

چند اک اشک تو آنکھوں میں بچائے رکھیں

داغ جو دل میں بچے ہیں انہیں دھونے کے لیے

ان دنوں کوئی بھی راستہ رشتہ یا رابطہ دل کی منزل نہیں

 ان دنوں 

کوئی بھی راستہ

رشتہ یا رابطہ دل کی منزل نہیں

بند کمرے میں 

کالے  اندھیرے کی بڑھتی ہوئی تیز لو 

روشنی کی رسد اور طلب 

روز پوچھے ہے مرے دل کا بیاباں مجھ سے

 روز پوچھے ہے مِرے دل کا بیاباں مجھ سے

جانے کیوں روٹھ گیا جانِ بہاراں مجھ سے

موت اس وقت مسیحا کی طرح لگتی ہے

زندگی ہوتی ہے جب دست و گریباں مجھ سے

مرتے دم بھی نہ ہوئی ہائے میسر خلوت

ملنے آئے ہیں وہ ہمراہ رقیباں مجھ سے

در دولت پہ ان کے حاضری دی

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


المولد النبیﷺ


درِ دولت پہ انؐ کے حاضری دی

یہ ہے لاریب میری خوش نصیبی

مقامِ عزت و تکریم ہے یہ

نہایت واجب التعظیم ہے یہ

یہ ہے سرکاؐر کی جائے ولادت

تجلی گاہِ خورشیدِ رسالتﷺ

میں پیار کا نغمہ ہوں محبت کی غزل ہوں

 میں تاج محل ہوں


میں پیار کا نغمہ ہوں محبت کی غزل ہوں

قائم ہے مِری شان کہ میں تاج محل ہوں


جمنا کے کنارے پہ میں صدیوں سے کھڑا ہوں

میں وقت کی انگلی میں نگینے سا جڑا ہوں

میں چاندنی راتوں میں کِھلا ایک کنول ہوں

قائم ہے مِری شان کہ میں تاج محل ہوں

شجر تو کب کا کٹ کے گر چکا ہے

 شجر تو کب کا کٹ کے گر چکا ہے

پرندہ شاخ سے لپٹا ہوا ہے

سمندر ساحلوں سے پوچھتا ہے

تمہارا شہر کتنا جاگتا ہے

ہوا کے ہاتھ خالی ہو چکے ہیں

یہاں ہر پیڑ ننگا ہو چکا ہے

جب غم دل چھپانا پڑتا ہے

 جب غمِ دل چھپانا پڑتا ہے 

کس قدر مسکرانا پڑتا ہے 

جس کو ہم دیکھنے کو سوتے ہیں 

خواب وہ بھی بھلانا پڑتا ہے 

اب محبت کے واسطے بھی میاں 

پہلے پیسہ کمانا پڑتا پڑتا ہے 

بوجھ اتنا تھا کہ پلکوں سے اٹھایا نہ گیا

 بوجھ اتنا تھا کہ پلکوں سے اٹھایا نہ گیا

فیصلہ ترکِ تعلق کا نبھایا نہ گیا

کیوں ہمیں اشک فشانی کا گِلہ دیتے ہو

ہم سے جو بھول ہوئی اس کو بھلایا نہ گیا

رات بھر لکھا جو اس بزم میں گانے کے لیے

رو برو پا کے تجھے گیت وہ گایا نہ گیا

چلو دنیا سے ملنا چھوڑ دیں گے

 چلو دنیا سے ملنا چھوڑ دیں گے

مگر ہم آئینے سے کیا کہیں گے

چلیں گے روشنی ہو گی جہاں تک

پھر اس کے بعد تجھ سے آ ملیں گے

یہاں کچھ بستیاں تھیں اب سے پہلے

ملا کوئی تو یہ بھی پوچھ لیں گے

مجھے بھی اب تو وہ اپنا دکھائی دینے لگا

 مجھے بھی اب تو وہ اپنا دِکھائی دینے لگا

جو میرے نام کو دل تک رسائی دینے لگا

اگرچہ بھول ہی جانے پہ وہ مُصِر ہے مگر

اسے میں دل سے کہاں اب رہائی دینے لگا

عجیب سحر تھا اس شوخ کی نگاہوں میں

میں اپنے دل کی جسے آشنائی دینے لگا

جاں سے اپنی گزر گیا ہوتا

 جاں سے اپنی گزر گیا ہوتا

تم نہ ملتے تو مر گیا ہوتا

ہوں سلامت تبھی تو یکجا ہوں

ٹوٹتا تو بکھر گیا ہوتا

ناصحوں نے ذرا سا غفلت کی

ورنہ میں بھی سُدھر گیا ہوتا

زندگی کے کئی در ہیں

 اذیت پسند لڑکی


زندگی کے کئی در ہیں

ہر در مجھے تمہاری جانب کھینچتا ہے

ہر گلی، تیری گلی

ہر راستہ، تمہارا راستہ لگنے لگا ہے

تجھ سے بھاگنے کی سعی میں

کیا زمیں کی خاک ہو جائیں گے ہم

 کیا زمیں کی خاک ہو جائیں گے ہم

اور فضا میں راکھ ہو جائیں گے ہم

کٹ رہی ہے جس طرح سے زندگی

دامنِ صد چاک ہو جائیں گے ہم

کیا کفارہ کر سکیں گے ہم ادا

اور گنہ سے پاک ہو جائیں گے ہم

اگر نہ درد سے اس دل کو آشنا کرتے

 اگر نہ درد سے اس دل کو آشنا کرتے

غمِ حیات کا کس طرح تجزیہ کرتے

خدا نخواستہ کشتی جو ڈوبنے لگتی

سوا خدا کے بھلا کیا یہ ناخدا کرتے

عجب نہیں تھا کہ آ جاتا ہوش میں بیمار

قریب آ کے جو دامن سے وہ ہوا کرتے

دل مضطر کو چین آنے سے پہلے

 دلِ مضطر کو چین آنے سے پہلے

بہت تڑپا تمہیں پانے سے پہلے

فقط وصلت کی لذت سے تھا واقف

تِری فُرقت کا غم کھانے سے پہلے

لگاؤ دل بھی تو ہے دھیان لازم

حذر بہتر ہے پچھتانے سے پہلے

جو سچ ہی بیچنا پڑے تو مول بھاؤ کیا کریں

 جو سچ ہی بیچنا پڑے، تو مول بھاؤ کیا کریں

ہیں عکس عکس آئینے تو رکھ رکھاؤ کیا کریں

ہیں شہر بھر میں شادیاں ہر ایک شخص شادماں

کسی کے سامنے ہم اپنے دل کے گھاؤ کیا کریں

یہ کس کے غم کی آنچ سے سلگ رہا ہے آسماں

بجھے گا کس طرح زمیں کا یہ الاؤ، کیا کریں

کلیسا یا حرم میں اور نہ ویرانوں میں ملتا ہے

 کلیسا یا حرم میں، اور نہ ویرانوں میں ملتا ہے

جو سچا آدمی ہے صرف مے خانوں میں ملتا ہے

پرائی آگ🔥 میں جلنا نہیں آساں خِرد مندو

یہ جذبہ تو فقط ہم جیسے دیوانوں میں ملتا ہے

یہ بے ماضی نیا گھر مسئلوں کا ایک جنگل ہے

سکونِ دل تو بس بوسیدہ دالانوں میں ملتا ہے

سانسوں میں تیرے لمس کی سوغات نہ آئی

 سانسوں میں تیرے لمس کی سوغات نہ آئی

ہم جس کے طلبگار تھے وہ رات نہ آئی

دل ترکِ تمنا پہ رضامند نہ ہوتا

اچھا یہ ہوا شامِ ملاقات نہ آئی

کوچے میں تیرے اب بھی وہ درویش پڑا ہے

دروازے سے تیرے جسے خیرات نہ آئی

میری آوارہ مزاجی کو مکمل کر دے

 میری آوارہ مزاجی کو مکمل کر دے

اے خدا! دشتِ تمنا مِرا مقتل کر دے 

ٹُوٹتے بنتے عناصر میں ہو تحریک کمال 

یا مجھے خاک بنا یا مجھے جل تھل کر دے 

نہ سہی لالہ و گل،۔ نالۂ بلبل نہ سہی

مجھ کو گلشن نہیں کرتا ہے تو جنگل کر دے

زیست چھوڑ دی میں نے

 تروینی


اک طرف تھی شاہی تو دوسری طرف تھے تم

میں یتیم شہزادی، تخت چھوڑتی یا تم؟

فیصلہ کٹھن تھا، سو زیست چھوڑ دی میں نے


سدرہ غلام رسول

تجھ کو دیکھا تو یہ لگا ہے مجھے

 تجھ کو دیکھا تو یہ لگا ہے مجھے 

عشق صدیوں سے جانتا ہے مجھے  

آشنا سڑکیں،۔ اجنبی چہرہ

شہر میں اور کیا دکھا ہے مجھے

لوگ قیمت مِری لگاتے ہیں 

کس جگہ تُو نے رکھ دیا ہے مجھے 

تم ازل ہی سے مسافر تھے کہاں پہنچے ہو

 تم ازل ہی سے مسافر تھے کہاں پہنچے ہو؟

اور چلنے سے بھی قاصر تھے، کہاں پہنچے ہو

جلد بازی نے مجھے رہ میں گِرا کر مارا

اور تم مجھ سے بھی آخر تھے، کہاں پہنچے ہو

حکمِ شاہی سے ہے تشویش خلافِ کفار

عادتاً تم بھی تو کافر تھے، کہاں پہنچے ہو

آپ بیتی زمانے کے صحرا میں

 آپ بیتی


زمانے کے صحرا میں 

گَلے سے بچھڑی ہوئی بھیڑ

تنہا پشیماں ہراساں ہراساں

امید و محبت کی اک جوت 

آنکھوں میں اپنی جگائے

آسمان کی پناہ کی حد کوئی نہیں

 پناہ


فضا میں معلق

یہ شاخیں ہیں یا جڑیں ہیں

اس بوڑھے برگد کی

جس پہ زمین تنگ ہو گئی ہے

ہماری طرح

سودا ہے محبت کا تو سر ساتھ میں رکھنا

 سودا ہے محبت کا تو سر ساتھ میں رکھنا

اس دشت میں یہ زادِ سفر ساتھ میں رکھنا

ہونٹوں پہ ہنسی دیدۂ تر ساتھ میں رکھنا

ہر چند کہ مشکل ہے مگر ساتھ میں رکھنا

اے اہلِ ہُنر! اتنا ہنر ساتھ میں رکھنا

دیوار اُٹھاتے ہو تو در ساتھ میں رکھنا

آج کل بے پناہ اداسی ہے

 آج کل بے پناہ اُداسی ہے

سوچتا ہوں یہ کیا اداسی ہے

پہلا درپیش مسئلہ الفت

اور پھر دوسرا اداسی ہے

ایک تصویر میں وہ ہنستی ہے

باقی ہر اک جگہ اداسی ہے

اس طرف بھی نگاہ کرم کیجئے

 اس طرف بھی نگاہِ کرم کیجیۓ

میرے دل کو بھی مثلِ حرم کیجیۓ

جب مُرتب ہو فہرست عشاق کی

نام میرا بھی اس میں رقم کیجیۓ

آپ پہنا کے ہم کو بھی نسبت کا تاج

دو جہاں میں ہمیں محترم کیجیۓ

نعت میں کیسے کہوں مجھ کو سکھا دے یارب

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


نعت میں کیسے کہوں مجھ کو سکھا دے یا رب

جو کہ شایاںﷺ ہوں وہ الفاظ بتا دے یا رب

ایسا ہو شعر کہ جس کا نہ ہو ثانی کوئی

حوضِ کوثر کا جو حقدار بنا دے یا رب

مدحتِ سرورِ کونینﷺ سعادت ہو جائے

مجھ کو حسانؓ کے پہلو میں بٹھا دے یا رب

فخر کون و مکاں شافع عاصیاں

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


فخرِ کون و مکاں، شافعِ عاصیاں

حامئ بے کساں، رہبرِ انس و جاں

تاجدارِ حرم اک نظر اس طرف

ہو زیارت مقامِ شہِ دو جہاںﷺ

رحمتِ دو جہاں آپؐ کی ذات ہے

شفقتِ بے کراں، مونسِ عاجزاں

گل میں خوشبو تری سورج میں اجالا تیرا

عارفانہ کلام حمدیہ کلام


گُل میں خوشبو تِری، سورج میں اجالا تیرا

پائے ہر شے میں تجھے ڈھونڈنے والا تیرا

کس کی تعمیر و ترقی میں تِرا ہات نہیں

لغزشِ پا کا مداوا تو کوئی بات نہیں

روک لے گرتی فصیلوں کو سنبھالا تیرا

بے سفینہ بھی وہ لہروں پہ ٹھہر سکتا ہے

Saturday 25 December 2021

عشق مجازی سے عشق حقیقی تک

 عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک


یہ غرور و تکبر کے میل سے

یہ ہجر و و صال کے کھیل سے

ہم باغی ہوئے اس عشق سے

اس خاکی کے جنون سے

بندہ تو ازل سے فانی ہے

یہ عشق تو لافانی ہے

نالے تو بے اثر ہوئے آہ و بکا کریں

 نالے تو بے اثر ہوئے، آہ و بکا کریں

آ، روشنی کے شہر کا ماتم بپا کریں

گرچہ ہر ایک کو پالا ہے، سب کو پناہ دی

پر اس کی ساکھ و آبرو سب نے تباہ کی

روشن ہو اس کی شام یہ ہر کس کی چاہ تھی

ہر دن تھی چھائی تیرگی یومِ سیاہ کی

دعا کرو مرے لیے دعا کرو

 دعا کرو

مِرے لیے دعا کرو

دعا کرو کہ 

زندگی کی جنگ ہار جاؤں میں

میرے لیے دعا کرو

دعا کرو کہ 

ششدر و حیران ہے جو بھی خریداروں میں ہے

  ششدر و حیران ہے جو بھی خریداروں میں ہے

اک سکوت بے کراں ہر سمت بازاروں میں ہے

نوبتِ قحطِ مسیحائی یہاں تک آ گئی

کچھ دنوں سے آرزوئے مرگ بیماروں میں ہے

وہ بھی کیا دن تھے کہ جب ہر وصف اک اعزاز تھا

آج تو عظمت قباؤں اور دستاروں میں ہے

راتوں کے اندھیروں میں یہ لوگ عجب نکلے

 راتوں کے اندھیروں میں یہ لوگ عجب نکلے

سب نام و نسب والے، بے نام و نسب نکلے

تعمیر پسندی نے کچھ زیست پر اُکسایا

کچھ موت کے ساماں بھی جینے کا سبب نکلے

یہ نور کے سوداگر خود نور سے عاری ہیں

گردُوں پہ مہ و انجم تنویر طلب نکلے

مری زبان کو پاؤں کو بھی شکایت ہے

 مِری زبان کو پاؤں کو بھی شکایت ہے

کہ مجھ سے میری نگاہوں کو بھی شکایت ہے

میں چھوڑ کیوں نہیں دیتا انہیں سدا کے لیے

یہ مجھ سے میرے گناہوں کو بھی شکایت ہے

وبائیں کر رہی ہیں قتلِ عام دنیا میں

کوئی نہ کوئی وباؤں کو بھی شکایت ہے

درد جب آنکھ سے اشکوں کی روانی مانگے

 درد جب آنکھ سے اشکوں کی روانی مانگے

مجھ سے دل ضبط کا اندازِ جوانی مانگے

بات ایک روز نئی چاہیۓ سچ ہو کہ نہ ہو

عالمِ طِفل تو بس کوئی کہانی مانگے

کیا بھلا خاک کرے گا وہ کوئی راہبری

ہر مسافر سے جو منزل کی نشانی مانگے

غلامی و بندگی کا حلقہ ہے

 حلقہ


چھوٹی لڑکی نے ہنستے ہوئے کہا کہ؛ 

کیا ہے اس زرّیں حلقے کا راز؟

اس حلقے کا راز کہ جس نے میری انگشت کو

اس قدر تنگی سے آغوش میں لیا ہوا ہے

اس حلقے کا راز کہ جس کے چہرے میں

اتنی زیادہ تابش و رخشندگی ہے

کر تو رہا ہوں آہ و فغاں اور کیا کروں

 کر تو رہا ہوں آہ و فغاں اور کیا کروں

دکھلاؤں کیسے سوزِ نہاں اور کیا کروں

دیوار و در کے ساتھ ہی یہ عمر کاٹ دی

دیکھا نہ کوئی سنگِ نشاں اور کیا کروں

تا عمر حسنِ ظن کا رہا ہوں شکار میں

چھوڑا نہیں یہ دشتِ گماں، اور کیا کروں

ہر کسی سے تو گزارش نہیں کی جا سکتی

 ہر کسی سے تو گزارش نہیں کی جا سکتی

تیرے بارے میں نمائش نہیں کی جا سکتی

یوں تو اس دل سے گزرتے ہو کئی برسوں سے

کیا کبھی اس میں رہائش نہیں کی جا سکتی

سامنے تُو ہو تو بس دیکھتے رہنا ہے مجھے

ایسے حالات میں جنبش نہیں کی جا سکتی

اس عالم عشق و مستی میں ہم عاشق کیا حیران بنے

 اس عالمِ عشق و مستی میں ہم عاشق کیا حیران بنے

کبھی میر بنے کبھی درد بنے کبھی غالب کا دیوان بنے

کوئی جان نہ لے کوئی پوچھ نہ لے ان زخموں کو ان باتوں کو

تجھے دیکھ لیا،۔ دل شاد کیا،۔ قربان گئے،۔ انجان بنے

کچھ باتیں گئے زمانوں کی کچھ راتیں سوچنے والوں کی

یہ باتیں راتیں ساتھی ہوں، پھر کون سا دکھ ارمان بنے