Wednesday, 29 December 2021

گلوں کا رنگ تپش خوشبوئیں سمندر کھینچ

 گلوں کا رنگ، تپش، خوشبوئیں، سمندر کھینچ

کچھ اس طرح سے مِری آرزو کا پیکر کھینچ

نکل ہی جائے نہ دَم اپنا آہِ سوزاں سے

زباں پہ لفظ تو رکھ اس طرح نہ تیور کھینچ

اٹک رہا ہے مِرا دَم نکل نہ پائے گا

ستم شعار جگر سے مِرے یہ خنجر کھینچ

محاذِ جنگ پہ تیری شکستِ آخر ہے

حصار کر لے خود اپنا تمام لشکر کھینچ

کئی ستارے کھنچے آئیں گے سلامی کو

تو اس جگہ سے ذرا ہٹ کے اپنا محور کھینچ

تجھے تو کھینچ نہ پائی حیات کی فرحت

جو تجھ سے ہو سکے یہ زندگی کا پتھر کھینچ


فرحت رضوی

No comments:

Post a Comment