خواہشِ وصل میں، قطرے سے گُہر ہونے تک
اشک پلکوں پہ سجائے ہیں، اثر ہونے تک
خاک جیتے ہیں محبت میں تمہاری آخر
جان سے جاتے رہے، جان جگر ہونے تک
لوگ حیراں ہیں مِرے ضبط طلب پر جاناں
"آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک"
ہم نے کیا کیا نہ کیا عرضِ وفا کی خاطر
پھر بھی اک عمر لگی ان کو خبر ہونے تک
کیا یہی ہو گی مِرے وصل کی روداد سعید؟
بے خبر تکتے رہے، ان کو سحر ہونے تک
طارق سعید
No comments:
Post a Comment