دسمبر کی آخری نظم
جب دسمبر کی ہاری ہوئی
آخری شام کی
زرد ٹھٹھری ہوئی سسکیاں
رات کی بے کراں منجمد گود میں
چُھپ کے سو جائیں گی
نیلگُوں آسماں سے
نئی خواہشوں کے صحیفے لئے
جنوری کی سحر
مُسکراتی ہوئی آئے گی
اور ماضی کی دیمک زدہ لاش پر
برف جم جائے گی
سوچتا ہوں کبھی زندگی
سالہا سال کی
گردشوں کا صِلہ پائے گی
نصیر احمد ناصر
No comments:
Post a Comment