Sunday 31 March 2013

مرے قریب ہی گو زرد شال رکھی ہے

مرے قریب ہی گو زرد شال رکھی ہے
بدن پہ میں نے مگر برف ڈال رکھی ہے
سنائی دی وہی آواز سبز پتّوں سے
کسی کی یاد ہوا نے سنبھال رکھی ہے
بھٹک بھٹک گئی سسّی تھلوں کے ٹیلے پر
یہ گوٹھ پیار کی گو دیکھ بھال رکھی ہے

بہت آسان تھا اس کی محبت کو دعا کرنا

بہت آسان تھا اس کی محبت کو دعا کرنا
بہت مشکل ہے بندے کو مگر اپنا خدا کرنا
کہاں تک کھینچنا دیوار پر سادہ لکیروں کو
تمہاری یاد میں کب تک انھیں بیٹھے گنا کرنا
نجانے کس لئے سیکھا طریقہ یہ ہواؤں نے
مرے کمرے میں سنّاٹے زبردستی بھرا کرنا

سب اختیار اس کا ہے کم اختیار میں

سب اختیار اس کا ہے، کم اختیار میں
شاید اسی لئے ہوئی، بے اعتبار میں
پھرتی ہے مرے گھر میں اماوس کی سرد رات
دالان میں کھڑی ہوں بہت بے قرار میں
تھل سے کسی کا اونٹ سلامت گزر گیا
راہِ وفا میں رہ گئی مثلِ غبار میں

اس نے نرم کلیوں کو روند روند پاؤں سے

اس نے نرم کلیوں کو روند روند پاؤں سے
تازگی بہاروں کی چھین لی اداؤں سے
بھیج اپنے لہجے کی نرم گرم کچھ تپش
برف کب پگھلتی ہے، چاند کی شعاعوں سے
پاؤں میں خیالوں کے، راستے بچھائے ہیں
آج ہی چرانے ہیں، پھول اس کے گاؤں سے

رتجگے کرتی ہوئی پاگل ہوا کچھ ٹھہر جا

رتجگے کرتی ہوئی پاگل ہوا کچھ ٹھہر جا
میں جلا لوں پیار کی مشعل ہوا کچھ ٹھہر جا
دستکوں کو ہاتھ تک جانے کا موقعہ دے ذرا
چلمنوں میں جھانکتی بیکل ہوا کچھ ٹھہر جا
آرزو کے کچھ ستارے اور ٹانکوں گی ابھی
میرا چھوٹا پڑ گیا آنچل ہوا کچھ ٹھہر جا

خوبصورت جنتوں میں سانپ چھوڑے رات بھر

خوبصورت جنتوں میں سانپ چھوڑے رات بھر
مسکراتی ساعتوں کے لیکھ پھوڑے رات بھر
شمع کی لو ہے کہ ہے یہ آتشِ ہجراں کی آنچ
ہم پگھلتے جا رہے ہیں تھوڑے تھوڑے رات بھر
میں نے دل کی ریت پر اشکوں سے لکھی یہ غزل
اور دریاؤں کے رخ پلکوں سے موڑے رات بھر

ابر بھی جھیل پر برستا ہے

ابر بھی جھیل پر برستا ہے
کھیت اک بوند کو ترستا ہے
درد سہہ کر بھی ملتی ہے تسکین
وہ شکنجہ کچھ ایسے کستا ہے
اس کی مرضی پہ ہے عروج و زوال
بخت ساز آسماں پہ بستا ہے

جسے ڈبو کے گیا تھا حباب پانی میں

جسے ڈبو کے گیا تھا حباب پانی میں
لہر وہ کھاتی رہی پیچ و تاب پانی میں
کبھی تو تارِ رگِ جاں بھی چھیڑ کر دیکھو
بجانے جاتے ہو اکثر رباب پانی میں
تری نگاہ بہت ہے مرے لئے ساقی
نہ گھول مجھ کو بنا کر شراب پانی میں

منزل کو رہگزر میں کبھی رکھ دیا کرو

منزل کو رہگزر میں کبھی رکھ دیا کرو
اپنی طلب سفر میں کبھی رکھ دیا کرو
جن پر وصالِ یار کا طاری رہے نشہ
وہ حوصلے نہ ڈر میں کبھی رکھ دیا کرو
تاروں بھرے فلک سی، اڑانیں گری ہوئی
بے جاں شکستہ پر میں کبھی رکھ دیا کرو

زلف کو صندلی جھونکا جو کبھی کھولے گا

زلف کو صندلی جھونکا جو کبھی کھولے گا
جسم ٹوٹے ہوئے پتے کی طرح ڈولے گا
بادشاہوں کی طرح دل پہ حکومت کر کے
وہ مجھے تاش کے پتوں کی طرح رولے گا
جنبش لب سے بھی ہوتا ہے عیاں سب مطلب
وہ مری بات ترازو میں مگر تولے گا

زخم یادوں کے نہیں مٹتے ہیں آسانی سے

زخم یادوں کے نہیں مٹتے ہیں آسانی سے
داغ دھلتے ہیں کہاں بہتے ہوئے پانی سے
دیکھتی جاتی ہوں میلے کا تماشا چپ چاپ
کیا پتہ بول پڑے آنکھ ہی ویرانی سے
روشنی کا یہ خزانہ مری آنکھیں ہی نہ ہوں
شمع تو میں نے بجھا دی ہے پریشانی سے

مرجھائے ہوئے جسم سجا کیوں نہیں دیتے

مرجھائے ہوئے جسم سجا کیوں نہیں دیتے
سورج سے بچانے کی ردا کیوں نہیں دیتے
کَن اکھیوں سے دیکھو گے فضاؤں میں کہاں تک
تم سوکھی زمینوں کو دعا کیوں نہیں دیتے
کٹیا میں پلٹ آئے گی سنیاس اٹھائے
تم اپنی پجارن کو پتا کیوں نہیں دیتے

ہوا کے شور کو رکھنا اسیر جنگل میں

ہوا کے شور کو رکھنا اسیر جنگل میں
میں سن رہی ہوں قلم کی صریر جنگل میں
ہتھیلیوں پہ ہوا سنسناتی پھرتی ہے
میں اسکی چاہ کی ڈھونڈوں لکیر جنگل میں
خیال رکھنا ہے پیڑوں کا خشک سالی میں
نکالنی ہے مجھے جوئے شیر جنگل میں

خوشیوں پہ وبالوں کا گماں ہونے لگا ہے

خوشیوں پہ وبالوں کا گماں ہونے لگا ہے
جاں سوز خیالوں کا گماں ہونے لگا ہے
ڈرتی ہوں کہ آنسو نہ جوابوں میں امڈ آئیں
آنکھوں میں سوالوں کا گماں ہونے لگا ہے
ان اونچی اڑانوں سے معلّق ہوں فضا میں
پھر مجھ کو زوالوں کا گماں ہونے لگا ہے

ہر قدم گریزاں تھا ہر نظر میں وحشت تھی

ہر قدم گریزاں تھا، ہر نظر میں وحشت تھی
مصلحت پرستوں کی رہبری قیامت تھی
منزل تمنّا تک کون ساتھ دیتا ہے
گردِ سعئ لاحاصل ہر سفر کی قسمت تھی
آپ ہی بگڑتا تھا، آپ من بھی جاتا ہے
اس گریز پہلو کی یہ عجیب عادت تھی

بڑھتی ہیں دل کی الجھنیں راحت کے ساتھ ساتھ

بڑھتی ہیں دل کی الجھنیں راحت کے ساتھ ساتھ
تنہائیاں بھی ملتی ہیں شہرت کی ساتھ ساتھ
سمجھو ناں کار عشق کو جز وقتی مشغلہ
ممکن نہیں کچھ اور محبت کے ساتھ ساتھ
ہر لمحہ اپنے آپ میں ہے ایک زندگی
کٹتا ہے کب سفر ہی مسافت کے ساتھ ساتھ

جو رستہ بھی دل نے چنا ہے

جو رَستہ بھی دل نے چُنا ہے
تیرے غم کی سمت کھلا ہے
پانی پر جو حرف لِکھا تھا
دیکھو کیسے ٹھہر گیا ہے
ڈھلتی شام کے سائے سائے
تُو ہے تیرا غم ہے کیا ہے

شکستہ لاکھ ہو نیا کسی کی

شِکستہ لاکھ ہو نیّا کسی کی
نہیں سُنتا مگر دَریا کسی کی
ضروری کیوں ہے زخمِ بے وفائی
گزرتی کیوں نہیں تَنہا کسی کی
کسی کہ ساتھ سایہ تک نہیں ہے
کسی کے ساتھ ہے دُنیا کسی کی

اوجھل سہی نگاہ سے ڈوبا نہیں ہوں میں

اوجھل سہی نِگاہ سے ڈوبا نہیں ہوں میں
اے رات ہوشیار کہ ہارا نہیں ہوں میں
دَرپیش صبح و شام یہی کَشمکش ہے اب
اس کا بَنوں میں کیسے کہ اپنا نہیں ہوں میں
مجھ کو فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں، مگر
جِتنا بُرا سمجھتے ہو، اُتنا نہیں ہوں میں

بستیوں میں اک صدائے بے صدا رہ جائے گی

بستیوں میں اِک صدائے بے صدا رہ جائے گی
بام و دَر پہ نقش تحریرِ ہوا رہ جائے گی
آنسوؤں کا رِزق ہوں گی بے نتیجہ چاہتیں
خشک ہونٹوں پر لرزتی اِک دعا رہ جائے گی
رو برو منظر نہ ہوں تو آئینے کس کام کے
ہم نہیں ہوں گے تو دنیا گردِ پا رہ جائے گی

توفیق بنا دل میں ٹھکانہ نہیں ملتا

توفیق بِنا دل میں ٹھکانہ نہیں مِلتا
نقشے کی مدد سے یہ خزانہ نہیں مِلتا
پلکوں پہ سُلگتی ہوئی نیندوں کا دھواں ہے
آنکھوں میں کوئی خواب سہانا نہیں مِلتا
مِلتی ہی نہیں اُس کو ملاقات کی راہیں
اور مجھ کو نہ مِلنے کا بہانہ نہیں مِلتا

کوئی بھی آدمی پورا نہیں ہے

کوئی بھی آدمی پورا نہیں ہے
کہیں آنکھیں، کہیں چہرہ نہیں ہے
یہاں سے کیوں کوئی بیگانہ گزرے
یہ میرے خواب ہیں رستہ نہیں ہے
جہاں پر تھے تِری پلکوں کے سائے
وہاں اب کوئی بھی سایہ نہیں ہے

ایک صدمہ سا ہوا اشک جو اس بار گرے

ایک صدمہ سا ہوا اشک جو اس بار گرے
گھر کے آنسو تھے مگر بر سرِ بازار گرے
ہم ہی آنہوں سے نہیں ہار کے ناچار گرے
آندھیاں جب بھی چلی ہیں کئی اشجار گرے
پھر وہی خواب، وہی طوفاں وہی دو آوازیں
جیسے در پہلے گرے بعد میں دیوار گرے

Saturday 30 March 2013

محبت کی گواہی اپنے ہونے کی خبر لے جا

محبت کی گواہی، اپنے ہونے کی خبر لے جا
جِدھر وہ شخص رہتا ہے مُجھے اے دل اُدھر لے جا
تبسم سے حقیقی خال و خد ظاہر نہیں ہوتے 
تعارف پھول کا درپیش ہے تو چشمِ تر لے جا
اندھیرے میں گیا وہ روشنی میں لوٹ آئے گا
دِیا جو دل میں جلتا ہے اسی کو بام پر لے جا

بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا

بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا
وہ شخص جس کا مجھے نام بھی نہیں آتا
اسی کی شکل مجھے چاند میں نظر آئے
وہ ماہ رُخ جو لبِ بام بھی نہیں آتا
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

گلیوں کی اداسی پوچھتی ہے گھر کا سناٹا کہتا ہے

گلیوں کی اداسی پوچھتی ہے، گھر کا سناٹا کہتا ہے
اِس شہر کا ہر رہنے والا کیوں دوسرے شہر میں رہتا ہے
اِک خواب نما بیداری میں جاتے ہوئے اس کو دیکھا تھا
اِحساس کی لہروں میں اب تک حیرت کا سفینہ بہتا ہے
پھر جسم کے منظرنامے میں سوئے ہوئے رنگ نہ جاگ اٹھیں
اِس خوف سے وہ پوشاک نہیں، بس خواب بدلتا رہتا ہے

نظر نظر میں ادائے جمال رکھتے تھے

نظر نظر میں ادائے جمال رکھتے تھے 
ہم ایک شخص کا کتنا خیال رکھتے تھے
جبیں پہ آنے نہ دیتے تھے اِک شِکن بھی کبھی 
اگرچہ دل میں ہزاروں ملال رکھتے تھے
خوشی اسی کی ہمیشہ نظر میں رہتی تھی
اور اپنی قُوتِ غم بھی بحال رکھتے تھے 

یوں تو صدائے زخم بہت دور تک گئی

یوں تو صدائے زخم بہت دُور تک گئی
اِک چارہ گر کے شہر میں جا کر بھٹک گئی
خوشبو گرفتِ عکس میں لایا اور اس کے بعد
میں دیکھتا رہا تِری تصویر تھک گئی
گل کو برہنہ دیکھ کر جھونکا نسِیم کا
جگنو بجھا رہا تھا کہ تِتلی چمک گئی

ملتے ہی خود کو آپ سے وابستہ کہہ دیا

ملتے ہی خود کو آپ سے وابستہ کہہ دیا
محسوس جو کیا وہی برجستہ کہہ دیا
میں چپ ہوا تو زخم مِرے بولنے لگے
سب کچھ زبانِ حال سے لب بستہ کہہ دیا
خورشیدِ صبحِ نو کو شکایت ہے دوستو
کیوں شب سے ہم نے صبح کو پیوستہ کہہ دیا

ضبط کرتے رہیں حال دل مضطر نہ کہیں

ضبط کرتے رہیں حالِ دلِ مضطر نہ کہیں
یہ بھی ہے پاسِ وفا، تجھ کو ستمگر نہ کہیں
ہم جو کہتے ہیں نشے میں، ہمیں کہہ لینے دو
عین ممکن ہے کہ پھر ہوش میں آ کر نہ کہیں
بات اتنی ہے کہ ہم اذنِ تکلم چاہیں
آپ کے حلقہ نشیں بات بڑھا کر نہ کہیں

کرتے ہو گلی کوچوں کو تاریک بھی خود ہی

کرتے ہو گلی کوچوں کو تارِیک بھی خود ہی
پھر روشنی کی بانٹتے ہو بِھیک بھی خود ہی
رسی جو نہیں کھنچتا ظالم کی کسی طور
آ جاتی ہے پھر سوچ میں تشکِیک بھی خود ہی
بِن بات جو وہ خود ہی بگڑ بیٹھا ہے ہم سے
اک روز وہ ہو جائے گا پھر ٹِھیک بھی خود ہی

اک بار ہی جی بھر کے سزا کیوں نہیں دیتے

اک بار ہی جی بھر کے سزا کیوں نہیں دیتے
گر حرفِ غلط ہوں تو مٹا کیوں نہیں دیتے
ایسے ہی اگر مونس و غم خوار ہو میرے
یارو مجھے مرنے کی دعا کیوں نہیں دیتے
اب شدتِ غم سے مِرا دم گھٹنے لگا ہے
تم ریشمی زلفوں کی ہوا کیوں نہیں دیتے

تم اک ایسے شخص کو پہچانتے ہو یا نہیں

تم اک ایسے شخص کو پہچانتے ہو یا نہیں
جس کا چہرہ بولتا ہے اور لب گویا نہیں
صبح کو چہرے پہ تھے دو زخم آنکھوں کی جگہ
رات کچھ رونے کی خواہش تھی مگر رویا نہیں
پھیلتا جاتا ہےخود رو سبزہ غم چار سُو
کھیت وہ کاٹوں گا جو میں نے کبھی بویا نہیں

آنکھ برسی ہے ترے نام پہ ساون کی طرح

آنکھ برسی ہے تِرے نام پہ ساون کی طرح
جسم سلگا ہے تِری یاد میں ایندھن کی طرح
لوریاں دی ہیں کسی قُرب کی خواہش نے مجھے
کچھ جوانی کے بھی دن گزرے ہیں بچپن کی طرح
اس بلندی سے مجھے تُو نے نوازا کیوں تھا
گِر کے میں ٹوٹ گیا کانچ کے برتن کی طرح

سر حیات اک الزام دھر گئے ہم بھی

سرِ حیات اِک الزام دھر گئے ہم بھی
کلام بھی نہ جِیا اور مر گئے ہم بھی
یہ عہد ایک مسیحا نفَس میں زندہ تھا
رہا نہ وہ بھی سلامت، بکھر گئے ہم بھی
چمک اُٹھا تھا وہ چہرہ، دھڑک اُٹھا تھا یہ دل
نہ اُس نے راستہ بدلا، نہ گھر گئے ہم بھی

Friday 29 March 2013

اِک اجاڑ بستی کا اِک اداس جادہ تھا

اِک اجاڑ بستی کا اِک اداس جادہ تھا
اور بادیہ پیما ایک مستِ بادہ تھا
حسنِ کم نگاہی پر عمر بھر نہ کھل پایا
دل کی بند مٹھی میں ایک حرفِ سادہ تھا
عمر بھر کے غم لے کے چشمِ نم اُمڈ آئے
وجہِ گرم بازاری اک غلام زادہ تھا

لب خاموش سے اظہار تمنا چاہیں

لبِ خاموش سے اظہارِ تمنا چاہیں
بات کرنے کو بھی تصویر کا لہجہ چاہیں
تو چلے ساتھ تو آہٹ بھی نہ آئے اپنی
درمیاں ہم بھی نہ ہوں یوں تجھے تنہا چاہیں
ظاہری آنکھ سے کیا دیکھ سکے گا کوئی
اپنے باطن پہ بھی ہم فاش نہ ہونا چاہیں

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی

بات کرنی مجھے مشکِل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تِری محفِل کبھی ایسی تو نہ تھی
لے گیا چھین کے کون آج تِرا صبر و قرار
بے قراری تجھے اے دِل کبھی ایسی تو نہ تھی
اس کی آنکھوں نے خدا جانے کِیا کیا جادو
کہ طبیعت مری مائِل کبھی ایسی تو نہ تھی

شہر بے مہر سے پیمان وفا کیا باندھیں

شہرِ بے مہر سے پیمانِ وفا کیا باندھیں
خاک اُڑتی ہے گلِ تَر کی ہوا کیا باندھیں
جانتے ہیں سفرِ شوق کی حد کیا ہو گی
زور باندھیں بھی تو ہم آبلہ پا کیا باندھیں
کوئی بولے گا تو آواز سُنائی دے گی
ہُو کا عالم ہو تو مضمونِ صدا کیا باندھیں

اختلاف اس سے اگر ہے تو اسی بات پہ ہے

اختلاف اس سے اگر ہے تو اسی بات پہ ہے
زور سب اس کا فقط اپنے مفادات پہ ہے
اپنے آیندہ تعلق کا تو اب دار و مدار
تیری اور میری ہم آہنگئ جذبات پہ ہے
دل کو سمجھایا کئی بار کہ باز آ جائے
پھر بھی کمبخت کو اصرار ملاقات پہ ہے

یہ نہیں کہ سارے جہان میں مجھے ہمسفر ہی نہیں ملا

یہ نہیں کہ سارے جہان میں مجھے ہمسفر ہی نہیں مِلا
سبھی اعتبار کے ساتھ تھے، کوئی معتبر ہی نہیں مِلا
مِری نبض چُھو کے تو دیکھتا کہ شکستہ دل کی صدا ہے کیا
مِرا لا علاج مَرض نہ تھا، کوئی چارہ گر ہی نہیں مِلا
کبھی شہر چھان لئے گئے، کہیں خیمے تان لئے گئے
جسے دیکھتا تھا میں خواب میں، مجھے وہ نگر ہی نہیں مِلا

ہم مر گئے کہ پیاس میں پانی نہیں ملا

ہم مر گئے کہ پیاس میں پانی نہیں مِلا
ہم کو ثبوتِ تشنہ دہانی نہیں ملا
اوجھل ہوئے وہ شہر تو پھر مِل نہیں سکے
جیسے ہمارا عہدِ جوانی نہیں ملا
اتنے بڑے جہاں میں کمی تو نہ تھی کوئی
جاناں تو سینکڑوں تھے، وہ جانی نہیں ملا

وہ زود رنج منانے بھی تو نہیں دیتا

وہ زُود رنج منانے بھی تو نہیں دیتا
جو دل پہ گزری، بتانے بھی تو نہیں دیتا
گو اُس نے خار بچھائے نہیں ہیں رَستے میں
مگر، وہ اُن کو ہٹانے بھی تو نہیں دیتا
یہ زخم اُس نے لگائے نہیں مگر سوچو
وہ ان کے داغ مٹانے بھی تو نہیں دیتا

زندگی کے ساز کا ٹوٹا ہوا ہر تار ہے

زندگی کے ساز کا ٹوٹا ہوا ہر تار ہے
کوئی نغمہ اس میں اُبھرے، سوچنا بیکار ہے
مصلحت کی کوئی بھی زنجیر پیروں میں نہیں
ایسا کیوں لگتا ہے جیسے دل پسِ دِیوار ہے
جب حکومت کہہ رہی ہے امن ہے چاروں طرف
خُون میں ڈُوبا ہوا کیوں آج کا اخبار ہے

آنکھوں سے پرے نیند کی رفتار میں رہنا

آنکھوں سے پرے نِیند کی رفتار میں رہنا
ہر پل کسی نا دِید کے دِیدار میں رہنا
کھو جانا اسے دیکھ کے عُریاں کے سفر میں
چھوتے ہی اسے حجلۂ اسرار میں رہنا
اِک خوابِ درِیدہ کو رگِ حرف سے سِینا
پِھر لے کے اسے کوچہ و بازار میں رہنا

شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے

شوق برہنہ پا چلتا تھا، اور رستے پتھریلے تھے
گِھستے گِھستے گِھس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے
خارِ چمن تھے شبنم شبنم پھول بھی سارے گیلے تھے
شاخ سے ٹوٹ کے گرنے والے پتے پھر بھی پِیلے تھے
سرد ہواؤں سے تو تھے ساحل کی ریت کے یارانے
لُو کے تھپیڑے سہنے والے صحراؤں کے ٹیلے تھے

آخر وہ میرے قد کی بھی حد سے گزر گیا

آخر وہ میرے قد کی بھی حد سے گزر گیا
کل شام میں تو اپنے ہی سائے سے ڈر گیا
مٹھی میں بند کیا ہوا بچوں کے کھیل میں
جگنو کے ساتھ اُس کا اجالا بھی مر گیا
کچھ ہی برس کے بعد تو اُس سے ملا تھا میں
دیکھا جو میرا عکس تو آئینہ ڈر گیا

سرخی بدن میں رنگ وفا کی تھی کچھ دنوں

سرخی بدن میں رنگِ وفا کی تھی کچھ دنوں
تاثیر یہ بھی اس کی دُعا کی تھی کچھ دنوں
ڈھونڈے سے اسکے نقش الجھتے تھے اور بھی
حالت تمام کرب و بلا کی تھی کچھ دنوں
کاغذ پہ تھا لکھا ہوا ہر حرف، لب کُشا
تحریر، جسم، صوت و ادا کی تھی کچھ دنوں

دل نے چاہا تھا کہ ہو آبلہ پائی رخصت

دل نے چاہا تھا کہ ہو آبلہ پائی رخصت
زندگی دے کے ہوئی شعلہ فشانی رخصت
تم نے جب شمع بجھائی تو سمجھ میں آیا
ایک موہوم سا رشتہ تھا سو وہ بھی رخصت
میں اداسی سر بازار بھی لاؤں ایسے
جیسے پانی کی تمنا میں ہو کشتی رخصت

کہانیاں بھی گئیں قصہ خوانیاں بھی گئیں

کہانیاں بھی گئیں قصہ خوانیاں بھی گئیں
وفا کے باب کی سب بے زبانیاں بھی گئیں
ہوا چلی تو ہرے پتے سوکھ کر ٹوٹے
وہ صبح آئی تو حیراں نمائیاں بھی گئیں
وہ میرا چہرہ مجھے آئینے میں اپنا لگے
اسی طلب میں بدن کی نشانیاں بھی گئیں

ہونٹوں کے ماہتاب ہیں آنکھوں کے بام ہیں

ہونٹوں کے ماہتاب ہیں، آنکھوں کے بام ہیں 
سَر پھوڑنے کو ایک نہیں سو مقام ہیں 
تم سے تو ایک دل کی کلی بھی نہ کِھل سکی 
یہ بھی بلا کشانِ محبت کے کام ہیں 
دل سے گزر خدا کے لیے اور ہوشیار 
اِس سرزمیں کے لوگ بہت بدکلام ہیں 

ہر طرف انبساط ہے اے دل

ہر طرف اِنبساط ہے اے دل
اور ترے گھر میں رات ہے اے دل
عِشق ان ظالموں کی دنیا میں
کِتنی مظلُوم ذات ہے اے دل
میری حالت کا پوچھنا ہی کیا
سب ترا التفات ہے اے دل

چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ

چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ 
ہم اُن کے پاس جاتے ہیں مگر آہِستہ آہستہ 
ابھی تاروں سے کھیلو، چاند کی کرنوں سے اٹھلاؤ 
ملے گی اُس کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ 
دریچوں کو تو دیکھو چِلمنوں کے راز کو سمجھو 
اُٹھیں گے پردہ ہائے بام و در آہستہ آہستہ 

ڈھلے گی رات آئے گی سحر آہستہ آہستہ

ڈھلے گی رات آئے گی سحر آہستہ آہستہ
پِیو ان انکھڑیوں کے نام پر آہستہ آہستہ
دِکھا دینا اُسے زخمِ جگر آہستہ آہستہ
سمجھ کر، سوچ کر، پہچان کر آہستہ آہستہ
اُٹھا دینا حجابِ رسمیاتِ درمیاں لیکن
خطاب آہستہ آہستہ نظر آہستہ آہستہ

جو دن گزر گئے ہیں ترے التفات میں

جو دن گزر گئے ہیں ترے اِلتفات میں
میں ان کو جوڑ لوں کہ گھٹا دوں حیات میں
کچھ میں ہی جانتا ہوں جو مجھ پر گزر گئی
دنیا تو لطف لے گی مرے واقعات میں
میرا تو جرم تذکرۂ عام ہے مگر
کچھ دھجیاں ہیں میری زلیخا کے ہاتھ میں

جب ہوا شب کو بدلتی ہوئی پہلو آئی

جب ہوا شب کو بدلتی ہوئی پہلو آئی
مدتوں اپنے بدن سے تیری خوشبو آئی
میرے مکتوب کی تقدیر کہ اشکوں سے دُھلا
میرِی آواز کی قسمت کہ تجھے چھو آئی
اپنے سینے پہ لیے پھرتی ہیں ہر شخص کا بوجھ
اب تو ان راہگزاروں میں میری خو آئی

غزلیں نہیں لکھتے ہیں قصیدہ نہیں کہتے

غزلیں نہیں لکھتے ہیں قصیدہ نہیں کہتے
لوگوں کو شکایت ہے وہ کیا کیا نہیں کہتے 
اور اپنا یہی جرم کہ باوصفِ روایت 
ہم ناصحِ مشفق کو فرشتہ نہیں کہتے
اجسام کی تطہیر و تقدس ہے نظر میں 
ارواح کے حالات پہ نوحہ نہیں کہتے

بزم میں باعث تاخیر ہوا کرتے تھے

بزم میں باعثِ تاخیر ہُوا کرتے تھے
ہم کبھی تیرے عِناں گِیر ہُوا کرتے تھے
ہائے اب بُھول گیا رنگِ حِنا بھی تیرا
خط کبھی خُون سے تحریر ہُوا کرتے تھے
کوئی تو بھید ہے اِس طَور کی خاموشی میں
ورنہ ہم حاصلِ تقریر ہُوا کرتے تھے

گریہ تو اکثر رہا، پیہم رہا

گریہ تو اکثر رہا، پیہم رہا 
پھر بھی دل کے بوجھ سے کچھ کم رہا 
قمقمے جلتے رہے، بُجھتے رہے 
رات بھر سینے میں اک عالم رہا 
اُس وفا دشمن سے چُھٹ جانے کے بعد 
خود کو پا لینے کا کِتنا غم رہا 

غم دوراں نے بھی سیکھے غم جاناں کے چلن

غمِ دوراں نے بھی سیکھے غمِ جاناں کے چلن
وہی سوچی ہوئی چالیں وہی بے ساختہ پن
وہی اقرار میں انکار کے لاکھوں پہلو
وہی ہونٹوں پہ تبسم وہی ابرو پہ شکن
کس کو دیکھا ہے کہ پندارِ نظر کے باوصف
ایک لمحے کے لئے رک گئی دل کی دھڑکن

آندھی چلی تو نقش کف پا نہیں ملا

آندھی چلی تو نقشِ کفِ پا نہیں ملا
دل جس سے مل گیا تھا دوبارہ نہیں ملا
ہم انجمن میں سب کی طرف دیکھتے رہے
اپنی طرح سے کوئی اکیلا نہیں ملا
آواز کو تو کون سمجھتا کہ دور دور
خاموشیوں کا درد شناسا نہیں ملا

کسی اور غم میں اتنی خلش نہاں نہیں ہے

کسی اور غم میں اتنی خلش نہاں نہیں ہے
غمِ دل مرے رفیقو! غمِ رائیگاں نہیں ہے
کوئی ہم نفس نہیں ہے کوئی ہم زباں نہیں ہے
فقط ایک دل تھا اب تک سو مہرباں نہیں ہے
مری روح کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھو
مرا مجلسی تبسم مرا ترجماں نہیں ہے

کتنے جاں سوز مراحل سے گزر کر ہم نے

کتنے جاں سوز مراحل سے گزر کر ہم نے 
اس قدر سلسلۂ سود و زیاں دیکھے ہیں 
رات کٹتے ہی بکھرتے ہوئے تاروں کے کفن 
جھُومتی صبح کے آنچل میں نہاں دیکھے ہیں 
جاگتے ساز، دمکتے ہوئے نغموں کے قریب
چوٹ کھائی ہوئی قسمت کے سماں دیکھے ہیں 

کوئی رفیق بہم ہی نہ ہو تو کیا کیجے

کوئی رفیق بہم ہی نہ ہو تو کیا کیجے
کبھی کبھی تِرا غم ہی نہ ہو تو کیا کیجے
ہماری راہ جدا ہے کہ ایسی راہوں پر
رواجِ نقشِ قدم ہی نہ ہو تو کیا کیجے
ہمیں بھی بادہ گساری سے عار تھی لیکن
شراب ظرف سے کم ہی نہ ہو تو کیا کیجے

بجھ گئی شمع حرم باب کلیسا نہ کھلا

بُجھ گئی شمعِ حَرم، بابِ کلیسا نہ کُھلا 
کُھل گئے زخم کے لب تیرا دریچہ نہ کُھلا 
درِ توبہ سے بگوُلوں کی طرح گُزرے لوگ 
اُبر کی طرح اُمڈ آئے جو مَے خانہ کُھلا 
شہر در شہر پھری میرے گُناہوں کی بیاض 
بعض نظروں پہ مِرا سوزِ حکِیمانہ کُھلا 

سینے میں خزاں آنکھوں میں برسات رہی ہے

سینے میں خزاں، آنکھوں میں برسات رہی ہے
اس عشق میں ہر فصل کی سوغات رہی ہے
کس طرح خود اپنے کو یقیں آئے کہ اُس سے
ہم خاک نشینوں کی ملاقات رہی ہے
صُوفی کا خدا اور تھا، شاعر کا خدا اور
تم ساتھ رہے ہو تو کرامات رہی ہے

ایسا تو نہیں کہ ان سے ملاقات نہیں ہوئی

ایسا تو نہیں کہ ان سے ملاقات نہیں ہوئی 
جو بات میرے دل میں تھی وہ بات نہیں ہوئی
بہتر یہ ہے کہ وہ تنِ شاداب ادھر نہ آئے 
برسوں سے میرے شہر میں برسات نہیں ہوئی
پیشِ ہوس تھا خوانِ دو عالم سجا ہوا
اس رزق پر مگر گزر اوقات نہیں ہوئی

خوشبو کی طرح ساتھ لگا لے گئی ہم کو

خوشبو کی طرح ساتھ لگا لے گئی ہم کو
کوچے سے ترے بادِ صبا لے گئی ہم کو
پتھر تھے کہ گوہر تھے، اب اس بات کا کیا ذکر
اک موج بہرحال بہا لے گئی ہم کو
پھر چھوڑ دیا ریگِ سرِ راہ سمجھ کر
کچھ دور تو موسم کی ہوا لے گئی ہم کو

زیرِ گرداب نہ بالائے مکاں بولتی ہے

زیرِ گرداب، نہ بالائے مکاں بولتی ہے
خامشی آ کے سرِ خلوتِ جاں بولتی ہے
یہ مرا وہم ہے یا مجھ کو بلاتے ہیں وہ لوگ
کان بجتے ہیں کہ موجِ گزراں بولتی ہے
لو سوالِ دہنِ بستہ کا آتا ہے جواب
تیر سرگوشیاں کرتے ہیں، کماں بولتی ہے

قدم اٹھے تو گلی سے گلی نکلتی رہی

قدم اُٹھے تو گلی سے گلی نکلتی رہی
نظر دِیے کی طرح چوکھٹوں پہ جلتی رہی
کچھ ایسی تیز نہ تھی اُس کے انتظار کی آنچ
یہ زندگی ہی مری برف تھی پگھلتی رہی
سروں کے پھول سرِ نوکِ نیزہ ہنستے رہے
یہ فصل سوکھی ہوئی ٹہنیوں پہ پھلتی رہی

Thursday 28 March 2013

خانۂ درد ترے خاک بسر آ گئے ہیں

خانۂ درد ترے خاک بسر آ گئے ہیں
اب تو پہچان کہ ہم شام کو گھر آ گئے ہیں
جان و دل کب کے گئے ناقہ سواروں کی طرف
یہ بدن گرد اڑانے کو کِدھر آ گئے ہیں
رات دن سوچتے رہتے ہیں یہ زندانئ ہجر
اس نے چاہا ہے تو دیوار میں در آ گئے ہیں

مروتوں پہ وفا کا گماں بھی رکھتا تھا

مروتوں پہ وفا کا گماں بھی رکھتا تھا
وہ آدمی تھا غلط فہمیاں بھی رکھتا تھا
بہت دنوں میں یہ بادل ادھر سے گزرا ہے
مرا مکان کبھی سائباں بھی رکھتا تھا
عجیب شخص تھا، بچتا بھی تھا حوادث سے
پھر اپنے جسم پہ الزامِ جاں بھی رکھتا تھا

ملال دولت بردہ پہ خاک ڈالتے ہیں

ملالِ دولتِ بردہ پہ خاک ڈالتے ہیں
ہم اپنی خاک سے پھر گنجِ زر نکالتے ہیں
میں اپنے نقدِ ہنر کی زکوٰۃ بانٹتا ہوں
مرے ہی سِکے مرے ہم سخن اچھالتے ہیں
بڑھا کے میرے معانی پہ لفظ کا زنگار
مرے حریف مرے آئینے اجالتے ہیں

جھلس رہے ہیں کڑی دھوپ میں شجر میرے

جھلس رہے ہیں کڑی دھوپ میں شجر میرے
برس رہا ہے کہاں ابرِ بے خبر میرے
گرا تو کوئی جزیرہ نہ تھا سمندر میں
کہ پانیوں پہ کھلے بھی بہت تھے پَر میرے
اب اس کے بعد گھنے جنگلوں کی منزل ہے
یہ وقت ہے کہ پلٹ جائیں ہمسفر میرے

حلقۂ بے طلباں رنج گراں باری کیا

حلقۂ بے طلباں رنجِ گراں باری کیا
اُٹھ کے چلنا ہی تو ہے کوچ کی تیاری کیا
ایک کوشش کہ تعلق کوئی باقی رہ جائے
سو تری چارہ گری کیا، مری بیماری کیا
تجھ سے کم پر کسی صورت نہیں راضی ہوتا
دلِ ناداں نے دِکھا رکھی ہے ہشیاری کیا

ذہن ہو تنگ تو پھر شوخی افکار نہ رکھ

ذہن ہو تنگ تو پھر شوخئ افکار نہ رکھ
بند تہ خانوں میں یہ دولتِ بیدار نہ رکھ
زخم کھانا ہی جو ٹھہرا تو بدن تیرا ہے
خوف کا نام مگر لذتِ آزار نہ رکھ
ایک ہی چیز کو رہنا ہے سلامت، پیارے
اب جو سر شانوں پہ رکھا ہے تو دیوار نہ رکھ

زوال شب میں کسی کی صدا نکل آئے

زوالِ شب میں کسی کی صدا نکل آئے
ستارہ ڈوبے، ستارہ نما نکل آئے
عجب نہیں کہ یہ دریا نظر کا دھوکا ہو
عجب نہیں کہ کوئی راستہ نکل آئے
وہ حبس ہے کہ دعا کر رہے ہیں سارے چراغ
اب اس طرف کوئی موجِ ہوا نکل آئے

میرے ہونے میں کسی طور تو شامل ہو جاؤ

میرے ہونے میں کسی طور تو شامل ہو جاؤ
تم مسیحا نہیں ہوتے ہو تو قاتل ہو جاؤ
دشت سے دُور بھی کیا رنگ دکھاتا ہے جنوں
دیکھنا ہے تو کسی شہر میں داخل ہو جاؤ
جس پہ ہوتا ہی نہیں خونِ دو عالم ثابت
بڑھ کے اِک دن اسی گردن میں حمائل ہو جاؤ

جمال اب تو یہی رہ گیا ہے پتہ اس کا

جمال اب تو یہی رہ گیا ہے پتہ اُس کا
بھلی سی شکل تھی اچھا سا نام تھا اُس کا
پھر ایک سایہ در و بام پر  اُتر آیا
دل و نگاہ میں پھر ذِکر چِھڑ گیا اُس کا
کسے خبر تھی کہ یہ دن بھی دیکھنا ہو گا
اب اعتبار بھی دل کو نہیں رہا اُس کا

عجب نہیں کبھی نغمہ بنے فغاں میری

عجب نہیں کبھی نغمہ بنے فغاں میری
مری بہار میں شامل ہے اب خزاں میری
میں اپنے آپ کو اوروں میں رکھ کے دیکھتا ہوں
کہیں فریب نہ ہوں درد مندیاں میری
میں اپنی قوتِ اظہار کی تلاش میں ہوں
وہ شوق ہے کہ سنبھلتی نہیں زباں میری

ہونے کی گواہی کے لئے خاک بہت ہے

ہونے کی گواہی کے لئے خاک بہت ہے
یا کچھ بھی نہیں ہونے کا ادراک بہت ہے
اک بھولی ہوئی بات ہے اِک ٹوٹا ہوا خواب
ہم اہلِ محبت کو یہ اِملاک بہت ہے
کچھ دربدری راس بہت آئی ہے مجھ کو
کچھ خانہ خرابوں میں مِری دھاک بہت ہے

کسی بھی دشت، کسی بھی نگر چلا جاتا

کسی بھی دشت، کسی بھی نگر چلا جاتا
میں اپنے ساتھ ہی رہتا جدھر چلا جاتا
وہ جس منڈیر پہ چھوڑ آیا اپنی آنکھیں میں
چراغ ہوتا تو لَو بھول کر چلا جاتا
اگر میں کھڑکیاں، دروازے بند کر لیتا
تو گھر کا بھید سرِ رہگزر چلا جاتا

سلوک ناروا کا اس لیے شکوہ نہیں کرتا

سلوک ناروا کا اس لیے شکوہ نہیں کرتا
کہ میں بھی تو کسی کی بات کی پروا نہیں کرتا
بہت ہوشیار ہوں اپنی لڑائی آپ لڑتا ہوں
میں دل کی بات کو دیوار پہ لکھا نہیں کرتا
اگر پڑ جائے عادت آپ اپنے ساتھ رہنے کی
یہ ساتھ ایسا ہے کہ انسان کو تنہا نہیں کرتا

ذرا سی بات پہ دل سے بگاڑ آیا ہوں

ذرا سی بات پہ دل سے بگاڑ آیا ہوں
بنا بنایا ہوا گھر اجاڑ آیا ہوں
وہ انتقام کی آتش تھی میرے سینے میں
ملا نہ کوئی تو خود کو پچھاڑ آیا ہوں
میں اس جہان کی قسمت بدلنے نکلا تھا
اور اپنے ہاتھ کا لکھا ہی پھاڑ آیا ہوں

کبھی بھلا کے کبھی اس کو یاد کر کے مجھے

کبھی بھلا کے، کبھی اس کو یاد کر کے مجھے
جمالؔ قرض چکانے ہیں عمر بھر کے مجھے
ابھی تو منزلِ جاناں سے کوسوں دور ہوں میں
ابھی تو راستے ہیں یاد اپنے گھر کے مجھے
جو لکھتا پھرتا ہے دیوار و در پہ نام مِرا
بکھیر دے نہ کہیں حرف حرف کر کے مجھے

عمر گزری جس کا رستہ دیکھتے

عمر گزری جس کا رستہ دیکھتے
آ بھی جاتا وہ تو ہم کیا دیکھتے
کیسے کیسے موڑ آئے راہ میں
ساتھ چلتے تو تماشا دیکھتے
قریہ قریہ جتنا آوارہ پھرے
گھر میں رہ لیتے تو دنیا دیکھتے

جو تو گیا تھا تو تیرا خیال رہ جاتا

جو تو گیا تھا تو تیرا خیال رہ جاتا
ہمارا کوئی تو پُرسانِ حال رہ جاتا
بُرا تھا یا وہ بھلا، لمحۂ محبت تھا
وہیں پہ سلسلہ ماہ و سال رہ جاتا
بچھڑتے وقت ڈھلکتا نہ گر ان آنکھوں سے
اُس ایک اشک کا کیا کیا ملال رہ جاتا

کب پاؤں فگار نہیں ہوتے کب سر پر دھول نہیں ہوتی

کب پاؤں فگار نہیں ہوتے، کب سر پر دھول نہیں ہوتی
تِری راہ میں چلنے والوں سے لیکن کبھی بھول نہیں ہوتی
سرِ کوچۂ عشق آ پہنچے ہو لیکن ذرا دھیان رہے کہ یہاں
کوئی نیکی کام نہیں آتی، کوئی دعا قبول نہیں ہوتی
ہر چند اندیشۂ جاں ہے بہت لیکن اس کارِ محبت میں
کوئی پل بے کار نہیں جاتا، کوئی بات فضول نہیں ہوتی

دل تجھے ناز ہے جس شخص کی دلداری پر

دل تجھے ناز ہے جس شخص کی دلداری پر
دیکھ اب وہ بھی اُتر آیا اداکاری پر
میں نے دشمن کو جگایا تو بہت تھا لیکن
احتجاجاً نہیں جاگا مِری بیداری پر
آدمی، آدمی کو کھائے چلا جاتا ہے
کچھ تو تحقیق کرو اس نئی بیماری پر

ہم نے مانا اس زمانے میں ہنسی بھی جرم ہے

ہم نے مانا اس زمانے میں ہنسی بھی جرم ہے
لیکن اس ماحول میں افسردگی بھی جرم ہے
دشمنی تو خیر ہر صورت میں ہوتی ہے گناہ
اک معین حد سے آگے دوستی بھی جرم ہے
ہم وفائیں کر کے رکھتے ہیں وفاوُں کی امید
دوستی میں اس قدر سوداگری بھی جرم ہے

لوگ پہچان نہیں پائیں گے چہرہ اپنا

لوگ پہچان نہیں پائیں گے چہرہ اپنا
اب نہ بدلے تو بدل جائے گا نقشہ اپنا
برق ایک ایک نشیمن کا پتہ جانتی ہے
اب کے پھر ڈھونڈ نکالے گی ٹھکانہ اپنا
طعنۂ دربدری دے مگر اتنا رہے دھیان
راستہ بھی تو بدل سکتے ہیں دریا اپنا

کوئی بھی فرق نہ منظر میں پڑا میرے بعد

کوئی بھی فرق نہ منظر میں پڑا میرے بعد
شام کا چہرہ ہی اُترا تھا ذرا میرے بعد
لوگ مصروف رہے، شہر رہا پُر رونق
صرف خاموشی رہی نوحہ سرا میرے بعد
خوابِ خوشرنگ! مِری چشم کو مت چھوڑ، تجھے
کون دیکھے گا مِری طرح، بھلا میرے بعد

رات کی آنکھ میں تھا پھر کوئی ارماں جاناں

رات کی آنکھ میں تھا پھر کوئی ارماں جاناں
خواب در خواب چلی محفلِ جاناں، جاناں
دن میں بھی سہم کے سائے ہی یہاں مِلتے ہیں
شام کو ہوتا ہے "دل" اور "ہراساں" جاناں
وہ دلآویز محبت جو کبھی دل میں رہی
اب تو آنکھوں میں بھی اس کا نہیں اِمکاں جاناں

چہرہ تو کچھ زرد پڑا ہے ایک خیال کے آ جانے سے

چہرہ تو کچھ زرد پڑا ہے ایک خیال کے آ جانے سے
شعر پہ کیسی رونق آئی رنگِ ملال کے آ جانے سے
رَستے پر اِک پتھر ہو، پتھر کے نیچے پھول کِھلا ہو
کوئی بھی حیراں ہو سکتا ہے ایسی مثال کے آ جانے سے
رنج کے بادل گِھر آتے ہیں، خوف کے سائے دَر آتے ہیں
مستقبل کے اندیشوں میں ماضی و حال کے آ جانے سے

مشعلیں ساتھ لئے جاتے ہو جاتے جاتے

مشعلیں ساتھ لیے جاتے ہو، جاتے، جاتے
روشنی کچھ مِرے رَستے میں گراتے جاتے
بستیاں خواب کی پہلے جو بسائی گئی تھیں
ہم نے دیکھی ہیں اسی راہ پر آتے جاتے
ساری امیدیں ہی کاغذ کی بنی کشتیاں ہیں
جان پاتے تو نہ پانی میں بہاتے جاتے

دور کہیں کھلا ہوا خواب تھا مرغزار میں

دور کہیں کِھلا ہوا، خواب تھا مرغزار میں
دیر تلک چلے تھے ہم نیند کے شاخسار میں
موجِ خزاں سے قبل ہی ایک ہَوائے ہجر نے
لُوٹ لیا چمن مِرا، وہ بھی بھری بہار میں
تجھ کو وہ عہدِ مختصر، یاد نہیں رہا، مگر
کوئی رہا ہے عمر بھر محشرِ انتظار میں

فشار چشم و سویدائے دل نہیں ہوتی

فشارِ چشم و سویدائے دل نہیں ہوتی
مگر وہ یاد کبھی مُندمل نہیں ہوتی
خوشی کے بعد اداسی، سحر کے بعد ہے شام
سو اپنی حالتِ دل، مستقل نہیں ہوتی
ہے خواب میں وہ عجب قوتِ نمو کہ کبھی
رہینِ آتش و باد، آب و گِل نہیں ہوتی

دل میں چھپی ہوئی تھی جو زینت بام ہو گئی

دل میں چھپی ہوئی تھی جو، زینتِ بام ہو گئی
آنکھ اُٹھی تو ساری بات برسرِ عام ہو گئی
ایک رفیق تھا سو دل اب تِرا دوست ہو گیا
جو بھی متاعِ خواب تھی سب تِرے نام ہو گئی
دیکھا نہیں ہے آفتاب، نصفِ نہار پر کبھی
عرصۂ زندگی میں بس صبح سے شام ہو گئی

شاید کہ موج عشق جنوں خیز ہے ابھی

شاید کہ موجِ عشق جنوں خیز ہے ابھی
دل میں لہو کی تال بہت تیز ہے ابھی
ہم نے بھی مستعار لیا اُس سے رنگِ چشم
اپنی طرح سے وہ بھی کم آمیز ہے ابھی
پھر آبِ سرخ آنکھ سے بہتا دکھائی دے
گویا یہ دل ملال سے لبریز ہے ابھی

نہ سہی گر نہیں ملتی کوئی آسائش دل

نہ سہی، گر نہیں ملتی کوئی آسائشِ دل
ہم تو اس شخص سے کرتے نہیں فرمائشِ دل
اس کی یادوں کے گلاب، اس کی تمنا کا چراغ
ایک مدت سے یہ ہے صورتِ آرائشِ دل
ایک مضراب سے بج اٹھتا ہے سازینۂ جاں
ایک تصویر سے ہو جاتی ہے زیبائشِ دل

منزل خواب لٹی ختم ہوئی کاوش دل

منزلِ خواب لٹی، ختم ہوئی کاوشِ دل
اب تو بے چارگئ جسم ہے اور کاہشِ دل
برف سی جمنے لگی معبدِ دل پر آخر
سرد ہونے لگا آتش کدۂ خواہشِ دل
پاؤں کے آبلے سہلانے کی فُرصت کس کو
چین لینے نہیں دیتی ہے یہاں سوزشِ دل

شاعری جھوٹ سہی عشق فسانہ ہی سہی

شاعری جھوٹ سہی، عشق فسانہ ہی سہی
زندہ رہنے کے لیے کوئی بہانہ ہی سہی
ایک نظر ادھر دیکھ تماشہ ہی سہی
تیرا پردہ، تیری دوری حالات کا تقاضہ ہی سہی
نظر بھر دیکھ لینے سے بھلا کیا ہو گا
ہاں تم معصوم سہی اور ہم رسوا ہی سہی

رہ فراق کسی طور مختصر کیجے

رہِ فراق کسی طور مختصر کیجے
جو ہو سکے تو کبھی خواب سے گزر کیجے
ہمارے دل میں بھی منظر عجیب سیر کا ہے
نہ آ سکیں تو بلندی سے ہی نظر کیجے
یہاں پہ چاروں طرف ہے سراغ رستوں کا
پر اختیار کوئی راہ دیکھ کر کیجے

گھر کی ویرانی سے کب ہم کو پریشانی ہوئی

گھر کی ویرانی سے کب ہم کو پریشانی ہوئی
آنکھ تب چھلکی جب اس دل میں بھی ویرانی ہوئی
آسماں تا لامکاں، تھا اک نظر کا سلسلہ
ایک ہی حسرت کی عالم میں فراوانی ہوئی
دولتِ دنیا سے پہلے ہی نہ تھا کچھ واسطہ
دولتِ ہستی، تِری راہوں میں ارزانی ہوئی

یا رب لب خموش کو ایسا جمال دے

یا رب! لبِ خموش کو ایسا جمال دے
جو گفتگو کے سارے ہی لہجے اجال دے
سوزِ درونِ قلب کو اتنا کمال دے
جو مجھ کو ایک شمع کے قالب میں ڈھال دے
پردے ہٹا، دکھا دے تجلّی سے شش جہات
پھر مطمئن وجود کو روحِ غزال دے

Wednesday 27 March 2013

کچھ اجنبی سی صداؤں سے بات کی ہم نے

کچھ اجنبی سی صداؤں سے بات کی ہم نے
جب ایک شام ہواؤں سے بات کی ہم نے
اُنہیں بتایا پتہ آسمان والے کا
زمیں کے سارے خداؤں سے بات کی ہم نے
تھے اپنے خواب کے اک داستاں سرا ہم بھی
نگر کے خواب سراؤں سے بات کی ہم نے

رو لیجئے کہ پھر کوئی غم خوار ہو نہ ہو

رو لیجئے کہ پھر کوئی غمخوار ہو نہ ہو
ان آنسوؤں کا اور خریدار ہو نہ ہو
کچھ روز میں یہ زخم چراغوں سے جل بجھیں
کچھ روز میں یہ گرمئ بازار ہو نہ ہو
عجلت بہت ہے آپ کو جانے کی، جائیے
لوٹیں تو پھر یہ عشق کا آزار ہو نہ ہو

تو بھی رخصت ہو رہا ہے دھوپ بھی ڈھلنے کو ہے

تو بھی رخصت ہو رہا ہے دھوپ بھی ڈھلنے کو ہے
میرے اندر اک چراغ شام غم جلنے کو ہے
کب تلک اس ہجر میں آخر کو رونا چاہیئے؟
آنکھ بھی خوں ہو گئی دامن بھی اب گلنے کو ہے
گلستاں میں پڑ گئی ہے رسم تجسیم بہار
اپنے چہرے پر ہر اک گل، خون دل ملنے کو ہے

دنیائے وفا کا کوئی در باز کریں کیا

دنیائے وفا کا کوئی در باز کریں کیا
منزل ہی نہیں جب، سفر آغاز کریں کیا
اڑتے ہوئے جاتے تھے ستاروں سے بھی آگے
دل ٹوٹ کے گر جائے تو پرواز کریں کیا
کیا شہرِ مراتب میں ہوں مہمان کسی کے
آئے جو کوئی، دعوتِ شیراز کریں کیا

موسم زرد کا ٹوٹا ہے حصار آخر کار

موسمِ زرد کا ٹوٹا ہے حصار آخرِ کار
چشمِ خوں رنگ نے دکھلائی بہار آخرِ کار
کس طرح لوگ مگر منزلِ جاں پاتے ہیں
ہم ہوئے رستۂ ہستی کا غبار آخرِ کار
عکس آئینے پہ آئینہ ہوا عکس پہ دنگ
ایک سے لگنے لگے نقش و نگار آخرِ کار

کب چراغوں کی ضرورت ہے ملاقاتوں میں

کب چراغوں کی ضرورت ہے ملاقاتوں میں
روشنی ہوتی ہے کچھ اور ہی ان راتوں میں
سر پہ جھکتا ہوا بادل ہے کہ اک یاد کوئی
اور بھی گہری ہوئی جاتی ہے برساتوں میں
ایک خوشبو سی کسی موسمِ نادیدہ کی
آخری چیز بچی عشق کی سوغاتوں میں

صبح کو بزم ناز کا رنگ اڑا ہوا ملا

صبح کو بزمِ ناز کا رنگ اڑا ہوا ملا
پھول جلے ہوئے ملے دیپ بجھا ہوا ملا
دل کا نصیب ہے اسےگر غمِ دوست مل سکے
ایسا نگیں بھلا کسے رَہ میں پڑا ہوا ملا
ٹوٹ کے گِر چکا تھا اور ہم نے چنی تھیں کرچیاں
آج یہ آسمان پھر سر پہ تنا ہوا ملا

کار دنیا میں کچھ اے دل نہیں بہتر تو بھی

کارِ دنیا میں کچھ اے دل نہیں بہتر تُو بھی
کوچۂ عشق سے چن لایا ہے کنکر تُو بھی
جب تلک بامِ فلک پر ہے، ستارہ تُو ہے
اور اگر ٹوٹ کے گِر جائے تو پتھر تُو بھی
یہ قناعت بھی محبت کی عطا ہے ورنہ
شہر میں اور بہت، ایک گداگر تُو بھی

ہم کسی چشم فسوں ساز میں رکھے ہوئے ہیں

ہم کسی چشم فسوں ساز میں رکھے ہوئے ہیں
خواب ہیں، خواب کے انداز میں رکھے ہوئے ہیں
تاب، انجامِ محبت کی بھلا کیا لاتے؟؟
نا تواں دل، وہیں آغاز میں رکھے ہوئے ہیں
جلتے جائیں گے ابھی اور چراغوں سے چراغ
جب تِری انجمن ناز میں رکھے ہوئے ہیں

خوشبو کے ساتھ اس کی رفاقت عجیب تھی

خوشبو کے ساتھ اس کی رفاقت عجیب تھی
لمس ہوائے شام کی راحت عجیب تھی
چشم شب فراق میں ٹھہری ہے آج تک
وہ ماہتاب عشق کی ساعت عجیب تھی
آساں نہیں تھا تجھ سے جدائی کا فیصلہ
پر مستقل وصال کی وحشت عجیب تھی

عشق دریا ہے تو آئے لب ساحل آئے

عشق دریا ہے تو آئے لبِ ساحل آئے
موج کی طرح اٹھے اور اسے مل آئے
دل مسافر نہیں، مشتاقِ سفر ہے ایسا
ڈر ہی جائے جو سوالِ رہِ منزل آئے
ایسے اتری ہے چمن زار میں اک ساعتِ سبز
جیسے نقاشِ گُل و نقش گرِ گِل آئے

شام کو ہو کے بے قرار یاد نہیں کِیا تجھے

شام کو ہو کے بے قرار یاد نہیں کِیا تجھے
کب یہ ہوا کہ بار بار، یاد نہیں کِیا تجھے
خواب سجا کے جی لیے دل سےلگا کے جی لیے
رشتۂ دردِ استوار، یاد نہیں کِیا تجھے
دانشِ خاص ہم نہیں یوں تو جُنوں میں کم نہیں
دل پہ ہے اتنا اختیار، یاد نہیں کِیا تجھے

پھول روش روش پہ تھے رستہ صد چراغ تھا

پھول روش روش پہ تھے، رستہ صد چراغ تھا
کون کہے گا اِس جگہ دشت نہیں تھا، باغ تھا
اِس طرح درد سے بھرے اِس طرح ٹوٹ کر گرے
جیسے کہ چشم تھی سبو جیسے کہ دل ایاغ تھا
جب سے نگاہ ہو گئی اخترِ شام کی اسیر
شب کی نہ کچھ خبر ملی دن کا نہ کچھ سراغ تھا

کھل رہی ہے رفتہ رفتہ زلف شام یاد پھر

کھل رہی ہے رفتہ رفتہ زلف شام یاد پھر
ڈوبتا ہے اس اندھیرے میں دل برباد پھر
اپنے اپنے انتخاب آرزو کی بات ہے
شاد ہوتا ہے کوئی دل اور کوئی ناشاد پھر
گہرے نیلے جنگلوں سے گھوم کر نکلے تو تھا
سامنے اک قریۂ بے خواب و بے آباد پھر

چراغ عشق تو جانے کہاں رکھا ہوا ہے

چراغِ عشق تو جانے کہاں رکھا ہوا ہے
سرِ محرابِ جاں بس اک گماں رکھا ہوا ہے
ہوائے شام اڑتی جا رہی ہے راستوں پر
ستارہ ایک زیرِ آسماں رکھا ہوا ہے
یہی غم تھا کہ جس کی دھوم دنیا میں مچی تھی
یہی غم ہے کہ جس کو بے نشاں رکھا ہوا ہے

Tuesday 26 March 2013

اب کے برس دستور ستم میں کیا کیا باب ایزاد ہوئے

اب کے برس دستورِ سِتم میں کیا کیا باب ایزاد ہوئے
قاتل تھے مقتول ہوئے، جو صید تھے اب صیاد ہوئے
پہلے بھی خزاں میں باغ اُجڑے پر یُوں نہیں جیسے ابکے برس
سارے بُوٹے، پتہ پتہ، روِش روِش، برباد ہوئے
پہلے بھی طوافِ شمعِ وفا تھی، رسم محبت والوں کی
ہم تُم سے پہلے بھی یہاں منصُور ہوئے، فرہاد ہوئے

یہ موسم گل گرچہ طرب خیز بہت ہے

یہ موسمِ گُل گرچہ طرب خیز بہت ہے
احوالِ گل و لالہ غم انگیز بہت ہے
خوش دعوت یاراں بھی ہے یلغارِ عدُو بھی
کیا کیجئے دل کا جو کم آمیز بہت ہے
یوں پیرِ مغاں شیخِ حرم سے ہوئے یکجاں
مے خانے میں کم ظرفئ پرہیز بہت ہے

ہم مسافر یونہی مصروف سفر جائیں‌ گے

ہم مسافر یونہی مصروفِ سفر جائیں‌ گے
بے نشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے
کس قدر ہو گا یہاں مہر و وفا کا ماتم
ہم تری یاد سے جس روز اتر جائیں گے
جوہری بند کئے جاتے ہیں بازارِ سخن
ہم کسے بیچنے الماس و گُہر جائیں گے

رہ وفا میں جلا آستاں ہی دیکھ آئیں

رہِ وفا میں جلا آستاں ہی دیکھ آئیں
حمیّتوں کا یہ روشن نشاں ہی دیکھ آئیں
بدل لیا در و دیوار نے بھی رنگ اپنا
نکل کے گھر سے ذرا آسماں ہی دیکھ آئیں
یہ نقش ہائے شہیداں فلک کی آنکھ میں ہیں
زمین پر یہ پڑی کہکشاں ہی دیکھ آئیں

Sunday 24 March 2013

محمول بر مبالغہ آرائی ہی نہ ہو

محمول بر مبالغہ آرائی ہی نہ ہو
رونق نمائی پرتوِ تنہائی ہی نہ ہو
آبِ حیات پیجیے پر سوچ لیجیے
پائندگی اجل کی پذیرائی ہی نہ ہو
اے شمع احتیاط ! کہ بے طاقچہ ہے تُو
پروانگی تِرے لیے پُروائی ہی نہ ہو

سکوں ہوا نہ میسر ہمیں فرار سے بھی

سکوں ہوا نہ میسر ہمیں فرار سے بھی
ملے ہیں زخم تِرے قُرب کی بہار سے بھی
متاعِ فقر بھی آئی نہ دستِ عجز کے ہاتھ
گریز پا ہی رہا، دولتِ وقار سے بھی
ہم اہل ِدل ہی نہ سمجھے، وفا کے منصب کو
ہوئی ہے ہم کو ندامت سِتم شعار سے بھی

Saturday 16 March 2013

بگولے رہنما ہیں باد صحرائی سفر میں ہے

بگولے رہنما ہیں، بادِ صحرائی سفر میں ہے 
رکیں کیسے، ہمارے ساتھ رُسوائی سفر میں ہے 
خبر بھی تو نہیں ہے، اب کدھر کو جا رہے ہیں ہم
سرابوں کا سفر ہے، آبلہ پائی سفر میں ہے
یہ بستی ہے کہ زنداں، کچھ بھی تو پلّے نہیں پڑتا
تھے کب پچھوا کے دن اور کب سے پروائی سفر میں ہے 

بظاہر رنگ خوشبو روشنی یکجان ہوتے ہیں

بظاہر رنگ، خوشبو، روشنی یکجان ہوتے ہیں
مگر یہ شہر اندر سے بہت ویران ہوتے ہیں 
کوئی مانے نہ مانے، گفتگو کرتی ہے خاموشی
پس دیوارِ حسرت بھی کئی طوفان ہوتے ہیں
اُلجھ جائیں تو سلجھانے کو یہ عمریں بھی ناکافی
تعارف کے اگرچہ سلسلے آسان ہوتے ہیں 

راس آ نہیں سکا کوئی بھی پیمان الوداع

راس آ نہیں سکا کوئی بھی پیمان الوداع
تُو میری جانِ جاں سو مری جان الوداع
میں تیرے ساتھ بُجھ نہ سکا، حد گزر گئی
اے شمع! میں ہوں تجھ سے پشیمان الوداع
میں جا رہا ہوں اپنے بیابانِ حال میں
دامان الوداع! گریبان الوداع

وہ اپنے آپ سے بھی جدا چاہیے ہمیں

وہ اپنے آپ سے بھی جدا چاہیے ہمیں
 اس کا جمال اس کے سوا چاہیے ہمیں
 ہر لمحہ جی رہے ہیں دوا کے بغیر ہم
 چارہ گرو! تمہاری دعا چاہیے ہمیں
پھر دیکھیے جو حرف بھی نکلے زباں سے
 اک دن جو پوچھ بیٹھے کہ کیا چاہیے ہمیں

Friday 15 March 2013

مرا اک مشورہ ہے التجا نئیں

 مرا اِک مشورہ ہے اِلتجا نئیں

تو میرے پاس سے اس وقت جا نئیں

کوئی دَم چَین پڑ جاتا مجھے بھی

مگر میں خُود سے دَم بھر کو جُدا نئیں

میں خُود سے کچھ بھی کیوں منوا رہا ہوں

میں یاں اپنی طرف بھیجا ہوا نئیں

دل کے بدلے میں جان لی ہے جناب

دل کے بدلے میں جان لی ہے جناب
کیسے کیسوں کی مان لی ہے جناب؟
سامنے تو گُلاب بھی تھے، مگر
آپ نے کیوں کمان لی ہے جناب؟
اب نہیں یاد، عاشقی میں کبھی
جان دی ہے کہ جان لی ہے جناب

Saturday 9 March 2013

کس حرف پہ تو نے گوشۂ لب اے جان جہاں غماز کیا

کس حرف پہ تُونے گوشۂ لب اے جانِ جہاں غماز کیا
اعلانِ جنوں دل والوں نے اب کے بہ ہزار انداز کیا
سو پیکاں تھے پیوستِ گلو، جب چھیڑی شوق کی لے ہم نے
سو تیر ترازو تھے دل میں، جب ہم نے رقص آغاز کیا
بے حرص و ہوا، بے خوف و خطر، اس ہاتھ پہ سر، اُس کف پہ جگر
یوں کوئے صنم میں وقتِ سفر، نظارۂ بام ناز کیا

Friday 1 March 2013

ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے

ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
اُسکے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے
سانس لیتے ہوئے اِنساں بھی ہے لاشوں کی طرح
اب دھڑکتے ہوئے دل کی بھی لحد ہوتی ہے
اپنی آواز کے پتّھر بھی نہ اُس تک پہنچے
اسکی آنکھوں کے اشارے میں بھی زَد ہوتی ہے