Sunday, 31 March 2013

جسے ڈبو کے گیا تھا حباب پانی میں

جسے ڈبو کے گیا تھا حباب پانی میں
لہر وہ کھاتی رہی پیچ و تاب پانی میں
کبھی تو تارِ رگِ جاں بھی چھیڑ کر دیکھو
بجانے جاتے ہو اکثر رباب پانی میں
تری نگاہ بہت ہے مرے لئے ساقی
نہ گھول مجھ کو بنا کر شراب پانی میں
خبر چھپی ہے جو لڑکی کی وہ نئی تو نہیں
اُتر گئی تھی جو ہو کر خراب پانی میں
پھر اپنی آگ بجھانے کوئی کہاں جائے
لگائے آگ اگر ماہتاب پانی میں
گہر ہمارے بھی نیناںؔ کے دیکھ لو آ کر
تمام سیپ نہیں لاجواب پانی میں

فرزانہ نیناں

No comments:

Post a Comment