ملتے ہی خود کو آپ سے وابستہ کہہ دیا
محسوس جو کیا وہی برجستہ کہہ دیا
میں چپ ہوا تو زخم مِرے بولنے لگے
سب کچھ زبانِ حال سے لب بستہ کہہ دیا
خورشیدِ صبحِ نو کو شکایت ہے دوستو
کیوں شب سے ہم نے صبح کو پیوستہ کہہ دیا
چلتا رہا تو دشت نوردی کا طنز تھا
ٹھہرا ذرا تو آپ نے پابستہ کہہ دیا
دیکھا تو ایک آگ کا دریا تھا موجزن
اس دورِ ناسزا نے جسے رستہ کہہ دیا
دیکھی گئی نہ آپ کی آزردہ خاطری
کانٹے مِلے تو ان کو بھی گُلدستہ کہہ دیا
مرتضیٰ برلاس
محسوس جو کیا وہی برجستہ کہہ دیا
میں چپ ہوا تو زخم مِرے بولنے لگے
سب کچھ زبانِ حال سے لب بستہ کہہ دیا
خورشیدِ صبحِ نو کو شکایت ہے دوستو
کیوں شب سے ہم نے صبح کو پیوستہ کہہ دیا
چلتا رہا تو دشت نوردی کا طنز تھا
ٹھہرا ذرا تو آپ نے پابستہ کہہ دیا
دیکھا تو ایک آگ کا دریا تھا موجزن
اس دورِ ناسزا نے جسے رستہ کہہ دیا
دیکھی گئی نہ آپ کی آزردہ خاطری
کانٹے مِلے تو ان کو بھی گُلدستہ کہہ دیا
مرتضیٰ برلاس
No comments:
Post a Comment