زندگی کے ساز کا ٹوٹا ہوا ہر تار ہے
کوئی نغمہ اس میں اُبھرے، سوچنا بیکار ہے
مصلحت کی کوئی بھی زنجیر پیروں میں نہیں
ایسا کیوں لگتا ہے جیسے دل پسِ دِیوار ہے
جب حکومت کہہ رہی ہے امن ہے چاروں طرف
سانس کی گردِش ہے سِینے میں مقیّد اس طرح
جس طرح پنجرے میں پنچھی قید ہے، لاچار ہے
یُوں خُوشی کے نام سے دل کانپ اُٹھتا ہے بتولؔ
زندگی کا رقص جیسے موت کی جھنکار ہے
فاخرہ بتول
No comments:
Post a Comment