Thursday, 28 March 2013

رہ فراق کسی طور مختصر کیجے

رہِ فراق کسی طور مختصر کیجے
جو ہو سکے تو کبھی خواب سے گزر کیجے
ہمارے دل میں بھی منظر عجیب سیر کا ہے
نہ آ سکیں تو بلندی سے ہی نظر کیجے
یہاں پہ چاروں طرف ہے سراغ رستوں کا
پر اختیار کوئی راہ دیکھ کر کیجے
یہ شہر و کوہ و بیابان و دشت و دریا تھے
اب آگے خواب ہے، رک جائیے ، بسر کیجے
بنے تھے خاک سے، ہم کو قیام کرنا تھا
ہوا ہیں آپ، اڑا کیجئے، سفر کیجے
ہم اپنے عہدِ تمنا پہ اب بھی قائم ہیں
ذرا شریکِ تمنا کو بھی خبر کیجے

ثمینہ راجا

No comments:

Post a Comment