Sunday 29 June 2014

نہ بنے آنکھ کا تارا یہ ضروری تو نہیں

نہ بنے آنکھ کا تارا، یہ ضروری تو نہیں
ہو کوئی چاند سا پیارا، یہ ضروری تو نہیں
فائدہ ایک ہو سب کا، یہ تو ہو سکتا ہے
ایک جیسا ہو خسارہ، یہ ضروری تو نہیں
یہ بھی ممکن ہے کہ پردہ کوئی پردہ ہی نہ ہو
اور نظارہ ہو نظارہ، یہ ضروری تو نہیں

راجا ہے کوئی اس میں نہ رانی ہے مرے دوست

راجا ہے کوئی اس میں نہ رانی ہے مِرے دوست
اپنی تو کوئی اور کہانی ہے مرے دوست
تم ساتھ ہو میرے تو کہا میں نے ہے، ورنہ
کب شام یہ اتنی بھی سہانی ہے مرے دوست
میں سامنے تیرے ہوں اِدھر دیکھ تُو مجھ کو
تصویر تو البم میں پرانی ہے مرے دوست

Wednesday 25 June 2014

وہ بت گرفتہ دلوں کا نصیب ہو کر بھی

وہ بُت گرفتہ دلوں کا نصیب ہو کر بھی
کسے ہُوا ہے میسر قریب ہو کر بھی
مِلا ہے یار بھی ہم کو سکونِ دل جیسا
نصیب ہو نہیں سکتا نصیب ہو کر بھی
غروبِ شب ہے کہ خود آگہی ستاروں کی
بجھے بجھے ہیں سحر کے نقیب ہو کر بھی

چل رہا تھا کئی زنجیروں سے وابستہ میں

چل رہا تھا کئی زنجیروں سے وابستہ میں
چھوڑ آیا ہوں تِری چاہ میں ہر رستہ میں
کر دیا عشق نے مستانۂ پرواز مجھے
اُڑ رہا ہوں تِرے اطراف میں پر بستہ میں
گُل بھی اظہارِ محبت کے لیے کم نکلے
چار شعروں کا اٹھا لایا ہوں گُلدستہ میں

Tuesday 24 June 2014

سچ کو جھوٹ بنا جاتا ہے بعض اوقات

سچ کو جھوٹ بنا جاتا ہے بعض اوقات
بندہ ٹھوکر کھا جاتا ہے بعض اوقات
گھر کی چھت پر رم جھم بارش، جلتی دھوپ
یہ موسم بھی آ جاتا ہے بعض اوقات
اچھی قسمت، اچھا موسم، اچھے لوگ
پھر بھی دل گھبرا جاتا ہے بعض اوقات

Monday 23 June 2014

چاندنی میں سایہ ہائے کاخ و کو میں گھومئے

چاندنی میں سایہ ہائے کاخ و کُو میں گھومیے
پھر کسی کو چاہنے کی آرزو میں گھومیے
شاید اک بھولی تمنا، مٹتے مٹتے جی اٹھے
اور ابھی اس جلوہ زار رنگ و بُو میں گھومیے
روح کے در بستہ سناٹوں کو لے کر اپنے ساتھ
ہمہماتی محفلوں کی ہاؤ ہُو میں گھومیے

کوئی بھی دور سر محفل زمانہ رہا

کوئی بھی دَور سرِ محفلِ زمانہ رہا
تمہارا ذکر رہا، یا مرا فسانہ رہا
مرے نشانِ قدم دشتِ غم پہ ثبت رہے
ابد کی لوح پہ تقدیر کا لکھا نہ رہا
وہ کوئی کنجِ سمن پوش تھا کہ تودۂ خس
اک آشیانہ، بہرحال آشیانہ رہا

وہ شے جو ایک نئی دور کی بشارت ہے

وہ شے جو ایک نئی دور کی بشارت ہے
ترے لہو کی تڑپتی ہوئی حرارت ہے
نظامِ کہنہ کے سائے میں عافیت سے نہ بیٹھ
نظامِ کہنہ تو گرتی ہوئی عمارت ہے
وطن چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں
یہ تیرے جسم تری روح سے عبارت ہے

سازِ فقیرانہ گلوں کی سیج ہے کیا مخملیں بچھونا کیا

سازِ فقیرانہ

گلوں کی سیج ہے کیا، مخملیں بچھونا کیا
نہ مل کے خاک میں گر خاک ہوں تو سونا کیا
فقیر ہیں، دو فقیرانہ ساز رکھتے ہیں
ہمارا ہنسنا ہے کیا اور ہمارا رونا کیا
ہمیں زمانے کی ان بیکرانیوں سے کام
زمانے بھر سے ہے کم دل کا ایک کونا کیا

سر بام؛ لو آ گئی وہ سر بام مسکراتی ہوئی

سرِ بام

لو آ گئی وہ سرِ بام مسکراتی ہوئی
لئے اچٹتی نگاہوں میں اک پیامِ خموش
یہ دھندلی دھندلی فضاؤں میں انعکاسِ شفق
یہ سُونا رستہ ، یہ تنہا گلی ، یہ شامِ خموش
گلی کے موڑ پہ اک گھر کی مختصر دیوار
بِچھا ہے جس پہ دھندلکوں کا ایک دامِ خموش

آ ساز گلستاں کو بہ مضراب خار چھیڑ

آ! سازِ گلستاں کو بہ مضرابِ خار چھیڑ
مطرب! کوئی ترانہ بیادِ بہار چھیڑ
سوئے ہوئے سکوتِ چمن کو ذرا جگا
کچھ تو نوا طرازِ غم روزگار چھیڑ
کل یہ جگہ تھی وادئ نکہت، رباب اٹھا
کل یاں ہجومِ گل تھا، سرودِ بہار چھیڑ

نہیں سنتا کوئی مجھ کشتۂ آلام کے شکوے

نہیں سنتا کوئی مجھ کشتۂ آلام کے شکوے
کیے میں نے ہر اک ایواں کی چوکھٹ تھام کے شکوے
شفق کے رنگ آنکھوں میں، سحر کی اوس پلکوں پر
نہ آئے پھر بھی لب پر چرخِ نیلی فام کے شکوے
یہ کیسا دَور ہے جس میں مجھے سننے پڑے ساقی
وبالِ ہوش کے طعنے، شکستِ جام کے شکوے

Saturday 21 June 2014

تھی ہم آغوشی مگر کچھ بھی مجھے حاصل نہ تھا

تھی ہم آغوشی مگر کچھ بھی مجھے حاصل نہ تھا
وہ اک ایسا لمس تھا جس میں بدن شامل نہ تھا
ریت کی دلدل ملی مجھ کو سمندر پار بھی
میں وہاں اترا جہاں ساحل کبھی ساحل نہ تھا
وہ تو اک سازش تھی میرے خون کی میرے خلاف
جس کے سر الزام آیا وہ مرا قاتل نہ تھا

کچھ روز سے گھرا ہوا جھوٹے نگوں میں ہے

کچھ روز سے گھرا ہوا جھوٹے نگوں میں ہے
اب وہ گہر شناس بھی شامل ٹھگوں میں ہے
دنیا لٹا کے دولتِ ایماں سے بھی گیا
شب زندہ دار سویا ہوا رَت جگوں میں ہے
سُقراط کو ملا جو صداقت کے زہر میں
اب وہ نشہ بئیر کے چھلکتے مگوں میں ہے

کیا جانے کس خمار میں کس جوش میں گرا

کیا جانے کس خمار میں کس جوش میں گرا
وہ پھل شجر سے جو مری آغوش میں گرا
کچھ دائرے سے بن گئے سطحِ خیال پر
جب کوئی پھول ساغرِ مے نوش میں گرا
باقی رہی نہ پھر وہ سنہری لکیر بھی
تارا جو ٹوٹ کر شبِ خاموش میں گرا

وہ ساون جس میں زلفوں کی گھٹا چھائی نہیں ہوتی

وہ ساون جس میں زلفوں کی گھٹا چھائی نہیں ہوتی
جو برسے بھی تو سیراب اپنی تنہائی نہیں ہوتی
جنابِ عشق کرتے ہیں کرم کچھ خاص لوگوں پر
ہر انسان کے مقدر میں تو رُسوائی نہیں ہوتی
سمندر پُرسکوں ہے اس لیے گہرا بھی ہے ورنہ
مچلتی ندیوں میں کوئی گہرائی نہیں ہوتی

میں نے پوچھا پہلا پتھر مجھ پر کون اٹھائے گا

میں نے پوچھا پہلا پتھر مجھ پر کون اٹھائے گا
دنیا بولی سب سے پہلے جو تجھ سے شرمائے گا
پوچھ سکے تو پوچھے کوئی روٹھ کے جانے والوں سے
روشنیوں کو میرے گھر کا رستہ کون بتائے گا
ڈالی ہے اس خوش فہمی نے عادت مجھ کو سونے کی
نکلے گا جب سورج تو خود مجھ کو آن جگائے گا

ہوئی نہ راہ میں حائل شکستہ پائی مری

ہوئی نہ راہ میں حائل شکستہ پائی مری
قتیلؔ اب بھی ہے اِک شخص تک رسائی مری
اُچھالتے ہیں مرے ذکر سے وہ نام اپنا
پسند ہے مرے یاروں کو ہر برائی مری
گنوا رہا تھا میں کتنے ثواب دنیا کے
جنابِ عشق نے فرمائی پیشوائی مری

Friday 20 June 2014

ہواؤں کی زبانی سن لیا ہو گا ستاروں نے

ہواؤں کی زبانی سُن لیا ہو گا ستاروں نے
سندیسہ جو تجھے بھیجا ترے فرقت کے ماروں نے
وہ آنکھیں جو وضاحت کے سبھی انداز رکھتی تھیں
یہ کیا ابہام پیدا کر دیا ان کے اشاروں نے
کہا اِک تجربے نے، دیکھ یہ ہوتی ہے مجبوری
گلے سے پتھروں کو جب لگایا آبشاروں نے

روکا ہے تو نے جس کو سدا عرض حال سے

روکا ہے تُو نے جس کو سدا عرضِ حال سے
ہجرت وہ کر گیا ترے شہرِ وصال سے
وہ مر گیا جب اس کی سکونت بدل گئی
جیون سے بڑھ کے پیار تھا پنچھی کو ڈال سے
بندھوا رہا تھا جو مرے پاؤں میں بجلیاں
آگے بڑھا نہ خود وہ حدِ اعتدال سے

ڈھل گیا چاند گئی رات چلو سو جائیں

ڈھل گیا چاند، گئی رات، چلو سو جائیں
ہو چکی ان سے ملاقات، چلو سو جائیں
اب کہاں گونچ فضا میں کسی شہنائی کی
لُٹ گئی آس کی بارات، چلو سو جائیں
لوگ اقرارِ وفا کر کے بھُلا دیتے ہیں
یہ نہیں کوئی نئی بات، چلو سو جائیں

دنیا میری آباد ہے جس راحت جاں سے

دنیا میری آباد ہے جس راحتِ جاں سے
دیتا ہوں دعائیں اسے دھڑکن کی زباں سے
حیرت سے وفائیں مرا منہ دیکھ رہی ہیں
شیشے کا خریدار ہوں پتھر کی دکاں سے
ایسا وہ کہاں جیسا غزل میں نظر آئے
سب حُسن ہے اس کا مرے اندازِ بیاں سے

Wednesday 18 June 2014

چاند تنہا ہے آسماں تنہا

دونوں چلتے رہے یہاں تنہا

چاند تنہا ہے آسماں تنہا
دل ملا ہے کہاں کہاں تنہا
بجھ گئی آس چھپ گئے تارے
تھرتھراتا رہا دھواں تنہا
زندگی کیا اسی کو کہتے ہیں
جسم تنہا ہے، اور جاں تنہا

یوں تیری رہگزر سے دیوانہ وار گزرے

یوں تیری رہگزر سے دیوانہ وار گزرے
کاندھے پہ اپنے رکھ کے اپنا مزار گزرے
بیٹھے ہیں راستے میں دل کا کھنڈر سجا کر
شاید اسی طرف سے اک دن بہار گزرے
دار و رسن سے دل تک سب راستے ادھورے
جو ایک بار گزرے، وہ بار بار گزرے

پوچھتے ہو تو سنو کیسے بسر ہوتی ہے

پوچھتے ہو تو سنو کیسے بسر ہوتی ہے
رات خیرات کی، صدقے کی سحر ہوتی ہے
سانس بھرنے کو تو جینا نہیں کہتے یا رب
دل ہی دُکھتا ہے نہ اب آستیں تر ہوتی ہے
جیسے جاگی ہوئی آنکھوں میں چبھیں کانچ کے خواب
رات اس طرح دِوانوں کی بسر ہوتی ہے

آبلہ پا کوئی اس دشت میں آیا ہو گا

آبلہ پا کوئی اس دشت میں آیا ہو گا
ورنہ آندھی میں دِیا کس نے جلایا ہو گا
ذرے ذرے پہ جڑے ہونگے کنوارے سجدے
ایک ایک بت کو خدا اس نے بنایا ہو گا
پیاس جلتے ہوئے ہونٹوں کی بجھائی ہو گی
رِستے پانی کو ہتھیلی پہ سجایا ہو گا

ٹکڑے ٹکڑے دن بیتا دھجی دھجی رات ملی

ٹکڑے ٹکڑے دن بیتا، دھجی دھجی رات ملی
جس کا جتنا آنچل تھا۔ اتنی ہی سوغات ملی
رم جھم رم جھم بوندوں میں زہر بھی ہے امرت بھی ہے
آنکھیں ہنس دیں، دل رویا، یہ اچھی برسات ملی
 جب چاہا دل کو سمجھائیں، ہنسنے کی آواز سنی
جیسے کوئی کہتا ہو، لے پھر تجھ کو مات ملی

آغاز تو ہوتا ہے انجام نہیں ہوتا

آغاز تو ہوتا ہے انجام نہیں ہوتا
جب میری کہانی میں وہ نام نہیں ہوتا
جب زلف کی کالک میں گھل جائے کوئی راہی
بدنام سہی لیکن، گمنام نہیں ہوتا
ہنس ہنس کے جواں دل کے ہم کیوں نہ چنیں ٹکڑے
ہر شخص کی قسمت میں انعام نہیں ہوتا

بیٹھا ہوں وقف ماتم ہستی مٹا ہوا

بیٹھا ہوں وقف ماتم ہستی مٹا ہوا
زہرِ وفا ہے گھر کی فضا میں گھلا ہوا
خود اسکے پاس جاؤں نہ اسکو بلاؤں پاس
پایا ہے وہ مزاج کہ جینا بلا ہوا
اس پر غلط ہے عشق میں الزامِ دشمنی
قاتل ہے میرے حجلۂ جاں میں چھپا ہوا

بس ایک ہی کیفیت دل صبح و مسا ہے

بس ایک ہی کیفیئتِ دل صبح و مسا ہے
ہر لمحہ مِری عمر کا زنجیر بہ پا ہے
میں شہر کو کہتا ہوں بیاباں، کہ یہاں بھی
سایہ تِری دیوار کا کب سر پہ پڑا ہے
ہے وقت کہ کہتا ہے رکوں گا نہ میں اک پل
تُو ہے کہ ابھی بات مِری تول رہا ہے

اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے

اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے

اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور ماضی کی گپھا میں
ڈوب جائے گا
اسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا
مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں، نہ جاگے گا

روشنی بن کہ ستاروں میں رواں رہتے ہیں

روشنی بن کہ ستاروں میں رواں رہتے ہیں
جسمِ افلاک میں ہم صورتِ جاں رہتے ہیں
ہیں دل دہر میں ہم صورتِ امیدِ نہاں
مثلِ ایماں رُخِ ہستی پہ عیاں رہتے ہیں
جو نہ ڈھونڈو تو ہمارا کوئی مسکن ہی نہیں
اور دیکھو تو قریبِ رگِ جاں رہتے ہیں

جس دیوانے نے جس عہد میں بھی حق کا اظہار کیا ہے

جس دیوانے نے جس عہد میں بھی حق کا اظہار کیا ہے
باطل کی اندھی طاقت نے اس کو وقفِ دار کیا ہے
اے مجھ پر انساں کی محبت کا الزام لگانے والو
اس محبوب گنہ سے آخر میں نے کب انکار کیا ہے
دیکھ فقیہِ شہر مجھے مذہب سے کوئی بَیر نہیں ہے
سچ پوچھے تو تیری غلط تاویلوں نے بے زار کیا ہے

ترتیب نو سے بدلا نہ مے خانے کا نظام

ترتیبِ نو سے بدلا نہ مے خانے کا نظام
جو پہلے تشنہ کام تھے اب بھی ہیں تشنہ کام
آئینِ گلستاں میں تغیّر یہ کم ہے کیا؟
کانٹے بنے ہوئے ہیں گل و لالہ کے امام
آزاد زندگی کہاں اپنے نصیب میں
کل انکے تھے غلام تو آج آپکے غلام

جمال وعدۂ یک نان خشک پر رہنا

جمال وعدۂ یک نانِ خشک پر رہنا
ہمارے واسطے آساں ہے عمر بھر رہنا
سرہانہ جان کے پتھر تلک چُرا لیں گے
سفر میں جاگتے رہنا جدھر جدھر رہنا
کوئی بھی ہو اُسے لاتا ہے کم وہ خاطر میں
ہمیں بھی اپنی ہوا میں زیادہ تر رہنا

ایک فقیر چلا جاتا ہے پکی سڑک پر گاؤں کی

ایک فقیر چلا جاتا ہے پکی سڑک پر گاؤں کی
آگے راہ کا سناٹا ہے پیچھے گونج کھڑاؤں کی
آنکھوں آنکھوں ہریالی کے خواب دکھائی دینےلگے
ہم ایسے کئی جاگنے والے نیند ہوئے صحراؤں کی
اپنے عکس کو چھونے کی خواہش میں پرندہ ڈوب گیا
پھر کبھی لوٹ کر آئی نہیں دریا پر گھڑی دعاؤں کی

کیاری خالی خالی ہے

کیاری خالی خالی ہے
گہری سوچ میں مالی ہے
رنگ ہے وہ اڑنے والا
آنکھ وہ بھولنے والی ہے
اُکتا کر تنہائی سے
اک تصویر بنا لی ہے

Tuesday 17 June 2014

جنازے ڈھو رہے ہیں ہم شکستہ خستہ و ماندہ

جنازے ڈھو رہے ہیں ہم، شکستہ، خستہ و ماندہ
نہ ہم سے زندگی نادم، نہ ہم سے موت شرمندہ
ہماری جا نمازوں پر سلگتے ہیں سجودِ غم
دکھوں کے سرخ انگارے جبینوں پر ہیں تابندہ
لہو اپنے جگر گوشوں کا پھیلا ہے جن آنکھوں میں
وہاں سب کچھ گزشتہ ہے، نہ موجودہ نہ آئندہ

بلا کی تمکنت سے اب سیاہی بولتی ہے

بلا کی تمکنت سے اب سیاہی بولتی ہے
ہماری چُپ سے شہ پا کر تباہی بولتی ہے
نوائے دیدۂ بینا کو دل ترسے ہوئے ہیں
ہمارے منبروں سے کم نگاہی بولتی ہے
یقیں آتا نہیں ہے اپنے لہجے پر کبھی تو
یہ ہم کب ہیں، ہماری عذر خواہی بولتی ہے

Monday 16 June 2014

کوئی سخن برائے قوافی نہیں ‌کہا

کوئی سخن برائے قوافی نہیں ‌کہا
اک شعر بھی غزل میں اضافی نہیں‌ کہا
ہم اہلِ صِدق جرم پہ نادم نہیں رہے
مر مِٹ گئے پہ حرفِ معافی نہیں‌ کہا
آشوبِ‌ زندگی تھا کہ اندوہِ عاشقی
اک غم کو دوسرے کی تلافی نہیں‌ کہا

نہ شب و روز ہی بدلے ہیں نہ حال اچھا ہے

نہ شب و روز ہی بدلے ہیں نہ حال اچھا ہے
کِس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے
ہم کہ دونوں کے گرفتار رہے، جانتے ہیں
دامِ دنیا سے کہیں زلف کا جال اچھا ہے
میں نے پوچھا تھا کہ آخر یہ تغافل کب تک
مسکراتے ہوئے بولے کہ سوال اچھا ہے

تجھے کہنا ہے کچھ مگر خاموش

تجھے کہنا ہے کچھ مگر خاموش
دیکھ اور دیکھ کے گزر خاموش
یوں ترے راستے میں‌ بیٹھا ہوں
جیسے اک شمعِ رہگزر خاموش
تُو جہاں ایک بار آیا تھا
ایک مدت سے ہے وہ گھر خاموش

تو اسیر بزم ہے ہم سخن تجھے ذوق نالۂ نے نہیں

تو اسیرِ بزم ہے ہم سخن! تجھے ذوقِ نالۂ نے نہیں
ترا دل گداز ہو کس طرح، یہ ترے مزاج کی لے نہیں
ترا ہر کمال ہے ظاہری، ترا ہر خیال ہے سرسری
کوئی دل کی بات کروں تو کیا، ترے دل میں آگ تو ہے نہیں
جسے سن کے روح مہک اٹھے، جسے پی کے درد چہک اٹھے
ترے ساز میں وہ صدا نہیں، ترے مے کدے میں وہ مے نہیں

Sunday 15 June 2014

تیرے چہرے کی طرح اور مرے سینے کی طرح

تیرے چہرے کی طرح اور مرے سینے کی طرح
میرا ہر شعر دمکتا ہے نگینے کی طرح
پھول جاگے ہیں کہیں تیرے بدن کی مانند
اوس مہکی ہے کہیں تیرے پسینے کی طرح
اے مجھے چھوڑ کے طوفان میں، جانے والی
دوست ہوتا ہے تلاطم میں سفینے کی طرح

وہ عہد عہد ہی کیا جسے نبھاؤ بھی

وہ عہد عہد ہی کیا جسے نبھاؤ بھی
ہمارے وعدۂ الفت کو بھول جاؤ بھی
بھلا کہاں کے ہم ایسے گمان والے ہیں
ہزار بار ہم آئیں، ہمیں بلاؤ بھی
بگڑ چلا ہے بہت رسمِ خود کشی کا چلن
ڈرانے والو! کسی روز کر دکھاؤ بھی

رقص میں ہے سارا جہاں

فلمی گیت

رقص میں ہے سارا جہاں
دھوم ہے یہ آج یہاں
آیا ہے وہ شہہِ خُوباں

چاند نیا رات نئی، چھیڑ نئی داستاں
راگ بھی ہے، رنگ بھی ہے، حُسن بھی ہے گُل فشاں
بزم جمی، شمعیں جلی، زندگی ہے شادماں
آیا ہے وہ شہہِ خُوباں

زندگی میں ایک پل بھی چین آئے ناں

فلمی گیت

زندگی میں ایک پل بھی چین آئے ناں
اس جہاں میں کاش کوئی دل لگائے ناں
ہے یہی غم کا فسانہ جل چکا ہے آشیاں
ہے اندھیرا ہی اندھیرا، ہائے جاؤں کہاں
آرزو کا اک دِیا بھی جگمگائے ناں

اس جہاں میں کاش کوئی دل لگائے ناں
دل ہے ویراں غم کے مارے

کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں

فلمی گیت

کہاں تک سنو گے، کہاں تک سناؤں
ہزاروں ہی شکوے ہیں کیا کیا سناؤں
حضور آپ پر اک جہاں کی نظر ہے
نگاہِ کرم سے بھی مجھ کو یہ ڈر ہے
جہاں کی نظر میں کہیں آ نہ جاؤں
کہاں تک سنو گے، کہاں تک سناؤں

دل کا دیا جلایا میں نے دل کا دیا جلایا

فلمی گیت

دل کا دیا جلایا میں نے دل کا دیا جلایا
تجھ کو کہیں نہ پایا
کہیں نہ بہلا دل بے چارہ
کہیں ملا نہ مجھ کو سہارہ
آس کے تارے ڈوبے سارے
گھور اندھیرا چھایا
دل کا دیا جلایا، میں نے دل کا دیا جلایا

رم جھم رم جھم پڑے پھوار تیرا میرا نت کا پیار

فلمی گیت

رِم جِھم رِم جِھم پڑے پھوار، تیرا میرا نِت کا پیار
جھن جھن باجے دل کے تار، تیرا میرا نِت کا پیار
آئے میرے پاس تو ایسے دور کبھی نہ جائے
مرجھائیں نہ کِھِل کے کلیاں ایسی بھی رُت آئے
آئے نہ پت جھڑ رہے بہار، تیرا میرا نِت کا پیار
آ بچپن کے بچھڑے ساتھی، کیوں مجھ کو ترسائے
عمر گزاری رو رو میں نے، کاہے دیر لگائے

آ جا میری برباد محبت کے سہارے

فلمی گیت

آ جا، آ جا
آ جا میری برباد محبت کے سہارے
ہے کون جو بگڑی ہوئی تقدیر سنوارے
آئے بھی ناں تھے، خشک ہوئے آنکھوں میں آنسو
نکلے بھی ناں تھے لٹ گئے ارمان بیچارے
ہے کون جو بگڑی ہوئی تقدیر سنوارے

جواں ہے محبت حسیں ہے زمانہ

جواں ہے محبت حسیں ہے زمانہ

فلمی گیت

جواں ہے محبت حسیں ہے زمانہ
لٹایا دل نے خوشی کا یہ خزانہ
محبت کریں، خوش رہیں مسکرائیں
نہ سوچیں ہمیں کیا کہے گا زمانہ
جواں ہے محبت حسیں ہے زمانہ

آواز دے کہاں ہے دنیا مری جواں ہے

فلمی گیت

آواز دے کہاں ہے، دنیا مری جواں ہے
آباد میرے دل میں، امید کا جہاں ہے
آ، رات جا رہی ہے
یوں، جیسے چاندنی کی بارات جا رہی ہے
چلنے کو اب فلک سے تاروں کا کارواں ہے
ایسے میں تُو کہاں ہے، دنیا مری جواں ہے
آواز دے کہاں ہے

جان بہاراں رشک چمن

فلمی گیت

جانِ بہاراں، رشکِ چمن
غُنچہ دہن، سیمیں بدن
اے جانِ من! جانِ بہاراں
جنت کی حوریں، تجھ پہ فدا
رفتار جیسے، موجِ صبا
رنگیں ادا، توبہ شِکن
اے جانِ من! جانِ بہاراں

Wednesday 11 June 2014

نظر اٹھائیں تو کیا کیا فسانہ بنتا ہے

نظر اٹھائیں تو کیا کیا فسانہ بنتا ہے
سو پیش یار نگاہیں جھکانا بنتا ہے
وہ لاکھ بے خبر و بے وفا سہی، لیکن
طلب کیا ہے گر اس نے تو جانا بنتا ہے
رگوں تلک اتر آئی ہے ظلمتِ شبِ غم
سو اب چراغ نہیں، دل جلانا بنتا ہے

عشق سچا ہے تو کیوں ڈرتے جھجکتے جاویں

عشق سچا ہے تو کیوں ڈرتے جھجکتے جاویں
آگ میں بھی وہ بلائے تو لپکتے جاویں
کیا ہی اچھا ہو کہ گِریہ بھی چلے، سجدہ بھی
میرے آنسو، تِرے پیروں پہ ٹپکتے جاویں
تُو تو نعمت ہے سو شُکرانہ یہی ہے تیرا
پلکیں جھپکائے بِنا ہم تجھے تکتے جاویں

قلم: صفحۂ کاغذ پہ جب موتی لٹاتا ہے قلم

قلم

صفحۂ کاغذ پہ جب موتی لٹاتا ہے قلم
ندرتِ افکار کے جوہر دکھاتا ہے قلم
آنکھ کی جھپکی میں ہو جاتا ہے تیغِ بے پناہ
آنِ واحد میں حریفوں کو جھکاتا ہے قلم
آندھیوں کا سَیل بن کر عرصۂ پیکار میں
زلزلوں کے روپ میں محلوں کو ڈھاتا ہے قلم

دس سال قید و بند میں دفنا چکا ہوں میں

دس سال قید و بند میں دفنا چکا ہوں میں
یہ خدمتِ وطن کا صِلہ پا چکا ہوں میں
برطانیہ سے روز نبرد آزما رہا ہوں میں
اس جرمِ بے خطا کی سزا پا چکا ہوں میں
کوہِ ندا ہوں مثلِ برق پسِ پردۂ سحاب
ظلمات روزگار کو لرزا چکا ہوں میں

دولت دہر سب لٹائی ہے

دولتِ دہر سب لٹائی ہے
میں نے دل کی کمائی کھائی ہے
ایک لمحے کو تیر کرنے میں
میں نے اک زندگی گنوائی ہے
وہ جو سرمایۂ دل و جاں تھی
اب وہی آرزو پرائی ہے

عجب ایک شور سا برپا ہے کہیں

عجب ایک شور سا برپا ہے کہیں
کوئی خاموش ہو گیا ہے کہیں
ہے کچھ ایسا کہ جسے یہ سب کچھ
اب سے پہلے ہو چکا ہے کہیں
جو یہاں سے کہیں نہ جاتا تھا
وہ یہاں سے چلا گیا ہے کہیں

خواب کے رنگ دل و جاں میں سجائے بھی گئے

خواب کے رنگ دل و جاں میں سجائے بھی گئے
پھر وہی رنگ بہ صد طور جلائے بھی گئے
انہیں شہروں کو شتابی سے لپیٹا بھی گیا
جو عجب شوق فراخی سے بچھائے بھی گئے
بزمِ شوق کا کسی کی کہیں کیا حال، جہاں
دل جلائے بھی گئے اور بجھائے بھی گئے

زلف پیچاں کے خم سنوارے ہیں

زلفِ پیچاں کے خم سنوارے ہیں
مجھ کو پھر پیش نئے اشارے ہیں
آج وہ بھی نظر نہیں آتے
کل جو کہتے تھے، ہم تمہارے ہیں
ہم نشیں اک تیرے نہ ہونے سے
بڑی مشکل سے دن گزارے ہیں

کیسی مہک کہاں کا کوئی پھول باغ میں

کیسی مہک کہاں کا کوئی پھول باغ میں
بس رنگِ بے وفائی ہے مقبول باغ میں
آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کے نکلنا پڑا مجھے
اک یاد نے اڑائی بہت دھول باغ میں
تتلی کو ڈھلتے دیکھنا جگنو کے رُوپ میں
میرا یہی ہے روز کا معمول باغ میں

جانے کس زخم کی نسبت سے مجھے دیکھتا ہے

جانے کس زخم کی نسبت سے مجھے دیکھتا ہے
وہ غزال, آج بھی وحشت سے مجھے دیکھتا ہے
میرے چہرے میں کسی اور کا چہرہ تو نہیں
جانے وہ کس کی رعایت سے مجھے دیکھتا ہے
بعض اوقات میں تصویر سا ہو جاتا ہوں
بعض اوقات وہ حسرت سے مجھے دیکھتا ہے

نصیحت روز بکتی ہے عقیدت روز بکتی ہے

نصیحت روز بکتی ہے عقیدت روز بکتی ہے
ہمارے شہر میں لوگو! محبت روز بکتی ہے
امیرِ شہر کے ڈر کا ابھی محتاج ہے مذہب
ابھی مُلا کے فتووں میں شریعت روز بکتی ہے
ہمارے خون کو بھی وہ کسی دن بیچ ڈالیں گے
خریداروں کے جُھرمٹ میں عدالت روز بکتی ہے

موسم کرب انتظار بھی جھوٹ

موسمِ کربِ انتظار بھی جھوٹ
دل نہ مانے تو وصلِ یار بھی جھوٹ
موت، تیری طلب بھی لغزشِ لب
زندگی ، تیرا اعتبار بھی جھوٹ
وسعتِ داستانِ شوق غلط
کوششِ حرفِ اختصار بھی جھوٹ

Sunday 8 June 2014

تمہیں کیا فکر کیا اندیشۂ جاں ہم جو بیٹھے ہیں

تمہیں کیا فکر کیا اندیشۂ جاں ہم جو بیٹھے ہیں
کہاں جائیں گے دنیا بھر کے طوفاں ہم جو بیٹھے ہیں
سحر کے قافلو! تم اپنی اپنی راہ پر جاؤ
یہیں رہ جائے گی شامِ غریباں ہم جو بیٹھے ہیں
دکانِ شاعری میں اک سے اک رمزِ نہاں لے کر
بِکے گا اس کا دِین اور اس کا ایماں ہم جو بیٹھے ہیں

تلاش: آج کیوں میرے شب و روز ہیں محروم گداز

تلاش

آج کیوں میرے شب و روز ہیں محرومِ گداز
اے مری روح کے نغمے، مرے دل کی آواز
اک نہ اک غم ہے نشاطِ سحر و شام کے ساتھ
اور اس غم کا مفہوم نہ مقصد نہ جواز
میں تو اقبال کی چوکھٹ سے بھی مایوس آیا
میرے اشکوں کا مداوا، نہ بدخشاں نہ حجاز

منزل منزل: بہت بڑھنے لگے تھے دعوائے دیر و حرم لوگو

منزل منزل

بہت بڑھنے لگے تھے دعوائے دیر و حرم لوگو
غنیمت ہیں ہمارے شہر میں اس کے قدم لوگو
کبھی دیکھا ہے اس صورت کا کوئی آدمی تم نے
بزرگو، ناصحو، عالی مقامو، محترم لوگو
جسے کل تک حیا سے بات کرنا بھی نہ آتا تھا
ذرا ہم بھی تو دیکھیں اس کا اندازِ سِتم لوگو

Saturday 7 June 2014

ہم اپنی ذات کے کافر

ہم اپنی ذات کے کافر
ہم اپنی کم نگاہی کا
عجب اظہار کرتے ہیں
کہ جو آنکھوں سے اوجھل ہو
اسے تسلیم کرنے سے
سدا انکار کرتے ہیں

وہی گردشیں وہی پیچ و خم ترے بعد بھی

وہی گردشیں وہی پیچ و خم تِرے بعد بھی
وہی حوصلے مِرے دم بدم تِرے بعد بھی
تِرے ساتھ تھی تِری ہر جفا مجھے معتبر
تیرے سارے غم مجھے محترم تِرے بعد بھی
تِرے غم سے ہے مِری ہر خوشی میں وقار سا
مِرے حال پر ہیں تِرے کرم تِرے بعد بھی

Monday 2 June 2014

ریت پر سفر کا لمحہ: کبھی ہم خوبصورت تھے

ریت پر سفر کا لمحہ

کبھی ہم خوبصورت تھے
کتابوں میں بسی خوشبو کی صورت
سانس ساکن تھی
بہت سے ان کہے لفظوں سے تصویریں بناتے تھے
پرندوں کے پروں پر نظم لکھ کر
دور کی جھیلوں میں بسنے والے لوگوں کو سناتے تھے

سفر کی خواہش: ہوا نامہ بر ہے

سفر کی خواہش

ہوا نامہ بر ہے
تو میں تتلیوں کے پروں پر لکھوں
کہی ان کہی داستاں
سُہانی رُتوں کی ہری دھوپ اوڑھے ہوئے
تری دہلیز پر بیٹھ جاؤں، کہوں

ہم کو تنہا تنہا چھوڑ کے کس نگری کو چلتے ہو

ہم کو تنہا تنہا چھوڑ کے کس نگری کو چلتے ہو
چُپ چُپ چلنے والے لمحو! ٹھہرو ہم بھی چلتے ہیں
اپنی یادوں میں بسا رکھی ہیں کیا کیا صورتیں
سنگدل، گل رو، سمن بر، شعلہ آسا صورتیں
اور ہوں گے جن کے سینے میں اجالا کر گئیں
ہم کو یارو! دے گئیں داغِ تمنا صورتیں

درد کا ثمر: اے دلِ درد آشنا

درد کا ثمر

اے دلِ درد آشنا
خانۂ زنجیر کی خاموشئ کُلفت فزا
جاگتی سڑکوں کے اس شورِ عبث سے کتنی بہتر تھی
کہ جیسے میرے ہی خوابوں کی اک تعبیر ہو
کون سی دنیا سے امڈا ہے

ہری رتوں کی صدا پہ

ہری رُتوں کی صدا پہ

ہری رُتوں کی صدا پہ ہم اپنے گھر سے نکلے
تو ساری یادوں کا سر برہنہ جلوس
میلے لباس کی طرح تن سے اترا
سفر کے پہلے قدم میں دیکھا
تو رنج و راحت کے زاویئے سب بدل گئے تھے

کتبہ: تیرا نوحہ کون لکھے گا

 کتبہ
تیرا نوحہ کون لکھے گا
سرد چٹانوں کی آنکھوں میں
تُو نے ان دیکھے میں
اپنے جیون کا دکھ دیکھ لیا تھا
اندھی چاپ کی چپ کا ہالہ
خالی کمروں کی دیواریں چاٹ رہا تھا

میری عمر کا سرکش گھوڑا

میری عُمر کا سرکش گھوڑا
چلتے چلتے تھک جائے گا
اپنے لہو میں سورج، ستارے اور دھرتی بہہ جائیں گے
میں صدیوں کی نیندیں اوڑھ کے سو جاؤں گا
رُت کا فسوں، بارش کا نوحہ، بین ہوا کا
دن اور رات کے سب ہنگامے
مجھ سے جدا فریاد کریں گے

ہنستے بولتے لوگ بھی ہم کو حیراں حیراں تکتے ہیں

ہنستے بولتے لوگ بھی ہم کو حیراں حیراں تکتے ہیں
تُو ہی بتا اے راہ تمنا! ہم کس دیس سے آئے ہیں
تم اِک چاک گریباں دیکھ کے ہم کو رُسوا کرنے لگے
اچھا کیا جو ہم نے تم سے دل کے چاک چھپائے ہیں
چین کہاں لینے دیتی ہے درد کی میٹھی میٹھی آگ
ہم نے چھپ کر دامنِ شب میں کتنے اشک بہائے ہیں

ہم بھٹکتے ہیں خلاؤں میں صدا کی صورت

ہم بھٹکتے ہیں خلاؤں میں صدا کی صورت
کون سنتا ہے ہمیں حرفِ دعا کی صورت
دل کے صحراؤں میں گونجی ہے دعا زمزم کی
یا نبیؐ تیری شفا برسے گھٹا کی صورت
تیرے انفاس میں چمکا ہے سماوات کا نُور
تیری صورت میں نظر آئی خدا کی صورت

ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں تو کیا ہوا

فلمی گیت

ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں تو کیا ہوا
زندہ ہیں کتنے لوگ محبت کئے بغیر

گزرے دنوں میں جو کبھی گونجے تھے قہقہے
اب اپنے اختیار میں وہ بھی نہیں رہے
قسمت میں رہ گئی ہیں جو آہیں تو کیا ہوا
صدمہ یہ جھیلنا ہے شکایت کئے بغیر

نہ ولولے وہ رہے اور نہ وہ زمانہ رہا

نہ ولولے وہ رہے اور نہ وہ زمانہ رہا
سماں حیات کا لیکن صدا سہانا رہا
غزل حرام ہوئی اور حسن پر لگے پہرے
میرا مزاج مگر پھر بھی شاعرانہ رہا
خدا بھی مان لیا، بندگی بھی کی اس کی
تعلق اس سے مگر اپنا غائبانہ رہا

شام سفر کی حد پہ تھے دن رات کی طرح

شام سفر کی حد پہ تھے دن رات کی طرح
ہم بھی کبھی ملے تھے تضادات کی طرح​
تُو نے تو اپنے ساتھ مجھے بھی بدل دیا
میں تو نہیں تھا تیرے خیالات کی طرح
یہ پیڑ بھی عجیب ہیں ہنستے نہیں کبھی
پھولوں کو ضبط کرتے ہیں جذبات کی طرح

کھلا مہتاب بھی ٹوٹے ہوئے در کے حوالے سے

کھلا مہتاب بھی ٹوٹے ہوئے در کے حوالے سے
سمجھتا ہوں میں اشیاء کو فقط گھر کے حوالے سے
مرے مایوس ہونے سے ذرا پہلے ہی لوٹ آنا
کہ میں بھی سوچتا ہوں اب مقدر کے حوالے سے
اگر سوچا کبھی میں نے تری قامت نگاری کا
حوالہ مختلف دوں گا صنوبر کے حوالے سے

دوست کیا خوب وفاؤں کا صلہ دیتے ہیں

دوست کیا خوب وفاؤں کا صلہ دیتے ہیں
ہر نئے موڑ پہ اک زخم نیا لگا دیتے ہیں
تم سے تو خیر گھڑی بھر کی ملاقات رہی
لوگ برسوں کی رفاقت کو بھلا دیتے ہیں
کیسے ممکن ہے کہ دھواں بھی نہ ہو اور دل بھی جلے
چوٹ پڑتی ہے تو پتھر بھی صدا دیتے ہیں

آپ کو بھول جائیں ہم اتنے تو بے وفا نہیں

 فلمی گیت


آپ کو بھول جائیں ہم، اتنے تو بے وفا نہیں

آپ سے کیا گلہ کریں آپ سے کچھ گلہ نہیں


ہم تو یہ سمجھ رہے تھے یہ تم ملے پیار مل گیا

اک تیرے درد کے سوا ہم کو تو کچھ ملا نہیں

شیشۂ دل کو توڑنا اُن کا تو ایک کھیل ہے

ہم سے ہی بھول ہو گئی اُن کی کوئی خطا نہیں

ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے

فلمی گیت

مردانہ و زنانہ کرداروں کے لیے الگ الگ

ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے
لبوں پہ نغمے مچل رہے ہیں، نظر سے مستی چھلک رہی ہے
کبھی جو تھے پیار کی ضمانت، وہ ہاتھ ہیں غیر کی امانت
جو قسمیں کھاتے تھے چاہتوں کی، انہی کی نیت بہک رہی ہے

Sunday 1 June 2014

گہرائیوں میں ذہن کی گرداب سا رہا

گہرائیوں میں ذہن کی گرداب سا رہا
ساحل پہ بھی کھڑا ہوا غرقاب سا رہا
بے نام سی اک آگ جلاتی رہی مجھے
خوں کے بجائے جسم میں تیزاب سا رہا
خالی وجود ہی لئے پِھرتا رہا، مگر
کاندھوں پر عمر بھر مِرے اسباب سا رہا

زندگی جس پر ہنسے ایسی کوئی خواہش نہ کی

زندگی جس پر ہنسے ایسی کوئی خواہش نہ کی
گھاؤ سینے میں سجائے، گھر کی آرائش نہ کی
نکتہ چینی پر مری تم اتنے برگشتہ نہ ہو
کہہ دیا جو کچھ بھی دل میں تھا مگر سازش نہ کی
ایک سے حالات نظر آئے ہر دور میں
رک گئے میرے قدم یا وقت نے گردش نہ کی

نئے موسم بڑے بے درد نکلے

نئے موسم بڑے بے درد نکلے
ہرے پیڑوں کے پتے زرد نکلے
دلوں کی برف پہنچی عارضوں تک
یہ انگارے بھی کتنے سرد نکلے
وہ کیا تشخیص کرتے میرے غم کی
معالج خود سراپا درد نکلے

ہر لمحہ تیری یاد کی خوشبو ہے میرے پاس

ہر لمحہ تیری یاد کی خُوشبُو ہے میرے پاس
اس شہر میں تنہا ہوں مگر تُو ہے میرے پاس
جس شکل کو چاہوں تیری تصویر میں بدل دوں
یہ حُسنِ تصور ہے کہ جادُو ہے میرے پاس
رکھتا ہے سدا جو میری راتوں کو معطر
وہ تیرے بدن کا گلِ خُوشبُو میرے پاس

ان سے ہو روز ملاقات ضروری تو نہیں

ان سے ہو روز ملاقات ضروری تو نہیں
ہو ملاقات میں کچھ بات ضروری تو نہیں
جام چھلکاتی ہو برسات ضروری تو نہیں
مے کشی رندِ خرابات! ضروری تو نہیں​
یوں تو ہر رات کی قسمت میں ہے سحر لیکن
ہاں مگر ہجر کی اک رات ضروری تو نہیں

جو لوگ سمندر میں بھی رہ کر رہے پیاسے

جو لوگ سمندر میں بھی رہ کر رہے پیاسے
اک ابر کا ٹکڑا انہیں کیا دے گا دلاسے
مانا کہ ضروری ہے نگہبانی خودی کی
بڑھ جائے نہ انسان مگر اپنی قبا سے
برسوں کی مسافت میں وہ طے ہو نہیں سکتے
جو فاصلے ہوتے ہیں نگاہوں میں ذرا سے

سینہ دہک رہا ہو تو کیا چپ رہے کوئی

سینہ دہک رہا ہو تو کیا چپ رہے کوئی
کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی
ثابت ہوا سکونِ دل و جان نہیں کہیں
رشتوں میں ڈھونڈتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی
ترکِ تعلقات تو کوئی مسئلہ نہیں
یہ تو وہ راستہ ہے کہ چل پڑے کوئی

تھی گزشت ان کی عجیب ہی، وہ جو جان سے تھے گزر گئے

تھی گزشت اُن کی عجیب ہی، وہ جو جان سے تھے گزر گئے
ہے تمام شہر تحیّری، جو تیری گلی کے تھے، گھر گئے
شب و روز کا ہے معاملہ، نہ کوئی صِلہ، نہ کوئی گِلہ
وہ معاملہ دل و جان کا تھا، کبھی جی اُٹھے کبھی مر گئے
تمہیں اپنا حال سُنائیں کیا، تمہیں رمز کوئی بتائیں کیا
وہ چلا گیا تو چلا گیا، وہ جو آ گیا تو سنور گئے

ماں میں آیا تھا

ماں میں آیا تھا

تری پیروں کی مٹی کو، میں آنکھوں سے لگانے کو
وصل کے گیت گانے کو، ہجر کے گیت گانے کو
ترے جہلم کے پانی میں نہانے کو
ترے میلوں کے ٹھیلوں میں
جھمیلوں میں، میں خوش ہونے اور ہنسنے کو اور رونے کو

موجہ گل کو ہم آواز نہیں کر سکتے

موجۂ گل کو ہم آواز نہیں کر سکتے
دِن تیرے نام سے آغاز نہیں کر سکتے
اس چمن زار میں ہم سبزۂ بیگانہ سہی
آپ کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے
عشق کرنا ہے تو پھر سارا اثاثہ لائیں
اس میں تو کچھ بھی پس انداز نہیں کر سکتے

باب حیرت سے مجھے اذن سفر ہونے کو ہے

بابِ حیرت سے مجھے اِذنِ سفر ہونے کو ہے
تہنیت اے دل کہ اب دیوار در ہونے کو ہے
کھول دیں زنجیرِ در، حوض کو خالی کریں
زندگی کے باغ میں اب سہ پہر ہونے کو ہے
موت کی آہٹ سنائی دے رہی ہے دِل میں کیوں
کیا محبت سے بہت خالی یہ گھر ہونے کو ہے

دل کو مہر و مہ و انجم کے قریں رکھنا ہے

دل کو مہر و مہ و انجم کے قریں رکھنا ہے
اِس مسافر کو مگر خاک نشیں رکھنا ہے
سہہ لیا بوجھ بہت کوزہ و چوب و گِل کا
اب یہ اسبابِ سفر ہم کو کہیں رکھنا ہے
ایک سیلاب سے ٹوٹا ہے ابھی ظلم کا بند
ایک طوفاں کو ابھی زیرِ زمیں رکھنا ہے