Wednesday 18 June 2014

بیٹھا ہوں وقف ماتم ہستی مٹا ہوا

بیٹھا ہوں وقف ماتم ہستی مٹا ہوا
زہرِ وفا ہے گھر کی فضا میں گھلا ہوا
خود اسکے پاس جاؤں نہ اسکو بلاؤں پاس
پایا ہے وہ مزاج کہ جینا بلا ہوا
اس پر غلط ہے عشق میں الزامِ دشمنی
قاتل ہے میرے حجلۂ جاں میں چھپا ہوا
ہیں جسم و جاں بہم یہ مگر کس کو خبر ہے
کس کس جگہ سے دامن دل ہے سِلا ہوا
ہے راہوارِ شوق پہ آسیبِ بے دلی
رکھا ہے کب سے سامنے ساغر بھرا ہوا
حاصل ہے جس کو عرشؔ فضاؤں میں اختیار
وہ دل کے ساتھ کھیل رہا ہے تو کیا ہوا

عرش صدیقی

No comments:

Post a Comment