Saturday 21 June 2014

میں نے پوچھا پہلا پتھر مجھ پر کون اٹھائے گا

میں نے پوچھا پہلا پتھر مجھ پر کون اٹھائے گا
دنیا بولی سب سے پہلے جو تجھ سے شرمائے گا
پوچھ سکے تو پوچھے کوئی روٹھ کے جانے والوں سے
روشنیوں کو میرے گھر کا رستہ کون بتائے گا
ڈالی ہے اس خوش فہمی نے عادت مجھ کو سونے کی
نکلے گا جب سورج تو خود مجھ کو آن جگائے گا
لوگو! میرے ساتھ چلو تم جو کچھ ہے وہ آگے ہے
پیچھے مڑ کر دیکھنے والا پتھر کا ہو جائے گا
دنیا میں ہنس کر ملنے والے چہرے صاف بتاتے ہیں
ایک بھیانک سپنا مجھ کو ساری رات ڈرائے گا
میرے بعد وفا کا دھوکا اور کسی سے مت کرنا
گالی دے گی دنیا تجھ کو، سر میرا جھک جائے گا
سوکھ گئی جب اُنکی آنکھوں میں پیار کی نیلی جھیل قتیلؔ
تیرے درد کا زرد سمندر کا ہے شور مچائے گا

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment