Saturday 21 June 2014

کیا جانے کس خمار میں کس جوش میں گرا

کیا جانے کس خمار میں کس جوش میں گرا
وہ پھل شجر سے جو مری آغوش میں گرا
کچھ دائرے سے بن گئے سطحِ خیال پر
جب کوئی پھول ساغرِ مے نوش میں گرا
باقی رہی نہ پھر وہ سنہری لکیر بھی
تارا جو ٹوٹ کر شبِ خاموش میں گرا
اڑتا رہا تو چاند سے یارا نہ تھا مرا
گھائل ہوا تو وادئ گل پوش میں گرا
بے آبرو نہ تھی کوئی لغزش مری قتیلؔ
میں جب گرا جہاں بھی گرا ہوش میں گرا

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment