Sunday 1 June 2014

باب حیرت سے مجھے اذن سفر ہونے کو ہے

بابِ حیرت سے مجھے اِذنِ سفر ہونے کو ہے
تہنیت اے دل کہ اب دیوار در ہونے کو ہے
کھول دیں زنجیرِ در، حوض کو خالی کریں
زندگی کے باغ میں اب سہ پہر ہونے کو ہے
موت کی آہٹ سنائی دے رہی ہے دِل میں کیوں
کیا محبت سے بہت خالی یہ گھر ہونے کو ہے
اک چمک سی تو نظر آئی ہے اپنی خاک میں
مجھ پہ بھی شاید توجہ کی نظر ہونے کو ہے
گمشدہ بستی، مسافر لوٹ کر آتے نہیں
معجزہ ایسا مگر بارِ دگر ہونے کو ہے
رونقِ بازارِ محفل کم نہیں ہے آج بھی
سانحہ اس شہر میں کوئی مگر ہونے کو ہے
گھر کا سارا راستہ اس سرخوشی میں کٹ گیا
اس سے اگلے موڑ کوئی ہمسفر ہونے کو ہے

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment