Saturday 21 June 2014

ہوئی نہ راہ میں حائل شکستہ پائی مری

ہوئی نہ راہ میں حائل شکستہ پائی مری
قتیلؔ اب بھی ہے اِک شخص تک رسائی مری
اُچھالتے ہیں مرے ذکر سے وہ نام اپنا
پسند ہے مرے یاروں کو ہر برائی مری
گنوا رہا تھا میں کتنے ثواب دنیا کے
جنابِ عشق نے فرمائی پیشوائی مری
اب اور لوگوں میں جائے وہ غم غلط کرنے
سُنا ہے اس کو گوارا نہیں جدائی مری
ہزار بار جو بدنام کر چکا ہے مجھے
پھر اُس کی کھوج میں نکلی ہے پارسائی مری
بھٹک رہا ہوں میں اِک منزل زیاں کے لیے
کرو گے راہزنو! تم ہی رہنمائی مری
تمام بھید مری زندگی کے کھول دئیے
جو مطربہ نے کسی کو غزل سنائی مری
بس ایک بار شکن پڑ گئی تھی ماتھے پر
منانے مجھ کو جوانی کبھی نہ آئی مری
قتیلؔ شکر کروں، جب بھی مجھ پہ تیر چلے
یہ فیضِ عشق، طبیعت ہے کربلائی مری

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment