ایک فقیر چلا جاتا ہے پکی سڑک پر گاؤں کی
آگے راہ کا سناٹا ہے پیچھے گونج کھڑاؤں کی
آنکھوں آنکھوں ہریالی کے خواب دکھائی دینےلگے
ہم ایسے کئی جاگنے والے نیند ہوئے صحراؤں کی
اپنے عکس کو چھونے کی خواہش میں پرندہ ڈوب گیا
پھر کبھی لوٹ کر آئی نہیں دریا پر گھڑی دعاؤں کی
ڈار سے بچھڑا ہوا کبوتر، شاخ سے ٹوٹا ہوا گلاب
آدھا دھوپ کا سرمایہ ہے، آدھی دولت چھاؤں کی
اُس رَستے پر پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمالؔ
ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑی سیدھے پاؤں کی
جمال احسانی
آگے راہ کا سناٹا ہے پیچھے گونج کھڑاؤں کی
آنکھوں آنکھوں ہریالی کے خواب دکھائی دینےلگے
ہم ایسے کئی جاگنے والے نیند ہوئے صحراؤں کی
اپنے عکس کو چھونے کی خواہش میں پرندہ ڈوب گیا
پھر کبھی لوٹ کر آئی نہیں دریا پر گھڑی دعاؤں کی
ڈار سے بچھڑا ہوا کبوتر، شاخ سے ٹوٹا ہوا گلاب
آدھا دھوپ کا سرمایہ ہے، آدھی دولت چھاؤں کی
اُس رَستے پر پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمالؔ
ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑی سیدھے پاؤں کی
جمال احسانی
No comments:
Post a Comment