Wednesday 18 June 2014

ایک فقیر چلا جاتا ہے پکی سڑک پر گاؤں کی

ایک فقیر چلا جاتا ہے پکی سڑک پر گاؤں کی
آگے راہ کا سناٹا ہے پیچھے گونج کھڑاؤں کی
آنکھوں آنکھوں ہریالی کے خواب دکھائی دینےلگے
ہم ایسے کئی جاگنے والے نیند ہوئے صحراؤں کی
اپنے عکس کو چھونے کی خواہش میں پرندہ ڈوب گیا
پھر کبھی لوٹ کر آئی نہیں دریا پر گھڑی دعاؤں کی
ڈار سے بچھڑا ہوا کبوتر، شاخ سے ٹوٹا ہوا گلاب
آدھا دھوپ کا سرمایہ ہے، آدھی دولت چھاؤں کی
اُس رَستے پر پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمالؔ
ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑی سیدھے پاؤں کی

جمال احسانی

No comments:

Post a Comment