میری عُمر کا سرکش گھوڑا
چلتے چلتے تھک جائے گا
اپنے لہو میں سورج، ستارے اور دھرتی بہہ جائیں گے
میں صدیوں کی نیندیں اوڑھ کے سو جاؤں گا
رُت کا فسوں، بارش کا نوحہ، بین ہوا کا
دن اور رات کے سب ہنگامے
مجھ سے جدا فریاد کریں گے
جانے والے، آنے والے
مجھ کو بھولنے کی خواہش میں
مجھ کو اکثر یاد کریں گے
پھر صدیوں کے صحراؤں میں
میری صورت
آنے والے، جانے والے کھو جائیں گے
پھر آواز کی آہٹ سُن کر
صدیوں کے در کھل جائیں گے
میں اعمال کا میلا کُرتا، اوڑھ کے
زندہ ہو جاؤں گا
تیز ہوا میں
تپتی دھوپ میں
جلتی بارش کے طوفان میں
میں سوچوں گا
کیا سوچوں گا
سوچوں گا
سوچ کے دریا سے اُبھرے گا ایک سفینہ
شہرِ مدینہ
احمد شمیم
No comments:
Post a Comment