Monday 2 June 2014

ہم کو تنہا تنہا چھوڑ کے کس نگری کو چلتے ہو

ہم کو تنہا تنہا چھوڑ کے کس نگری کو چلتے ہو
چُپ چُپ چلنے والے لمحو! ٹھہرو ہم بھی چلتے ہیں
اپنی یادوں میں بسا رکھی ہیں کیا کیا صورتیں
سنگدل، گل رو، سمن بر، شعلہ آسا صورتیں
اور ہوں گے جن کے سینے میں اجالا کر گئیں
ہم کو یارو! دے گئیں داغِ تمنا صورتیں
جب بھی تنہائی کے آنگن میں سنی قدموں کی چاپ
درد بن بن کر ابھر آئیں سراپا صورتیں
سوچ کے صحرا میں مرجھایا ہوا نخلِ خیال
چھوڑ کے ایسے گئی ہیں ہم کو تنہا صورتیں
خاک میں مِلتے دیکھے ہم نے کیا کیا راج دُلارے لوگ
کیسی سُندر سندر کلیاں، کیسے پیارے پیارے لوگ
میرؔ ملیں تو ان سے کہیو اب بھی اس دکھ نگری میں
تیرے بہانے، اپنے فسانے، کہتے ہیں دکھیارے لوگ
دھوپ کو اپنے گھروندوں میں سمیٹے رکھو
جانے کب برف پہاڑوں سے اترنا چاہے
کون تجھ کو میرے ہونے سے رہائی دے گا
جو ملے گا میرا ہم شکل دکھائی دے گا

احمد شمیم

No comments:

Post a Comment