Tuesday 23 August 2016

اک مے بے نام جو اس دل کے پیمانے میں ہے​

اک مۓ بے نام، جو اس دل کے پیمانے میں ہے​
وہ کسی شیشے میں ہے ساقی، نہ میخانے میں ہے​
پوچھنا کیا، کتنی وسعت میرے پیمانے میں ہے ​
سب الٹ دے ساقیا! جتنی بھی میخانے میں ہے​
یوں تو ساقی، ہر طرح کی، تیرے میخانے میں ہے ​
وہ بھی تھوڑی سی، جو ان آنکھوں کے پیمانے میں ہے​

پیوست دل میں جب ترا تیرِ نظر ہوا

پیوست دل میں جب تِرا تیرِِ نظر ہوا 
کس کس ادا سے شکوۂ دردِ جگر ہوا
کچھ داغِ دل سے تھی مجھے امید عشق میں
سو رفتہ رفتہ وہ بھی چراغِ سحر ہوا 
تھم تھم کے انکے کان میں پہنچی صدائے دل 
اڑ اڑ کے رنگِ چہرہ مِرا نامہ بر ہوا 

دل کی خبر نہ ہوش کسی کو جگر کا ہے

دل کی خبر نہ ہوش کسی کو جگر کا ہے
اللہ اب یہ حال تمہاری نظر کا ہے
اس سمت دیکھتی بھی نہیں رخ جدھر کا ہے
سب سے جدا اصول تمہاری نظر کا ہے
سب رفتہ رفتہ داغ الم دے گئے، مگر
محفوظ ہے وہ زخم جو پہلی نظر کا ہے

زخم وہ دل پہ لگا ہے کہ دکھائے نہ بنے

زخم وہ دل پہ لگا ہے کہ دکھائے نہ بنے 
اور چاہیں کہ چھپا لیں تو چھپائے نہ بنے 
ہائے بےچارگئ عشق، کہ اس محفل میں 
سر جھکائے نہ بنے، آنکھ اٹھائے نہ بنے
یہ سمجھ لو کہ غمِ عشق کی تکمیل ہوئی 
ہوش میں آ کے بھی جب ہوش میں آئے نہ بنے 

Sunday 21 August 2016

کیا کرے گا دوسروں کو جان کر

کیا کرے گا دوسروں کو جان کر
پہلے اپنے آپ کی پہچان کر
یہ زمانہ لا ابالی کا نہیں
پھونک کر پی چھاچھ پانی چھان کر
کیوں الجھتے جا رہے ہو بار بار
دل میں آخر آئے ہو کیا ٹھان کر

بن کر مری محفل سے تو خورشید ازل جا

بن کر مِری محفل سے تو خورشیدِ ازل جا
مغرب میں اگر ڈوبے تو مشرق سے نکل جا
دریا ہے تو دریا کی طرح رہ، کہا کس نے
برسات کے نالے کی طرح بھر کے ابل جا
اے شامِ بلا،۔ شامِ مصیبت،۔ مِری شامت
کیوں سر پہ کھڑی ہے مِرے، ٹل جا ارے ٹل جا

ایک دن زندگی کے ساتھ

ایک دن زندگی کے ساتھ

یہ آغازِِ بہاراں بھی نمودِ زندگانی ہے
مِرا ماضی، وہی منظر، وہی لمحے
جنہیں میں بھول جانے کا گماں بھی کر نہیں سکتا
مِری حالت پہ ہنستے ہیں
میں ہنسنا بھول بیٹھا ہوں
مگر کچھ قہقہے جو پردۂ گوشِ سماعت پر

غموں کی دھوپ سے خود کو بچانے آئے ہیں

غموں کی دھوپ سے خود کو بچانے آئے ہیں 
ہم آج جشنِ مسرت منانے آئے ہیں 
حیات و کشمکشِ روزگار میں ہم تو
کتابِ زیست کا عنواں بتانے آئے ہیں
جلا کے خانۂ دل میں چراغ الفت کے
ہم اپنے عشق کے جلوے دکھانے آئے ہیں 

تلاش؛ اداس کمرہ ہماری حالت پہ ہنس رہا ہے

تلاش

اداس کمرہ ہماری حالت پہ ہنس رہا ہے
گھڑی کی سوئیاں
تڑپ تڑپ کر زوالِ شب کو بڑھا رہی ہیں
ہم اپنے حصے کے زخم لے کر
مہیب راہوں میں کھو گئے ہیں
اکیلے پن کا عذاب ہم پر اتر رہا ہے

لا ملے تو میرے زخم قلب مضطر کا جواب

لا ملے تو، میرے زخمِ قلبِ مضطر کا جواب
ڈھونڈ کچھ دن اے بہار اور اس گلِ تر کا جواب
اپنی ویرانی میں دونوں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں
گھر بیاباں کا بیاباں ہے، مِرے گھر کا جواب
میری خاموشی سے چلا اٹھے گا ایک دن رقیب
طعنہ زن کو آدمیت دے گی نشتر کا جواب

نام ہی رہ گیا دنیا میں وفاداری کا

نام ہی رہ گیا دنیا میں وفاداری کا
یہ زمانہ ہے تصنع کا، اداکاری کا
روز مر مر کے جئے جانے میں حاصل تھا کمال
موت نے دیکھا تماشا، مِری جیداری کا
گھر پہ روزانہ وہ آتے تھے، عیادت کیلئے
کیا سہانا تھا زمانہ مِری بیماری کا

آپ حد سے گزر گئے شاید

آپ حد سے گزر گئے شاید 
پستیوں میں اتر گئے شاید
غم، خوشی بے اثر ہیں دونوں ہی
اپنے جذبات مر گئے شاید
ہے پریشاں خیال دل جمعی
ٹوٹ کر ہم بکھر گئے شاید

بازار محبت کی تو اپنی ہی ہوا ہے

بازارِ محبت کی تو اپنی ہی ہوا ہے 
بِکتی ہی نہیں جو کبھی وہ جنسِ وفا ہے 
دشمن کو بھی ڈالے نہ خدا شک کے مرض میں 
اس کے لیے دنیا میں دوا ہے، نہ دعا ہے 
سنتا ہی نہیں وہ بتِ بے مہر کسی کی
معلوم نہیں کون سی مٹی کا بنا ہے 

Saturday 20 August 2016

اشکوں سے اپنی جھولی قدح خوار بھر چکے

اشکوں سے اپنی جھولی قدح خوار بھر چکے
یوں بھی وہ اپنی روح کو سرشار کر چکے
جن سے بچھڑ کے مرنا تھا اک بار ہی روا
ہم ان کے ساتھ رہ کے کئی بار مر چکے
اے حسنِ آگہی! تِرے عشاق کیا ہوئے
ہم دشتِ بے چراغ سے تنہا گزر چکے

گھر سے بن ٹھن کے صوفیہ نکلے

گھر سے بن ٹھن کے صوفیہ نکلے
لے کے عرشوں کا تخلیہ نکلے
دل میں شوقِ زرِ مطلب لے
آستانوں سے رُوسیہ نکلے
بے وسیلہ خدا کے طالب ہیں
تارکِ طورِ چشتیہ نکلے

وطن سے دور عزیز وطن نہیں ملتے

وطن سے دور عزیزِ وطن نہیں ملتے
محبت کے گلابی چمن نہیں ملتے
کسی کو ہوتی نہیں ہے کسی سے کچھ نسبت
دیارِ غیر میں سب کو کفن نہیں ملتے
گھُلاۓ رکھتی ہے لوگوں کو انکی تنہائی
یہاں عزیز سرِ انجمن نہیں ملتے

دیارِ شوق کے خوابیدہ راستے جاگے

دیار شوق کے خوابیدہ راستے جاگے
خدا کا شکر بہاروں کے قافلے جاگے
مٹا رہی ہیں بہاریں نقوشِ عہدِ خزاں
ہر اک چمن میں فسوں کار قہقہے جاگے
رِدائے خاک سے رفعت شعور سبزہ اٹھا
وجودِ سنگ میں اگنے کے واہمے جاگے

Wednesday 17 August 2016

ساقی پر الزام نہ آئے

ساقی پر الزام نہ آئے
چاہے تجھ تک جام نہ آئے
تیرے سوا جو کی ہو محبت
میری جوانی کام نہ آئے
جن کے لیے مر بھی گئے ہم
وہ چل کر دو گام نہ آئے

سب ہی انداز حسن پیارے ہیں

سب ہی اندازِ حسن پیارے ہیں
ہم مگر سادگی کے مارے ہیں
اس کی راتوں کا انتقام نہ پوچھ
جس نے ہنس ہنس کے دن گزارے ہیں
اے سہاروں کی زندگی والو
کتنے انسان بے سہارے ہیں

حسن کافر شباب کا عالم

حسنِ کافر شباب کا عالم
سر سے پا تک شراب کا عالم
عرق آلود چہرۂ تاباں
شبنم و آفتاب کا عالم
وہ مِری عرض شوقِ بیحد پر
کچھ حیا، کچھ عتاب کا عالم

دل کو جب دل سے راہ ہوتی ہے

دل کو جب دل سے راہ ہوتی ہے
آہ ہوتی ہے،۔۔ واہ ہوتی ہے
جو الٹ دیتی ہیں صفوں کی صفیں
اک شکستہ سی آہ ہوتی ہے
وہ بھی اک مقامِ عشق جہاں
ہر تمنا، گناہ ہوتی ہے

Tuesday 16 August 2016

دل میں مرے خیال ہے تنہا نہ آپ کا

دل میں مِرے خیال ہے تنہا نہ آپ کا
مے خانہ بنتا جاتا ہے پیمانہ آپ کا
جانا کوئی ضرور نہیں ماورائے ارض
آخر یہیں کہیں تو ہے کاشانہ آپ کا
رگ رگ میں بھرتے جاتے ہیں شعلے حیات کے
خود شمع بنتا جاتا ہے پروانہ آپ کا

حد ادب میں گردش پیمانہ کیوں رہے

حدِ ادب میں گردشِ پیمانہ کیوں رہے
دَیر و حرم کے بیچ میں میخانہ کیوں رہے
جن کو بہارِ باغ کی تھی معرفت نصیب
وہ پھول، بن کے سبزۂ بے گانہ کیوں رہے
ویرانیوں نے بڑھ کے بسا لی ہیں بستیاں
اب کوہ و دشت میں کوئی دیوانہ کیوں رہے

آ کے طوفان بلا دیکھ لے مے خانے میں

آ کے طوفانِ بلا دیکھ لے مے خانے میں
ہم سمندر کو ڈبو دیتے ہیں پیمانے میں
شان ہے موسمِ گل کی تِرے دیوانے میں
پھول ہی پھول نظر آتے ہیں ویرانے میں
رات کا رنگ اڑا جاتا ہے مے خانے میں
جیسے ہم دھوپ لیے بیٹھے ہوں پیمانے میں

نپٹیں گے دل سے معرکۂ رہ گزر کے بعد

نپٹیں گے دل سے معرکۂ رہگزر کے بعد
لیں گے سفر کا جائزہ ختمِ سفر کے بعد
اٹھنے کو ان کی بزم میں سب کی نظر اٹھی
اتنا مگر کہوں گا کہ میری نظر کے بعد
سب زور ہو رہا ہے مِری سرکشی پہ صَرف
کیا ہو گا حال دار و رسن میرے سر کے بعد

آفت ہے مصیبت ہے قیامت ہے بلا ہے

آفت ہے مصیبت ہے قیامت ہے بلا ہے
یہ عشقِ ستم گار خدا جانئے کیا ہے
سب میری خطا ہے کہ زمانہ کی ہوا ہے
دل ہے کہ اسی سوچ میں دن رات لگا ہے
سایہ سا نگاہوں میں مِری کوئ بسا ہے
للہ بتائے کوئی آخر کہ یہ کیا ہے

بے نام ہوں بے کار ہوں بدنام نہیں ہوں

بے نام ہوں، بے کار ہوں، بدنام نہیں ہوں
شاعر ہوں مگر مستِ مۓ خام نہیں ہوں
اک عمر ترے در پہ ہی سجدوں میں کٹی ہے
یہ کیسے کہا،۔۔ واقفِ اسلام نہیں ہوں
اتنا نہ ستا، دیکھ! مجھے گردشِ دوراں
کمزور ہوں،۔ شائستۂ آلام نہیں ہوں

کوچہ کوچہ نگر نگر دیکھا

کوچہ کوچہ، نگر نگر دیکھا
خود میں دیکھا، اسے اگر دیکھا
قصۂ زیست مختصر دیکھا
جیسے اک خواب رات بھر دیکھا
در ہی دیکھا نہ تُو نے گھر دیکھا
زندگی! تجھ کو خوب کر دیکھا

میں جو وحشت میں اکیلا نکلا

میں جو وحشت میں اکیلا نکلا
میرے پیچھے مِرا صحرا نکلا
جب جنوں والوں کا قصہ نکلا
سب میں اک درد کا رشتہ نکلا
میرے ہاتھوں میں لکیروں کے سوا
اے منجم! یہ بتا کیا نکلا؟

آرزوئیں ہیں پریشان، نجانے کیا ہو

آرزوئیں ہیں پریشان، نجانے کیا ہو
راستے ہو گئے ویران، نجانے کیا ہو
اپنے سائے کی طرف دیکھ کے ڈر جاتا ہے
اتنا تنہا نہ تھا انسان،۔۔۔۔ نجانے کیا ہو
سہمے سہمے سے ہیں کچھ لوگ تمناؤں سے
کہ ابھی جان نہ پہچان،۔۔ نجانے کیا ہو

ہر ایک راستہ ویراں ہو گر تو کیا کیجئے

ہر ایک راستہ ویراں ہو گر تو کیا کیجئے
امید سر بہ گریباں ہو گر تو کیا کیجئے
ہزار بار کریں لوگ عہدِ ترکِ وفا
قریب کوچۂ جاناں ہو گر تو کیا کیجئے
جو کھل کے روئیں تو دامن بھی اور دوست بھی ہیں
گھٹا گھٹا کوئی طوفاں ہو گر تو کیا کیجئے

دوستی جب کسی سے کی جائے

دوستی جب کسی سے کی جائے
دشمنوں کی بھی رائے لی جائے
موت کا زہر ہے فضاؤں میں
اب کہاں جا کے سانس لی جائے
بس اسی سوچ میں ہوں ڈوبا ہوا
یہ ندی کیسے پار کی جائے؟

نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا

نہ ہمسفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا
میں جانتا تھا کہ زہریلا سانپ بن بن کر
تِرا خلوص مِری آستیں سے نکلے گا
اسی گلی میں وہ بھوکا فقیر رہتا تھا
تلاش کیجے خزانہ یہیں سے نکلے گا

کام سب غیر ضروری ہیں جو سب کرتے ہیں

کام سب غیر ضروری ہیں جو سب کرتے ہیں
اور ہم کچھ نہیں کرتے ہیں، غضب کرتے ہیں
آپ کی نظروں میں سورج کی ہے عظمت
ہم چراغوں کا بھی اُتنا ہی ادب کرتے ہیں
ہم پہ حاکم کا کوئی حکم نہیں چلتا ہے
ہم قلندر ہیں، ”شہنشاہ“ لقب کرتے ہیں

بہت کچھ منتظر اک بات کا تھا

بہت کچھ منتظر اک بات کا تھا
کہ لمحہ لاکھ امکانات کا تھا
بچا لی تھی ضیا اندر کی اس نے
وہی اک آشنا اب رات کا تھا
رفاقت کیا کہاں کے مشترک خواب
کہ سارا سلسلہ شبہات کا تھا

اک گل تر بھی شرر سے نکلا

اک گلِ تر بھی شرر سے نکلا
بس کہ ہر کام ہنر سے نکلا
میں تِرے بعد پھر اے گمشدگی
خیمۂ گردِ سفر سے نکلا
غم نکلتا نہ کبھی سینے سے
اک محبت کی نظر سے نکلا

دیکھتا تھا میں پلٹ کر ہر آن

دیکھتا تھا میں پلٹ کر ہر آن
کس صدا کا تھا نہ جانے امکان
اس کی اک بات کو تنہا مت کر
وہ کہ ہے ربط نوا میں گنجان
ٹوٹی بکھری کوئی شے تھی ایسی
جس نے قائم کی ہماری پہچان

سفر ہے مرا اپنے ڈر کی طرف

سفر ہے مِرا اپنے ڈر کی طرف
مِری ایک ذات دِگر کی طرف
بھرے شہر میں اک بیاباں بھی تھا
اشارہ تھا اپنے ہی گھر کی طرف
مِرے واسطے جانے کیا لائے گی
گئی ہے ہوا اک کھنڈر کی طرف

نئے زمانے میں اب یہ کمال ہونے لگا

نئے زمانے میں اب یہ کمال ہونے لگا
کہ قتل کر کے بھی قاتل نہال ہونے لگا
میری تباہی کا باعث جو ہے زمانے سے
اسی کو اب میرا کاہے خیال ہونے لگا
ہوائے عشق نے بھی گل کھلائے ہیں کیا کیا 
جو میرا حال تھا وہ تیرا حال ہونے لگا

حسن جلوہ نہیں عشق کا حاصل تنہا

حسن جلوہ نہیں عشق کا حاصل تنہا
کتنے جلوؤں کو سمیٹے ہے مِرا دل تنہا
کارواں چھوٹ گیا رات کے سناٹے میں
رہ گئی ساتھ مِرے حسرتِ منزل تنہا
عزم محکم ہو تو ہوتی ہیں بلائیں پسپا
کتنے طوفاں کو پلٹ دیتا ہے ساحل تنہا

پھٹی قمیص نچی آستین کچھ تو ہے

پھٹی قمیص، نچی آستِین، کچھ تو ہے
جنوں اصولِ حیا کا امین کچھ تو ہے
لباس قیمتی رکھ کر بھی شہر ننگا ہے
ہمارے گاؤں میں موٹا مہِین کچھ تو ہے
کدھر کو بھاگ رہی ہے اسے خبر ہی نہیں
ہماری نسل بلا کی ذہین کچھ تو ہے

چاندنی چھت پہ چل رہی ہو گی

چاندنی چھت پہ چل رہی ہو گی
اب اکیلی ٹہل رہی ہو گی
پھر میرا ذکر آ گیا ہو گا
برف سی وہ پگھل رہی ہو گی
کل کا سپنا بہت سہانا تھا
یہ اداسی نہ کل رہی ہو گی

پرندے اب بھی پر تولے ہوئے ہیں

پرندے اب بھی پر تولے ہوئے ہیں
ہوا میں سنسنی گھولے ہوئے ہیں
تمہِیں کمزور پڑتے جا رہے ہو
تمہارے خواب تو شعلے ہوئے ہیں
غضب ہے سچ کو سچ کہتے نہیں وہ
قرآن اور اپنشد کھولے ہوئے ہیں

وہ نگاہیں صلیب ہیں

وہ نگاہیں صلیب ہیں
ہم بہت بدنصیب ہیں
آئیے آنکھ مُوند لیں
یہ نظارے عجیب ہیں
زندگی ایک کھیت ہے
اور سانسیں جریب ہیں

میں جسے اوڑھتا بچھاتا ہوں

میں جسے اوڑھتا بچھاتا ہوں
وہ غزل، آپ کو سناتا ہوں
ایک جنگل ہے تیری آنکھوں میں
میں جہاں راہ بھول جاتا ہوں
تُو کسی ریل سی گزرتی ہے
میں کسی پُل سا تھرتھراتا ہوں

غمگساروں نے تجھے یاد کیا ہے آزاد

غمگساروں نے تجھے یاد کِیا ہے آزاد
تیرے پیاروں نے تجھے یاد کیا ہے آزاد
جن اشاروں پہ رہی رقص میں لیلائے حیات
ان اشاروں نے تجھے یاد کیا ہے آزاد
تجھ کو اک بار گنوا کر جو پرہشان رہیں
ان بہاروں نے تجھے یاد کیا ہے آزاد

داغ وہ تو نے دیا ہے کہ چھپا بھی نہ سکوں

داغ وہ تُو نے دیا ہے کہ چھپا بھی نہ سکوں
گر ہو منظور دکھانا تو دکھا بھی نہ سکوں
کیا غضب ہے کہ تجھے پاس بلا بھی نہ سکوں
اور تُو مجھ کو پکارے تو میں آ بھی نہ سکوں
خود کرائے ہیں جو انوار پہ میں نے پردے
وائے تقدیر کہ اب ان کو اٹھا بھی نہ سکوں

جب جوش جنوں ہو گرم سفر وہ بند و سلاسل کیا جانے

جب جوشِ جنوں ہو گرمِ سفر وہ بند و سلاسل کیا جانے
طوفان جب اپنی موج میں ہو پابندیٔ ساحل کیا جانے
جب برق میں ضو ہے شمع میں لو پارے میں تڑپ کوندے میں لپک
پابندِ طلسمِ دَیر و حرم! وہ درد تِرا دل کیا جانے
وہ عزم ہے جو لے آتا ہے قدموں تک کھینچ کے منزل کو
اس راز کو رہبر کیا سمجھے، اس بھید کو منزل کیا جانے

یوں آمد فصل بہاری کو گلزار میں رقصاں دیکھیں گے

یوں آمدِ فصلِ بہاری کو گلزار میں رقصاں دیکھیں گے
اے شاخِ فرومایہ! تجھ کو ہر سمت گل افشاں دیکھیں گے
ظلمت کی ہر اک موجِ کُہن سورج کی کرن بن جائے گی
اے شامِ الم! اک روز تجھے ہم صبحِ درخشاں دیکھیں گے
اے راز محبت! بول ذرا، یہ عقدۂ نازک کھول ذرا
انسان سے آخر کب تک ہم انساں کو گریزاں دیکھیں گے

Monday 15 August 2016

خبر ملی ہے غم گردش جہاں سے مجھے

خبر ملی ہے غمِ گردشِ جہاں سے مجھے
کہ دیکھتا ہے کوئی چشمِ مہرباں سے مجھے
تِرا خیال تھا، تیری نظر کے ساتھ گیا
زمانہ ڈھونڈ کے لائے گا اب کہاں سے مجھے
کہیں یہ تم تو نہیں، میری آرزو تو نہیں
بلا رہا ہے کوئی بامِ کہکشاں سے مجھے

وہ رت جگا تھا کہ افسون خواب طاری تھا

وہ رت جگا تھا کہ افسونِ خواب طاری تھا
دِیئے کی لَو پہ ستاروں کا رقص جاری تھا
میں اس کو دیکھتا تھا دم بخود تھا حیراں تھا
کسے خبر وہ کڑا وقت کتنا بھاری تھا
گزرتے وقت نے کیا کیا نہ چارہ سازی کی
وگرنہ زخم جو اس نے دیا تھا، کاری تھا

افق افق نئے سورج نکلتے رہتے ہیں

افق افق نئے سورج نکلتے رہتے ہیں
دیئے جلیں نہ جلیں، داغ جلتے رہتے ہیں
مِری گلی کے مکیں یہ مِرے رفیقِ سفر
یہ لوگ وہ ہیں جو چہرے بدلتے رہتے ہیں
زمانے کو تو ہمیشہ سفر میں رہنا ہے
جو قافلے نہ چلے، رستے چلتے رہتے ہیں

سائے گھٹتے جاتے ہیں

سائے گھٹتے جاتے ہیں
جنگل کٹتے جاتے ہیں
کوئی سخت وظیفہ ہے
جو ہم رٹتے جاتے ہیں
سورج کے آثار ہیں دیکھو
بادل چھَٹتے جاتے ہیں

مکاں میں قید صدا کی دہشت

مکاں میں قید صدا کی دہشت
مکاں سے باہر خلا کی دہشت
ہوا ہے خوفِ خدا سے خالی
ہے اس نگر میں بلا کی دہشت
گھِرا ہوا ہوں میں ہر طرف سے
ہے آئینے میں ہوا کی دہشت

ہے اس گل رنگ کا دیوار ہونا

ہے اس گلرنگ کا دیوار ہونا
کہ جیسے خواب سے بیدار ہونا
بتاتی ہے مہک دستِ حنا کی
کسی در کا پسِ دیوار ہونا
اسے رکھتا ہے صحراؤں میں حیراں
دل شاعر کا پراسرار ہونا

ہے شکل تیری گلاب جیسی

ہے شکل تیری گلاب جیسی
نظر ہے تیری شراب جیسی
ہوا سحر کی ہے ان دنوں میں
بدلتے موسم کے خواب جیسی
صدا ہے اک دوریوں میں اوجھل
مِری صدا کے جواب جیسی

Sunday 14 August 2016

ذہن کے صحراؤں میں چلتی ہے طوفانی ہوا

ذہن کے صحراؤں میں چلتی ہے طوفانی ہوا 
ڈھونڈتی ہے جا بجا کیا جانے دیوانی ہوا
خود ہے سرگرداں کسی کی جستجو میں ہر گھڑی 
کیوں ہے میری خاک پر پھر اتنی حیرانی ہوا
دیکھ پھر طوفاں کی ضد سے ہو گئی گل روشنی 
تُو ہے پاگل تُو نے اس کی بات کیوں مانی ہوا

دل تو ناداں ہے ترے ساتھ کی ضد کرتا ہے

دل تو ناداں ہے تِرے ساتھ کی ضد کرتا ہے 
کتنا پاگل ہے بِنا بات کی ضد کرتا ہے
چاہتا ہے وہ کسی آگ میں جل کر دیکھے
تپتے سورج سے ملاقات کی ضد کرتا ہے
چاند کے دیس کی پریوں کی کہانی سن کر
کسی جادو کی طلسمات کی ضد کرتا ہے 

اپنی دنیا سے چلو میرے جہاں تک آؤ

اپنی دنیا سے چلو میرے جہاں تک آؤ 
راستہ بھولے تھے جس رہ پہ وہاں تک آؤ
سنو! مٹی کے بکھر جانے کے امکاں ہیں بہت 
اس لیے روح سے ہو کر دل و جاں تک آؤ
میری خاموشی کے ہر لفظ کو محسوس کرو 
جنبشِ لب کے بغیر اس کے بیاں تک آؤ

فریب کھایا تو پھر زیست پر عذاب اترے

فریب کھایا تو پھر زیست پر عذاب اترے 
وہ کیا گیا کہ محبت کے سارے خواب اترے 
وہ جان و دل میں اترتا رہا سکوں بن کر 
تھا قرب ایسا رگ و جاں میں ماہتاب اترے
میں جیسے رات کی رانی کی بھینی خوشبو ہوں 
طلوع صبح تصور کا خواب خواب اترے

اجنبی سا اک ستارہ ہوں میں سیاروں کے بیچ

اجنبی سا اک ستارہ ہوں میں سیاروں کے بیچ
اک جدا کردار ہوں اپنے ہی کرداروں کے بیچ
پھر رہی ہوں بے سبب پاگل ہوا سی جا بجا
دھند میں لپٹے ہوئے خاموش کہساروں کے بیچ
اس حصارِ خاک کو جب توڑ کر نکلوں گی میں
ڈھونڈتے رہ جاؤ گے تم مجھ کو دیواروں کے بیچ

اتنا تو ہوا اے دل اک شخص کے جانے سے

اتنا تو ہوا اے دل! اک شخص کے جانے سے
بچھڑے ہوئے ملتے ہیں کچھ دوست پرانے سے
اک آگ ہے جنگل کی، رسوائی کا چرچا ہے
دشمن بھی چلے آئے، ملنے کے بہانے سے
اب میرا سفر تنہا، اب اس کی جدا منزل
پوچھو نہ پتہ اس کا تم میرے ٹھکانے سے

دوست بن بن کے ملے مجھ کو مٹانے والے

دوست بن بن کے ملے مجھ کو مٹانے والے
میں نے دیکھے ہیں کئی رنگ زمانے والے
تم نے چپ رہ کے ستم اور بھی ڈھایا مجھ پر
تم سے اچھے ہیں مِرے حال پہ ہنسنے والے
میں تو اخلاق کے ہاتھوں ہی بِکا کرتا ہوں
اور ہوں گے تیرے بازار میں بِکنے والے

یہ حقیقت ہے کہ اثر ہوتا ہے باتوں میں

یہ حقیقت ہے کہ اثر ہوتا ہے باتوں میں
تم بھی کھل جاؤ گے دو چار ملاقاتوں میں
تم سے صدیوں کی وفاؤں کا کوئی ناطہ نہ تھا
تم سے ملنے کی لکیریں تھیں میرے ہاتھوں میں
تِرے وعدوں نے ہمیں گھر سے نکلنے نہ دیا
لوگ موسم کا مزا لے گئے برساتوں میں

میری چاہت آزما کر دیکھتے

میری چاہت آزما کر دیکھتے
دوست مجھ کو بھی بنا کر دیکھتے
زندگی بھر کا تمہیں ملتا سکوں
بزم یادوں کی سجا کر دیکھتے
تھا مِرے قبضے میں گھر نہ رات کا
داستاں اپنی سنا کر دیکھتے

Saturday 13 August 2016

یہ جو شیشوں کے کھنکنے کی صدا آتی ہے

یہ جو شیشوں کے کھنکنے کی صدا آتی ہے
کتنے بھولے ہوئے غم ہیں جنہیں دہراتی ہے
مجھ کو تنہا جو سرِ جادۂ غم پاتی ہے
ہمسفر بن کے تِری یاد چلی آتی ہے
اب وہ ہنگامۂ غم کم جو ہوا بھی ہے تو کیا
زندگی اور بھی سنسان ہوئی جاتی ہے

سامنے غم کی رہگزر آئی

سامنے غم کی رہگزر آئی
دور تک روشنی نظر آئی
پربتوں پر رکے رہے بادل
وادیوں میں ندی اتر آئی
دوریوں کی کسک بڑھانے کو
ساعتِ قربِ مختصر آئی

بکھرتے ٹوٹتے لمحوں کو اپنا ہمسفر جانا

بکھرتے ٹوٹتے لمحوں کو اپنا ہم سفر جانا
کہ تھا اس راہ میں آخر ہمیں خود بھی بکھر جانا
دلِ آوارہ! کیا پابندِ زنجیرِ تعلق ہو
نہ تھا بس میں کسی کے بھی ہوا کو قید کر جانا
ہمیں تو ساتھ دینا ہے رفیقانِ تلاطم کا
مبارک تجھ کو تنہا اس ندی کے پار اتر جانا

ہر دریچے میں مرے قتل کا منظر ہو گا

ہر دریچے میں مِرے قتل کا منظر ہو گا
شام ہو گی تو تماشا یہی گھر گھر ہو گا
پل کی دہلیز پہ گر جاؤں گا بے سدھ ہو کر
بوجھ صدیوں کی تھکن کا میرے سر پر ہو گا
میں بھی اک جسم ہوں سایہ تو نہیں ہوں تیرا
کیوں تیرے ہجر میں جینا مجھے دوبھر ہو گا

تشنگی بے سبب نہیں ہوتی​

تشنگی بے سبب نہیں ہوتی​
مے کشی بے سبب نہیں ہوتی​
محتسب خود بھی اس کا قائل ہے​
زِندگی بے سبب نہیں ہوتی​
دوستی بھی کبھی رہی ہو گی​
دشمنی بے سبب نہیں ہوتی​

سرمایۂ یقین بھی ہر چند پاس تھا

سرمایۂ یقین بھی ہر چند پاس تھا​
جس نے مجھے بچایا، وہ میرا قیاس تھا​
نوواردِ بساط سے کھاتا میں کب شکست​
شہ بھی اسی نے دی تھی، مجھے اس کا پاس تھا​
تجھ سے ملا تو ذات کا عرفاں ہوا مجھے​
نکلا خیالِ خام کہ میں خودشناس تھا​

جو اس کا ہے وہ غم شاید اپنا ہو

جو اس کا ہے وہ غم شاید اپنا ہو​
پوچھو تو یہ محرم شاید اپنا ہو​
اِس رُت نے تو چھین لیا ہے ہر اِمکاں​
آنے والا موسم شاید اپنا ہو​
منظر نامہ سن کر دل بھر آیا ہے​
تاراجی کا عالم شاید اپنا ہو​

Friday 12 August 2016

ساقیا رکھتے ہیں ایسی جرأت رندانہ ہم

ساقیا! رکھتے ہیں ایسی جرأتِ رِندانہ ہم
چھین لیں گے بڑھ کے تیرے ہاتھ سے پیمانہ ہم
جن کی خاطر دین و دنیا سے ہوئے بے گانہ ہم
زینتِ محفل ہیں وہ،۔ اور رونقِ ویرانہ ہم
ختم ہوتی جا رہی ہے رونقِ دار و رسن
آؤ پھر تازہ کریں منصور کا افسانہ ہم

اک روشنی سی ہے کہ جو دیوار و در میں ہے

اِک روشنی سی ہے کہ جو دیوار و در میں ہے
میرے سوا بھی اور کوئی میرے گھر میں ہے
اچھا نہیں ہے وسعتِ دریا تِرا غرور
اِک بحرِ بیکراں بھی ہماری نظر میں ہے
کیا گُل کھلائے اور نیا ذہنِ آزری
پتھر ابھی تو دیکھئے دستِ ہنر میں ہے

لہو جنون کا جب میرے سر سے نکلے گا

لہو جنون کا جب میرے سر سے نکلے گا
کوئی تو راستہ اس سنگِ در سے نکلے گا
ابھی تو نالہ و شیون سنا ہے دنیا نے
تمہارا تیر بھی زخمِ جگر سے نکلے گا
خیالِ خام سے منزل کبھی نہیں ملتی
سفر کا راستہ، عزمِ سفر سے نکلے گا

Thursday 11 August 2016

شہرہ مرا ہر صاحب کردار تلک ہے

شُہرہ مِرا ہر صاحبِ کردار تلک ہے
حالانکہ کہ مہارت مِری گفتار تلک ہے
پہلے تو کبھی ڈھنگ سے ملتا بھی نہیں تھا
اور اب وہ مِرے عشق میں بیمار تلک ہے
حاصل نہ ہوا کچھ بھی بجز حسرتِ دِیدار
اور حسرتِ دِیدار بھی،۔۔ دِیدار تلک ہے

سکوں زمین قناعت پہ جب نظر آیا

سکوں زمینِ قناعت پہ جب نظر آیا
تو آرزو کی بلندی سے میں اتر آیا
ہجومِ فکر میں تیرا خیال در آیا
کوئی تو آشنا اس بھیڑ میں نظر آیا
رقیب میرے خلاف اس کے کان بھر آیا
جو اس غریب کے بس کا تھا کام کر آیا

جب بھی کسی سے ترک تعلق کیا کرو

جب بھی کسی سے ترکِ تعلق کیا کرو
جو بات منہ پہ آئے وہی کہہ دیا کرو
پیدا جنوں میں ایک نیا زاویہ کرو
وحشت بڑھے تو چاک گریباں سِیا کرو
یہ زیرِ لب کی بات تو ہے شاعروں کی بات
تنقید کر رہے ہو تو اعلانیہ کرو

دوسری باتوں میں ہم کو ہو گیا گھاٹا بہت

دوسری باتوں میں ہم کو ہو گیا گھاٹا بہت
ورنہ فکرِ شعر کو دو وقت کا آٹا بہت
کائنات اور ذات میں کچھ چل رہی ہے آج کل
جب سے اندر شور ہے، باہر ہے سناٹا بہت
آرزو کا شور برپا ہجر کی راتوں میں تھا
وصل کی شب کو ہوا جاتا ہے سناٹا بہت

گھر سے وحشت میں جو میں چاک گریباں نکلا

گھر سے وحشت میں جو میں چاک گریباں نکلا 
کوہ فرہاد سے،۔ مجنوں سے بیاباں نکلا
ملک الموت نے دی ہنس کے مبارکبادی
دم ہمارا تِرے زانو پہ جو اے جاں نکلا
الفتِ کوچۂ جاناں نے کیا خانہ خراب
برہمن دَیر سے، کعبے سے مسلماں نکلا

عشق کا غم نہ گیا حسن کا غمزہ نہ گیا

عشق کا غم نہ گیا، حسن کا غمزہ نہ گیا 
میرا رونا نہ گیا،۔ آپ کا ہنسنا نہ گیا   
کوۓ جاناں میں رکھی ضعف نے ثابت قدمی 
مثلِ نقشِ کفِ پا بیٹھ کے اٹھا نہ گیا
ہم وہ میکش ہیں کہ دم اپنا خفا ہونے لگا
ہاتھ ساقی کا جو تا گردنِ مِینا نہ گیا

کیوں ان کی چال دیکھی جو یہ حال ہو گیا

کیوں ان کی چال دیکھی جو یہ حال ہو گیا
میں آپ اپنے ہاتھ سے پامال ہو گیا
کچھ قیس سے بھی بڑھ کے مرا حال ہو گیا
کس قہر کا جنوں مجھے امسال ہو گیا
میں بدنصیب، غیر خوش اقبال ہو گیا
یہ آپ کے مزاج کا کیا حال ہو گیا

ہنسی دل لگی مہ جبیں ہو چکی

 ہنسی، دل لگی، مہ جبیں ہو چکی

نہیں اب نہ کہنا، نہیں ہو چکی

سنا ہے تِرے خیر مقدم کی عید

کہیں آج ہے، کل کہیں ہو چکی

ہوئی عشق کی بات ازل ہی میں طے

وہیں ہونے والی، وہیں ہو چکی

حق و ناحق جلانا ہو کسی کو تو جلا دینا

 حق و ناحق جلانا ہو کسی کو تو جلا دینا

کوئی روئے تمہارے سامنے تو مسکرا دینا

تردد برق ریزوں میں تمہیں کرنے کی کیا حاجت

تمہیں کافی ہے ہنسنا، دیکھ لینا، مسکرا دینا

تکلف برطرف کیوں پھول لے کر آؤ تُربت پر

مگر جب فاتحہ کو ہاتھ اٹھانا، مسکرا دینا

نہ پہنچیں گی نگاہیں ماورائے آسماں کب تک

نہ پہنچیں گی نگاہیں ماورائے آسماں کب تک
رہے گا راہ میں حائل غبارِ کہکشاں کب تک
وطن کہتے تھے جس کو چھٹ گیا، اب دیکھنا یہ ہے
کہ رہتے ہیں دیارِ غیر میں ہم میہماں کب تک
قفس کی دلکشی میں تو کمی کوئی نہیں، لیکن
نہ آئے گی قفس میں رہ کے یادِ آشیاں کب تک

نئے ماحول میں یوں اہل فن کی آزمائش ہے

نئے ماحول میں یوں اہلِ فن کی آزمائش ہے
کہ جیسے بستیوں پر کوہکن کی آزمائش ہے
ہمارے عزم کو دار و رسن کیا آزمائیں گے
ہمارا عزم خود دار و رسن کی آزمائش ہے
دلوں کو درد سے آباد کر دینے کا وقت آیا
اب اے اہلِ سخن! ذوقِ سخن کی آزمائش ہے

ہم صفیروں کا ساتھ چھوٹ گیا

یوں گلستاں میں آئی بادِ نسیم 
ہم صفیروں کا ساتھ چھوٹ گیا
میں نے پوچھا جو زندگی کیا ہے
ہاتھ سے گر کر جام ٹوٹ گیا
تِرے آنے سے اے نسیمِ بہار
کیسے کیسوں کا ساتھ چھوٹ گیا

کیا گلہ غیروں کا خود ہی سانحہ لے کر چلے

کیا گلہ غیروں کا خود ہی سانحہ لے کر چلے
پتھروں کے شہر میں ہم آئینہ لے کر چلے
ہم ہیں اور ان میں ازل کے روز جو حائل رہا
ہم وہی روز ابد تک فاصلہ لے کر چلے
باوجودِ کسمپرسی دل کہیں تنہا نہ تھا
ہر جگہ یادوں کا ہم اک قافلہ لے کر چلے

خورشید و قمر بھی دیکھ لیں گے

خورشید و قمر بھی دیکھ لیں گے
یہ راہ گزر بھی دیکھ لیں گے
تاروں کا طلسم ٹوٹنے دو
انوارِ سحر بھی دیکھ لیں گے
جلتا ہوا آشیاں تو دیکھیں
ٹوٹے ہوئے پر بھی دیکھ لیں گے

کیسا رستہ ہے کیا سفر ہے

کیسا رستہ ہے کیا سفر ہے
اڑتی ہوئی گرد پر نظر ہے
ڈسنے لگی فاختہ کی آواز
کتنی سنسان دو پہر ہے
آرام کریں کہ راستہ لیں
وہ سامنے اک گھنا شجر ہے

بات کو جرم ناسزا سمجھے

بات کو جرمِ ناسزا سمجھے
اہلِ غم جانے تجھ کو کیا سمجھے
اپنے دعوے کو کیا غلط کہتے
تیری نفرت کو بھی ادا سمجھے
چھوڑیے بھی اب آئینے کا خیال
دیکھ پائے کوئی تو کیا سمجھے

آب مانگو، سراب ملتا ہے

آب مانگو، سراب ملتا ہے
اس طرح بھی جواب ملتا ہے
سینکڑوں گردشوں کے بعد کہیں
ایک جامِ شراب ملتا ہے
یا مقدر کہیں نہیں ملتا
یا کہیں محوِ خواب ملتا ہے

Wednesday 10 August 2016

پائلیں بجتیں، بڑا شور ہوا کرتا تھا

پائلیں بجتیں، بڑا شور ہوا کرتا تھا
حسنِ خوابیدہ بھی شہ زور ہوا کرتا تھا
رنگ و خوشبو تجھے جب بھیجتے گلشن کے گلاب
رخ ہواؤں کا تِری اور ہوا کرتا تھا
جب وہ زلفیں میرے شانے پہ کھُلا کرتی تھیں
گیسوئے شب بھی تو گھنگھور ہوا کرتا تھا

کیوں جہالت کا جل رہا ہے دیا

کیوں جہالت کا جل رہا ہے دیا
چل رے درویش، پھونک مار، بجھا
کوئی دنیا نظر نہیں آئی
میں ہی تھا اور میں دکھائی دیا
ذائقہ گہری نیند جیسا تھا
میں کسی کو مگر بتا نہ سکا

تنہا ہی سلگنا کیوں اجڑی ہوئی بانہوں میں

تنہا ہی سُلگنا کیوں، اُجڑی ہوئی بانہوں میں
تقدیر کی سولی پر کیوں رات بسر کرنا
یہ علم ترا کیا ہے، بوسیدہ کُتب خانہ
کب اس میں سکھاتے ہیں کنکر کو گُہر کرنا 
یہ بوجھ کتابوں کا، کشتی کو ڈبو دے گا
جو سینہ بہ سینہ ہے، حاصل وہ ہُنر کرنا

ہر کوچے میں مسجد ہے ہر اِک موڑ پہ مکتب

منظر نامہ

ہر کوچے میں مسجد ہے، ہر اِک موڑ پہ مکتب
بستی میں مگر دین کے آثار کہاں ہیں؟
ہے رِیش و قبا، جبہ و دستار کا انبوہ
اِن سب میں محمدﷺ کے وفادار کہاں ہیں؟
سقراط بھی نقلی ہے تو منصور بھی فرضی
اِس عہد میں عُشّاق کے اطوار کہاں ہیں؟

رب سے نہ کر فریب عبادت کے باب میں

رب سے نہ کر فریب، عبادت کے باب میں
مت لکھ رِیا کے خار، گُلوں کے حساب میں
سجدے، رکوع، نفل نمازیں، درود و ذکر
کیا کیا سفارشیں ہیں عمل کی کتاب میں
وہ کون سی حدیث تھی جو پڑھ نہ پائے ہم
کیا تھا شریعتوں کے پُرانے نصاب میں

ڈول چھونے سے پہلے پہلے

ڈول چھونے سے پہلے پہلے
ہمارے ہاتھ ضائع ہو گئے 
بھیڑیے 
جس رات
یوسف کا قمیض دینے آئے 
کنواں سرخ پانی سے بھر چکا تھا
رفتہ رفتہ
شہر کے اغوا شدہ جنگلوں میں 
یعقوب کی آنکھیں اُگنا بند ہو گئیں

سدرہ سحر عمران

جہنم ہمیں پکارتا ہے

جہنم ہمیں پکارتا ہے

خدا سے ہمارے تعلقات بہت واجبی رہے ہیں
لیکن وہ اپنی زمین مقررہ مدت تک
ہمیں دان کر چکا
ہم اس کی تھالیوں میں کھا کر
ان میں ہزار چھید کرتے ہیں

بات دل کی ہے بات کہنی ہے

بات دل کی ہے بات کہنی ہے 
تُو ضرورت ہے باقی رہنی ہے
اسکی رنگت ہے میری آنکهوں سی
شال موسم نے سبز پہنی ہے
دل پگهلنا ہے آج ٹھنڈک سے 
آج بارش سے آنکھ بہنی ہے

بجائیں صبح کی کھڑکی، الٹ دیں رات کی تھالی

بجائیں صبح کی کھڑکی، الٹ دیں رات کی تھالی
اچک لیں پھول سے شبنم، شجر سے توڑ لیں ڈالی
ہوا نے بیچ دی ہم کو شفق جو سات رنگوں کی
ملا کے خواب کچھ اس میں بھریں ہم آنکھ ہر خالی
غضب ہے رات کا جوبن، سجا کر آنکھ میں کاجل
بھری ہے مانگ تاروں سے، پہن لی چاند کی بالی

Tuesday 9 August 2016

یہ ادا آپ میں سرکار کہاں تھی پہلے

یہ ادا آپ میں سرکار کہاں تھی پہلے
یہ نظر آپ کی تلوار کہاں تھی پہلے
حشرِ ساماں تِری رفتار کہاں تھی پہلے 
تِرے پائل میں یہ جھنکار کہاں تھی پہلے
خَلق، یوسُف کی خریدار کہاں تھی پہلے 
مِصر میں گرمئ بازار کہاں تھی پہلے

نالۂ صبا تنہا پھول کی ہنسی تنہا

نالۂ صبا تنہا، پھول کی ہنسی تنہا
اس چمن کی دنیا میں ہے کلی کلی تنہا
رات دن کے ہنگامے، ایک مہیب تنہائی
صبحِ زیست بھی تنہا، شامِ زیست بھی تنہا
کون کس کا غم کھائے، کون کس کو بہلائے
تیری بے کسی تنہا، میری بے بسی تنہا

تری محفل میں سوز جاودانی لے کے آیا ہوں

تِری محفل میں سوزِ جاودانی لے کے آیا ہوں
محبت کی متاعِ غیر فانی لے کے آیا ہوں
میں آیا ہوں فسونِ جذبۂ دل آزمانے کو
نگاہِ شوق کی جادو بیانی لے کے آیا ہوں
میں آیا ہوں سنانے قصۂ غم سرد آہوں میں
ڈھلکتے آنسوؤں کی بے زبانی لے کے آیا ہوں

غم نصیبوں کو کسی نے تو پکارا ہو گا

غم نصیبوں کو کسی نے تو پکارا ہو گا
اس بھری بزم میں کوئی تو ہمارا ہو گا
آج کس یاد سے چمکی تِری چشمِ پُر نم
جانے یہ کس کے مقدر کا ستارا ہو گا
جانے اب حُسن لٹائے گا کہاں دولتِ درد
جانے اب کس کو غمِ عشق کا یارا ہو گا

دن زندگی کے کیسے کٹیں گے بہار میں

دن زندگی کے کیسے کٹیں گے بہار میں
تم اختیار میں ہو نہ دل اختیار میں
صبحِ وصال ہے نہ وہ اب شامِ انتظار
اب کیا رہا ہے گردشِ لیل و نہار میں
وہ نازنیں ہے محوِ تماشائے صحنِ گل
یا اور اک بہار کھلی ہے بہار میں

پھونک کر دشت عرب کی کوکھ میں روح ارم

پھونک کر دشتِ عرب کی کوکھ میں روحِ ارم
اک گھنیری چھاؤں پھیلا دی سرِ فرقِ امم
وہ قدیم انسان تخلیقِ جہاں سے بھی قدیم
جس کے احساسات کی تجسیم ہیں لوح و قلم
وہ بقا پرور کہ با معنی ہے مفہومِ وجود
وہ فنا دشمن کہ اب اک لفظ مہمل ہے عدم

انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ

انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ
دیکھا جو مجھ کو چھوڑ دئیے مسکرا کے ہاتھ
بے ساختہ نگاہیں جو آپس میں مل گئیں
کیا منہ پر اس نے رکھ لیے آنکھیں چرا کے ہاتھ
یہ بھی نیا ستم ہے حنا تو لگائیں غیر
اور اس کی داد چاہیں وہ مجھ کو دکھا کے ہاتھ

ایسے کو شب وصل لگائے کوئی کیا ہاتھ

ایسے کو شبِ وصل لگائے کوئی کیا ہاتھ
ہر بار جھٹک کر جو کہے ٹوٹے ترا ہاتھ
یوں آپ کریں غیر کے شکوے مرے آگے
یہ آپ کے مضمون نیا آج لگا ہاتھ
اس بات کے ملنے کی بھی کچھ پائی گئی بات
قاصد تِرے صدقے پہ اگر سچ ہے تو لا ہاتھ

وہ نہیں آتا گر نہیں آتا

وہ نہیں آتا گر نہیں آتا
جا کے کیوں نامہ بر نہیں آتا
آپ سے ایسی بے وفائی ہو
یہ یقیں آپ پر نہیں آتا
یاد آتا ہے اس کا جب آنا
ہوش دو دو پہر نہیں آتا

چہروں کا دھندلانا تجھ کو بھائے یارا

چہروں کا دُھندلانا تجھ کو بھائے یارا
پھول کھِلیں تو کیوں تُو انہیں جلائے یارا
وہ جو تیری دِید کو ترسیں، انہیں رلانے
ابر و ہوا کے پیچھے کیوں چھپ جائے یارا
وصل سے کترائے ہے ہجر کی آنچ دلائے
کتنے ستم ہیں تُو جو نِت دہرائے یارا

ہم جو مضموں کی ہوا باندھتے ہیں

ہم جو مضموں کی ہوا باندھتے ہیں
رخت میں نقدِ بقا باندھتے ہیں
اہلِ فن لفظ و ندا میں دیکھو
کیسے سپنوں کا لکھا باندھتے ہیں
دل کے مَیلے ہیں جو کھولیں کیسے
جو گِرہ اہلِ صفا باندھتے ہیں

ہم ثمردار نہیں لائق توقیر نہیں

ہم ثمردار نہیں،۔۔ لائقِ توقیر نہیں
ہم ہیں معزول شہوں جیسے فقط پِیر نہیں
سو ہیں گر ہم تو ہیں ہم میں سے فقط بیس نہال
کون ہے اپنے یہاں آج، جو دل گیر نہیں
موج، دریا سے ہے از خود ہی اچھلتی آئی
پیش دستی میں ہماری کوئی تقصیر نہیں

تیری قرابتوں کے دیئے بال و پر کو میں

تیری قرابتوں کے دیئے بال و پر کو میں
کب سے نہیں ترس رہا رختِ سفر کو میں
جب سے عطا ہوئی ہے مجھے دولتِ غنا
لاتا نہیں نظر میں کسی تاجور کو میں
کٹھکا ہو اس پہ کیوں کسی بارانِ سنگ کا
دیکھوں جہاں کہیں کسی پھلتے شجر کو میں

سمندر بیکراں ہونے سے پہلے

سمندر بے کراں ہونے سے پہلے
کھلو کچھ، بادباں ہونے سے پہلے
کہاں تک ساتھ میرے تم چلو گے
سفر کے رائیگاں ہونے سے پہلے
مجھے معلوم تھی ہر بات اپنی
کسی کا رازداں ہونے سے پہلے

کوئی انجان جزیروں کا نگر لکھا تھا

کوئی انجان جزیروں کا نگر لکھا تھا
اس کی آنکھوں میں سمندر کا سفر لکھا تھا
درمیاں خواب کی دوری تھی زمانوں کی تھکن
ورنہ ہر شاخِ تمنا پہ ثمر لکھا تھا
روشنی اس کا مقدر نہ ہوئی پھر، جس نے
منجمد رات کی دیوار پہ در لکھا تھا

فاصلوں کے حصار میں رہنا

فاصلوں کے حصار میں رہنا 
عمر بھر رہگزار میں رہنا
یا دلوں میں گمان کی صورت 
یا کسی اعتبار میں رہنا
چاروں جانب ہوا کے پہرے ہیں 
اے پرندو! قطار میں رہنا

دھڑکن دھڑکن ایک ہی نعرہ، اب کیا ہو گا

دھڑکن دھڑکن ایک ہی نعرہ، اب کیا ہو گا
تیرا میرا اور ہمارا، اب کیا ہو گا 
اہلِ عقل اور اہلِ ایماں صف آراء ہیں
بیچ میں ہے انسان بیچارہ، اب کیا ہو گا 
وہ جن کے کہنے پر آگ لگی ہے ساری
وہ بھی پوچھ رہے ہیں یارا! اب کیا ہو گا 

طورِ سینا کو سر کرو گے میاں

طورِ سینا کو سر کرو گے میاں
اپنے اندر سفر کرو گے میاں
دلِ درویش اک مدینہ ہے
تم مدینے میں شر کرو گے میاں
وہ جو اک لفظ مر گیا یہاں
اسکی کس کو خبر کرو گے میاں

یہ دنیا بھی عجب قصہ ہے صاحب

یہ دنیا بھی عجب قصہ ہے صاحب 
نہیں لگتا، مگر دھوکا ہے صاحب
یہ چرچا جو ہمارے نام کا ہے
تمہارے عشق کا صدقہ ہے صاحب
ابھی پرہیز رکھئے گفتگو سے 
زوالِ عصر کا لمحہ ہے صاحب

اس قدر خوف ہے

اس قدر خوف ہے
خوف 
گلیوں محلوں چوباروں 
غریبوں کے ڈھاروں سے لے کر
امیروں کے محلوں تلک
ایک سا خوف ہے

زندگی ہوں اس لیے ایسا بھی ہوں ویسا بھی ہوں

زندگی ہوں اس لئے ایسا بھی ہوں ویسا بھی ہوں
اپنے فتوے پاس رکھو، ٹھیک ہوں، جیسا بھی ہوں
میں سمجھتا ہوں تِرا مجھ سے پرے رہنےکا خوف
اک تو میں ہوں بھی سمندر اور پھر بپھرا بھی ہوں
بات سب سے کر رہا ہوں، دھیان ہے تیری طرف
دیکھ لے مجمع میں بیٹھا ہوں، مگر تنہا بھی ہوں

جنہوں نے باغ کی دھجیاں اڑا ڈالیں

جنہوں نے باغ کی دھجیاں اڑا ڈالیں 
پرندے اور بچے قتل کر ڈالے
مِرے یسوع 
اے پیارے 
قسم انجیل کی یہ لوگ ہم میں سے نہیں ہیں
یہ وہ بے مغز وحشی ہیں 

Monday 8 August 2016

ذرا کچھ اور قربت زیر داماں لڑکھڑاتے ہیں

ذرا کچھ اور قربت زیر داماں لڑکھڑاتے ہیں
مۓ شعلہ فگن پی کر گلستاں لڑکھڑاتے ہیں
تخیل سے گزرتے ہیں تو نغمے چونک اٹھتے ہیں
تصور میں با انداز بہاراں لڑکھڑاتے ہیں
قرار دین و دنیا آپ کی بانہوں میں لرزاں ہیں
سہارے دیکھ کر زلف پریشاں لڑکھڑاتے ہیں

زخم دل پر بہار دیکھا ہے

زخمِ دل پر بہار دیکھا ہے
کیا عجب لالہ زار دیکھا ہے
جن کے دامن میں‌ کچھ نہیں ہوتا
ان کے سینوں میں پیار دیکھا ہے
خاک اڑتی ہے تیری گلیوں میں‌
زندگی کا وقار دیکھا ہے

چاندنی شب ہے ستاروں کی ردائیں سی لو

چاندنی شب ہے ستاروں کی ردائیں سی لو
عید آئی ہے بہاروں کی ردائیں سی لو
چشم ساقی سے کہو تشنہ امیدوں کے لیے
تم بھی کچھ بادہ گساروں کی ردائیں سی لو
ہر برس سوزنِ تقدیر چلا کرتی ہے
اب تو کچھ سینہ فگاروں کی ردائیں سی لو

میری آنکھوں میں امنڈ آیا ہے دریا دل کا

میری آنکھوں میں امنڈ آیا ہے دریا دل کا
پھر کہیں ٹوٹ گیا ہو نا کنارا دل کا
بس محبت سے روایات ہے کہانی دل کی
چار حرفوں سے عبارت ہے فسانہ دل کا
سانس رکتی ہے تو پھر جان کا خیال آتا ہے
دل دھڑکتا ہے تو لگ جاتا ہے دھڑکا دل کا

دو جہانوں کی خبر رکھتے ہیں

دو جہانوں کی خبر رکھتے ہیں
بادہ خانوں کی خبر رکھتے ہیں
خارزاروں سے تعلق ہے ہمیں
گلستانوں کی خبر رکھتے ہیں
ہم الٹ دیتے ہیں صدیوں کے نقاب
ہم زمانوں کی خبر رکھتے ہیں

پھیلے گی بہر طور شفق نیلی تہوں میں

پھیلے گی بہر طور شفق نیلی تہوں میں
قطرے کا لہو بھی ہے سمندر کی رگوں میں
مقتل کی زمیں صاف تھی آئینہ کی صورت
عکسِ رخِ قاتل تھا ہر اک قطرۂ خوں میں
مت پوچھ مری چشمِ تحیّر سے کہ مجھ کو
کیا لوگ نظر آئے ہیں دشمن کی صفوں میں

باغی میں آدمی سے نہ منکر خدا کا تھا

باغی میں آدمی سے نہ منکر خدا کا تھا
درپیش مسئلہ میری اپنی انا کا تھا
گم سم کھڑا تھا ایک شجر دشتِ خوف میں
شاید وہ منتظر کسی آندھی ہوا کا تھا
اپنے دھوئیں کو چھوڑ گیا آسمان پر
بجھتے ہوئے دیئے میں غرور انتہا کا تھا

اتنی مدت بعد ملے ہو

اتنی مدت بعد ملے ہو

اتنی مدت بعد ملے ہو
کن سوچوں میں گم رہتے ہو
اتنے خائف کیوں رہتے ہو
ہر آہٹ سے ڈرتے ہو
تیز ہوا نے مجھ سے پوچھا

جلوہ ہے ہر اک رنگ میں اے یار تمہارا

جلوہ ہے ہر اک رنگ میں اے یار تمہارا
اک نور ہے کیا مختلف آثار تمہارا
ہوتا نہ یہ بندہ جو خریدار تمہارا
رونق نہ پکڑتا کبھی بازار تمہارا
دل ہو مِرے قابو میں جو اے یار تمہارا
سایہ بھی نہ دیکھیں کبھی اغیار تمہارا

آئینے سے بھی ہے منہ یار نے موڑا کیا کیا

توسنِ طبع کو کرتا ہوں میں کوڑا کیا کیا
ایک اِک گام پہ مٹتا ہے یہ گھوڑا کیا کیا
اہلِ دولت سے کوئی نزع میں اتنا پوچھے
ساتھ کیا کیا لیا اس وقت میں، چھوڑا کیا کیا
سوزشِ دل سے ہے اف اف شبِ تنہائی میں
ہائے رہ رہ کے تپکتا ہے یہ پھوڑا کیا کیا

بزم قاتل سے نہ بیٹھوں گا میں زنہار جدا

بزمِ قاتل سے نہ بیٹھوں گا میں زِنہار جدا
شمع ساں سر مِری گردن سے سو بار جدا
رخِ دلدار سے ہو گیسوئے دلدار جدا
روزِ روشن ہو جدا، اور شبِ تار جدا
دیکھئے، آج وہ تشریف کہاں فرمائیں
ہم سے وعدہ ہے جدا، غیر سے اقرار جدا

اس کے قرب کے سارے ہی آثار لگے

اس کے قرب کے سارے ہی آثار لگے
ہوا میں لہراتے گیسوئے یار لگے
دل بھی کیا نیرنگِ سراب آرزو ہے
رونق دیکھو تو کوئی بازار لگے
میں گھبرا کر تجھ کو پکاروں تو یہ فلک
آنگن بیچ بہت اونچی دیوار لگے

پہلے مجھ کو بھی خیال یار کا دھوکا ہوا

پہلے مجھ کو بھی خیالِ یار کا دھوکا ہوا
دل مگر کچھ اور ہی عالم میں تھا کھویا ہوا
دل کی صورت گھٹ رہی ہے ڈوبتے سورج کی لَو
اٹھ رہا ہے کچھ دھواں سا دُور بَل کھاتا ہوا
میں نے بے تابانہ بڑھ کر دشت میں آواز دی
جب غبار اٹھا، کسی دیوانے کا دھوکا ہوا

خاک آئینہ دکھاتی ہے کہ پہچان میں آ

خاک آئینہ دکھاتی ہے کہ پہچان میں آ
عکسِ نایاب! مِرے دیدۂ حیران میں آ
ہے شرارہ ہوس آمادۂ پرواز بہت
یمِ ظلمات بلاتا ہے کہ طوفان میں آ
جگمگاتا ہوا خنجر مِرے سینے میں اتار
روشنی لے کے کبھی خانۂ ویران میں آ

دھوپ کے رتھ پر ہفت افلاک

دھوپ کے رتھ پر ہفت افلاک
چوباروں کے سر پر خاک
شہرِ ملامت آ پہنچا
سارے مناظر عبرت ناک
دریاؤں کی نذر ہوئے
دھیرے دھیرے سب تیراک

کوئی غل ہوا تھا نہ شور خزاں

کوئی غل ہوا تھا، نہ شورِ خزاں
اجڑنے لگیں خود بخود بستیاں
جسے دیکھنے گھر سے نکلے تھے ہم
دھواں ہو گیا شام کا وہ سماں
سبھی کچھ تو دریا بہا لے گیا
تجھے اور کیا چاہیے آسماں

اتنا کیوں شرماتے ہیں

اتنا کیوں شرماتے ہیں
وعدے آخر وعدے ہیں
لکھا لکھایا دھو ڈالا
سارے ورق پھر سادے ہیں
تجھ کو بھی کیوں یاد رکھا
سوچ کے اب پچھتاتے ہیں

Sunday 7 August 2016

غیر الفت کا راز کیا جانے

غیر الفت کا راز کیا جانے
لطف ناز و نیاز کیا جانے
نیم جانوں پہ کیا گزرتی ہے
نرگسِ نیم باز کیا جانے
میرے طولِ شبِ جدائی کو
تیری زلفِ دراز کیا جانے

وصل میں وہ چھیڑنے کا حوصلہ جاتا رہا

وصل میں وہ چھیڑنے کا حوصلہ جاتا رہا
تم گلے سے کیا ملے سارا گِلہ جاتا رہا
یار تک پہنچا دیا بے تابئ دل نے ہمیں
اک تڑپ میں منزلوں کا فاصلہ جاتا رہا
ایک تو آنکھیں دکھائیں پھر یہ شوخی سے کہا
کہیے اب تو کم نگاہی کا گِلہ جاتا رہا

کس قدر تھا گرم نالہ بلبل ناشاد کا

کس قدر تھا گرم نالہ بلبلِ ناشاد کا
آگ پھولوں میں لگی گھر جل گیا صیاد کا
سہل سمجھا تھا ستانا بلبلِ ناشاد کا
چار نالوں میں کلیجا ہل گیا صیاد کا
زیرِ خنجر میں تڑپتا ہوں فقط اس واسطے
خون میرا اڑ کے دامن گیر ہو جلاد کا

اپنی آنکھوں کے سمندر میں اتر جانے دے

اپنی آنکھوں کے سمندر میں اُتر جانے دے 
تیرا مجرم ہوں مجھے ڈوب کے مرجانے دے 
اے نئے دوست میں سمجھوں گا تجھے بھی اپنا 
پہلے ماضی کا کوئی زخم تو بھر جانے دے 
زخم کتنے تیری چاہت سے ملے ہیں مجھ کو 
سوچتا ہوں کہ کہوں تجھ سے مگر جانے دے ​

دھواں بنا کے فضا میں اڑا دیا مجھ کو

دھواں بنا کے فضا میں اڑا دیا مجھ کو
میں جل رہا تھا کسی نے بجھا دیا مجھ کو
ترقیوں کا فسانہ سنا دیا مجھ کو
ابھی ہنسا بھی نہ تھا اور رلا دیا مجھ کو
میں ایک ذرہ، بلندی کو چھونے نکلا تھا
ہوا نے تھم کے زمیں پر گرا دیا مجھ کو

Saturday 6 August 2016

نہاں جو وہ نظارا ہے، کہاں ہے

نہاں جو وہ نظارا ہے، کہاں ہے
مِری قسمت کا تارا ہے، کہاں ہے
ہمیں جو کھینچتا ہے اپنی جانب
کہاں منظر وہ سارا ہے، کہاں ہے
وہ سپنا روز جس کو دیکھتا ہوں
تِرا ہی استعارا ہے، کہاں ہے

آنکھیں بجھی بجھی ہیں، مگر رات ہے کہاں

آنکھیں بجھی بجھی ہیں، مگر رات ہے کہاں
حصے میں میرے خواب کی سوغات ہے کہاں
بے سمت منزلوں کا میں کرتا رہا طواف
سایا بھی میرا اب کہ مِرے ساتھ ہے کہاں
اس کو بھی ہار اپنی نہیں ہے قبول، اور
میرے نصیب میں بھی لکھی مات ہے کہاں

گڑیا سی لگ رہی تھی وہ نیلے فراک میں

گڑیا سی لگ رہی تھی وہ نیلے فراک میں
دیکھا تھا اس کو میں نے کسی کیٹ واک میں
لگتا نہیں ہے اپنے محلے میں دل کہیں
رہنے لگے ہیں جب سے وہ اگلے بلاک میں
بیٹھا ہوا ہوں اب بھی سمندر پہ اس جگہ
روحیں جب اپنی ایک تھیں ہونٹوں کے لاک میں

کبھی نہ رونے کی خود کو تلقین کر رہا ہوں

کبھی نہ رونے کی خود کو تلقین کر رہا ہوں
میں اپنے اشکوں کی آج تدفین کر رہا ہوں
کبھی محبت کی بھیک لگتی ہے نیک نامی
کبھی یہ لگتا ہے اپنی توہین کر رہا ہوں
مجھے بھی ساقی اب احتیاجِ سبُو نہیں ہے
لہو سے اپنے ہی شام رنگین کر رہا ہوں

کیسے کریں یقین کہ افتی نہیں رہا

کیسے کریں یقین کہ اِفتی نہیں رہا
دوزخ تو رہ گئی ہے، بہشتی نہیں رہا
ٹوٹا ہے پھر سے روح و بدن کا مکالمہ 
اپنا کوئی مزاج سرشتی نہیں رہا
گزری ہے کیا کسی پہ قیامت، لکھے گا کون 
انسانیت کا درد نوشتی نہیں رہا 

جہاں میں جاؤں ہوا کا یہی اشارہ ہو

جہاں میں جاؤں ہوا کا یہی اشارا ہو
کوئی نہیں جو یہاں منتظر تمہارا ہو
میری بجھتی ہوئی آنکھوں کو روشنی بخشے
وہ پھول جو تیرے چہرے کا استعارا ہو
چلا ہوں اپنی ہی آواز بازگشت پہ یوں
کسی نے دور سے جیسے مجھے پکارا ہو

یہ فسوں کار بہاروں کا زمانہ ساقی

یہ فسوں کار بہاروں کا زمانا ساقی
جام اٹھا جام کہ موسم ہے سہانا ساقی
ہم سمجھتے ہیں جو آداب ہیں میخانے کے
ہم کو آتا ہے تِرے نام اٹھانا ساقی
مۓ صافی نہ سہی، دردِ تہِ جام سہی
ہوش کھونے کو ہے درکار بہانا ساقی

کس کے قلم سے بھاگ ہمارے لکھے گئے

کس کے قلم سے بھاگ ہمارے لکھے گئے
آنسو نہ لکھ سکے تو ستارے لکھے گئے
اظہار کی مروتیں تھیں اور کچھ نہ تھا
طوفان کی بجائے کنارے لکھے گئے
وہ جو ہماری جان کے دشمن بنے رہے
ہم ان کو اپنی جان سے پیارے لکھے گئے

کچھ زمیں پر رہ گیا کچھ آسماں میں رہ گیا

کچھ زمیں پر رہ گیا کچھ آسماں میں رہ گیا
اک ضروری کام تھا جو درمیاں میں رہ گیا
چاہتیں دونوں طرف تھیں پر نہ مل پائے کہیں
میں مکاں میں وہ غرورِ لا مکاں میں رہ گیا
دل میں کیا کچھ تھا مگر کچھ بھی نہ کہہ پائے انہیں
حرفِ مطلب جو بھی تھا حُسنِ بیاں میں رہ گیا

جانے اس شب کون اترا خاک پر

جانے اس شب کون اترا خاک پر
جھوم اٹھا کرنوں کا میلہ خاک پر
چاند بھی اس وقت تک نکلا نہیں
جتنے عرصے تک وہ ٹھہرا خاک پر
آسماں کی آنکھ بھی پتھرا گئی
پیرہن جب اس نے بدلا خاک پر

وقت نے جب سے اتارا خاک پر

وقت نے جب سے اتارا خاک پر
ہو رہے ہیں خوار و رسوا خاک پر
کچھ ہمارے خواب خُفتہ خاک میں
اور کچھ خوابوں کا ملبہ خاک پر
دل کسی جا پر ٹھہرتا ہی نہیں
چاہے سینے میں رکھیں یا خاک پر

ہم تو یوں اس کے دھیان سے نکلے

ہم تو یوں اس کے دھیان سے نکلے
تیر جیسے کمان سے نکلے
پھر کہیں بھی انہیں اماں نہ ملی
جو خود اپنی امان سے نکلے
کاش اک دن وہ ہم سے ملنے کو
ساتویں آسمان سے نکلے

انا کو مار کر اپنی مذمت کر رہے ہیں

انا کو مار کر اپنی مذمت کر رہے ہیں
یہ کیسے لوگ ہیں ہم جن کی خدمت کر رہے ہیں
مشقت کے بغیر اجرت ملا کرتی تھی ہم کو
سو اب کے ہم بغیر اجرت مشقت کر رہے ہیں
کسے اتنی فراغت دل زدوں کا حال پوچھے
سو، ہم بیمار، خود اپنی عیادت کر رہے ہیں

Friday 5 August 2016

لب اگر یوں سیے نہیں ہوتے​

لب اگر یوں سیے نہیں ہوتے​
اس نے دعوے کیے نہیں ہوتے​
خوب ہے، خوب تر ہے، خوب ترین​
اِس طرح تجزیئے نہیں ہوتے​
گر ندامت سے تم کو بچنا تھا​
فیصلے خود کیے نہیں ہوتے​

زاویہ کوئی مقرر نہیں ہونے پاتا​

زاویہ کوئی مقرر نہیں ہونے پاتا​
دائمی ایک بھی منظر نہیں ہونے پاتا​
عمرِ مصروف! کوئی لمحۂ فرصت ہو عطا​
میں کبھی خود کو میسر نہیں ہونے پاتا​
آئے دن آتش و آہن سے گزرتا ہے، مگر​
دل وہ کافر ہے کہ پتھر نہیں ہونے پاتا​

آخر کس امید پہ اپنا سر نہوڑائے

ورثہ

آخر کس امید پہ اپنا سر نہوڑائے
بوڑھے پیڑ کے نیچے بیٹھے
بِیتے لمحے گنِتے رہو گے
بوجھل سر سے ماضی کے احسان جھٹک کر اٹھو
دیکھو یہ سب کوڑھ کی ماری شاخیں

Thursday 4 August 2016

واعظ مسجد سے اب جاتے ہیں میخانے کو ہم

واعظ مسجد سے اب جاتے ہیں میخانے کو ہم
پھینک کر ظرفِ وضو لیتے ہیں پیمانے کو ہم
کیا مگس بیٹھے بھلا اس شعلہ رو کے جسم پر
اپنے داغوں سے جلا دیتے ہیں پروانے کو ہم
کون کرتا ہے بتوں کے آگے سجدہ زاہدا
سر کو دے دے مار کر توڑیں گے بتخانے کو ہم

ان لبوں کی یاد میں داغ دل دیوانہ ہے

ان لبوں کی یاد میں داغِ دل دیوانہ ہے
آتشِ یاقوت سے روشن چراغِ خانہ ہے
پھر بہار آئی کفِ ہر شاخ پر پیمانہ ہے
ہر روش میں جلوۂ بادِ صبا مستانہ ہے
ہر بگولے میں عیاں اک لغزشِ مستانہ ہے
گردش چشمِ غزالاں، گردشِ پیمانہ ہے

اے شیخ و گبر سبحہ و زنار توڑیے​

اے شیخ و گبر سبحہ و زنار توڑئیے​
پر دل کسی بشر کا نہ زِنہار توڑئیے​
پیرِ مغاں کو جی میں ہے کعبہ بنائیے​
بت نشۂ شراب میں دو چار توڑئیے​
چہرے پہ خط ہوا ہے برنگِ سپر سیاہ​
بس اب تو اپنے ناز کی تلوار توڑئیے​

جان ہم تجھ پہ دیا کرتے ہیں

جان ہم تجھ پہ دیا کرتے ہیں
نام تیرا ہی لیا کرتے ہیں
چاک کرنے کیلئے اے ناصح
ہم گریبان سیا کرتے ہیں
ساغرِ چشم سے ہم بادہ پرست
مئے دیدار پیا کرتے ہیں

یار کو رغبت اغیار نہ ہونے پائے

 یار کو رغبتِ اغیار نہ ہونے پائے

گلِ تر کو ہوسِ خار نہ ہونے پائے

اس میں درپردہ سمجھتے ہیں وہ اپنا ہی گلہ

شکوۂ چرخ بھی زنہار نہ ہونے پائے

فتنۂ حشر جو آنا تو دبے پاؤں ذرا

بختِ خفتہ مرا بیدار نہ ہونے پائے

تیر قاتل کا یہ احساں رہ گیا

 تیرِ قاتل کا یہ احساں رہ گیا

جائے دل سینہ میں پیکاں رہ گیا

کی ذرا دستِ جنوں نے کوتہی

چاک آ کر تا بداماں رہ گیا

دو قدم چل کر ترے وحشی کے ساتھ

جادۂ راہِ بیاباں رہ گیا

قائم تھی یوں تو درد کی محفل جگہ جگہ

قائم تھی یوں تو درد کی محفل جگہ جگہ
ہم ہی سنا سکے نہ غمِ دل جگہ جگہ
طوفانِ موج خیز کے خُوگر، سنبھل سنبھل
حائل ہیں تیری راہ میں ساحل جگہ جگہ
دل ہر مقامِ شوق سے آگے نکل گیا
دامن کو کھینچتی رہی منزل جگہ جگہ

مانا کہ جائیں ہم ترے در سے مگر کہاں

مانا کہ جائیں ہم ترے در سے، مگر کہاں
بے خانماں ہیں اپنے ٹھکانے کو گھر کہاں
اس نقشِ پا کو سجدے کیے جا رہا ہوں میں
لے جائے دیکھیے یہ تِرا رہگزر کہاں
فرقت نے تیری چھین لیا لطفِ زندگی
وہ رات دن کہاں ہیں وہ شام و سحر کہاں

رات ابھری تری زلفوں کی درازی کیا کیا

رات ابھری تِری زلفوں کی درازی کیا کیا
خواجۂ حسن نے کی بندہ نوازی کیا کیا
کبھی زنجیر، کبھی مار، کبھی پھول بنی
زلفِ خمدار میں تھی شعبدہ بازی کیا کیا
خالِ رخسار سے میں زلفِ رسا تک پہنچا
دلِ بدمست نے کی دست درازی کیا کیا

Wednesday 3 August 2016

بسوز زخم جگر کیسے ہاؤ ہو کرتے

بسوزِ زخمِ جگر کیسے ہاؤ ہو کرتے

اگر نہ عشق میں ہم ترکِ آرزو کرتے

تمہاری آنکھوں نے بہکا دیا ہمیں ورنہ

کبھی نہ جشنِ شبِ بادہ و سبو کرتے

نہ جانے کتنی نگاہوں سے گر گئے ہوتے

بیاں جو حشر میں ہم وجہِ آرزو کرتے

پرسشِ غم کا تقاضا ہے نہ قربت کی طلب

پرسشِ غم کا  تقاضا ہے نہ قربت کی طلب

دشمنِ جاں سے بھلا کیوں ہو مروت کی طلب

میرا ایماں ہے تِری چشمِ عنایت کی طلب

مقصدِ زیست نہیں ہے زر و دولت کی طلب

پاسِ ناموسِ وفا راہنمائے دل ہے 

حسرتِ دید ہے اظہارِ حقیقت کی طلب

موجوں نے ہاتھ دے کے ابھارا کبھی کبھی

موجوں نے ہاتھ دے کے ابھارا کبھی کبھی
پایا ہے ڈوب کر بھی کنارا کبھی کبھی
کرتی ہے تیغِ یار اشارا کبھی کبھی
ہوتا ہے امتحان ہمارا کبھی کبھی
چمکا ہے عشق کا بھی ستارا کبھی کبھی
مانگا ہے حسن نے بھی سہارا کبھی کبھی

جدا وہ ہوتے تو ہم ان کی جستجو کرتے

جدا وہ ہوتے تو ہم ان کی جستجو کرتے
الگ نہیں ہیں تو پھر کس کی آرزو کرتے
ملا نہ ہم کو کبھی عرضِ حال کا موقع
زباں نہ چلتی تو آنکھوں سے گفتگو کرتے
اگر یہ جانتے ہم بھی انہیں کی صورت ہیں
کمالِ شوق سے اپنی ہی آرزو کرتے

ہم اگر شرح آرزو کرتے

ہم اگر شرحِ آرزو کرتے
غنچہ و گل کو زرد رو کرتے
سجدۂ ناگہاں کا تھا موقع
سجدہ کرتے کہ ہم وضو کرتے
داورِ حشر ہنس پڑا ورنہ
ہم کہاں قطعِ گفتگو کرتے

دل نے دیکھی ہے تری زلف کے سر ہونے تک

دل نے دیکھی ہے تِری زلف کے سر ہونے تک
وہ جو قطرے پہ گزرتی ہے، گہر ہونے تک
بھیڑ لگ جائے گی شیریں کی گلی میں، فرہاد
لوگ بے بس ہیں، تِرے شہر بدر ہونے تک
 زہر پی لیتا ہوں، گر شہد بھرے ہونٹ تِرے
میرے قبضے میں رہیں اس کا اثر ہونے تک

وہ خود اگر کہیں ملتا تو گفتگو کرتے

“زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے”
وہ خود اگر کہیں ملتا، تو گفتگو کرتے
وہ زخم جِس کو کِیا نوکِ آفتاب سے چاک
اسی کو سوزنِ مہتاب سے رفو کرتے
سوادِ دل میں لہو کا سراغ بھی نہ ملا
کسے امام بناتے، کہاں وضو کرتے

مغاں سے لطف ملاقات لے کہ آیا ہوں

تہدیہ

مغاں سے لطفِ ملاقات لے کہ آیا ہوں 
نگاہِ پِیرِ خرابات لے کے آیا ہوں
زمیں کے کرب میں شامل ہوا ہوں، راہروو
فقیرِ راہ کی سوغات لے کے آیا ہوں
نظر میں عصرِ جواں کی بغاوتوں کا غرور 
جگر میں سوزِ روایات لے کے آیا ہوں

مزا تھا ان کو جو بلبل سے دوبدو کرتے

مزا تھا ان کو جو بلبل سے دوبدو کرتے
کہ گل تمہاری بہاروں میں آرزو کرتے
مزے جو موت کے عاشق بیان کبھو کرتے
مسیحؑ و خضرؑ بھی مرنے کی آرزو کرتے
غرض تھی کیا ترے تیروں کو آب پیکاں سے
مگر زیارت دل کیوں کر بے وضو کرتے

اب تو گھبرا کے يہ کہتے ہيں کہ مرجائيں گے

اب تو گھبرا کے يہ کہتے ہيں کہ مرجائيں گے
مر کے بھی چين نہ پايا تو کدھر جائيں گے
تم نے ٹھیرائی اگر غير کے گھر جانے کی
تو ارادے يہاں کچھ اور ٹھہر جائيں گے
خالی اے چارہ گر ہوں گے بہت مرھم داں
پر مرے زخم نہيں ايسے کہ بھر جائيں گے

صبح رو رو کے شام ہوتی ہے

صبح رو رو کے شام ہوتی ہے
شب تڑپ کر تمام ہوتی ہے
سامنے چشمِ مستِ ساقی کے
کس کو پروائے جام ہوتی ہے
کوئی غنچہ کھلا کے بلبل کو
بے کلی زیرِ دام ہوتی ہے

طلب ہیں عشق بتاں میں جو آبرو کرتے

طلب ہیں عشقِ بتاں میں جو آبرو کرتے
ظفر ہیں آگ سے پانی کی آرزو کرتے
اشارا اپنے جو ابرو کا وہ کبھو کرتے
ملک فلک سے پئے سجدہ سر فرو کرتے
نمازِ عشق میں جب ہم ہیں سر فرو کرتے
تو آبِ اشک سے سو بار ہیں وضو کرتے

شورش کائنات نے مارا

شورشِ کائنات نے مارا
موت بن کر حیات نے مارا
پرتوِ حسنِ ذات نے مارا
مجھ کو میری صفات نے مارا
ستمِ یار کی دُہائی ہے
نگہِ اِلتفات نے مارا

علاج کاوش غم خاک چارہ جو کرتے

علاجِ کاوشِ غم خاک چارہ جو کرتے
ہزار زخم تھے کس کس جگہ رفو کرتے
اشارہ خود جو نہ وہ بہرِ جستجو کرتے
مجال کیا تھی ہماری کہ آرزو کرتے
وہ ہم سے ملتے نہ ملتے یہ انکی مرضی تھی
ہمارا کام یہی تھا کہ جستجو کرتے

Tuesday 2 August 2016

جانا ہے آسمان کے اس پار بھی مجھے

جانا ہے آسمان کے اس پار بھی مجھے
ہر لمحہ اس سفر سے ہے انکار بھی مجھے
جب ہو یہ غم کہ جلتی ہے دیوار دھوپ میں
کیا دے سکون سایۂ دیوار بھی مجھے
اس کے سوا کہ بن گیا دشمن ہر آشنا
کیا دے گئی بلندئ کردار بھی مجھے

ساتھی ہیں بس اب یہی ہمارے

ساتھی ہیں بس اب یہی ہمارے
شب، گریۂ نیم شب، ستارے
یوں ہو، کوئی میرے پاس آ کر
گزرے شب و روز پھر گزارے
وہ پُل ہی نہیں رہا کہ جس سے
دریا کے ملے رہیں کنارے

انگلیوں پر لہو شگوفے ہیں

انگلیوں پر لہو شگوفے ہیں
زندہ کرتا ہے سُر، ستار نواز
آنکھ تو روشنی میں دیکھتی ہے
رکھیو ہر لمحہ دیدۂ دل باز
اب مغنی کا دل نہیں گاتا
کتنی حیرت سے سوچتے ہیں ساز

Monday 1 August 2016

شریک گل رہا آوارۂ صبا بھی رہا

شریکِ گل رہا، آوارۂ صبا بھی رہا
اور اپنی ذات کے صحرا میں لا پتا بھی رہا
کیا طویل سفر میں نے راستوں کے بغیر
مگر غبار سے سارا بدن اٹا بھی رہا
ملے ہر ایک سے طعنے سلامتی کے مجھے
کسے خبر کہ میں اندر سے ٹوٹتا بھی رہا

بس یونہی اک وہم سا ہے واقعہ ایسا نہیں

بس یونہی اک وہم سا ہے واقعہ ایسا نہیں
آئینے کی بات سچی ہے کہ میں تنہا نہیں
بیٹھئے، پیڑوں کی اُترن کا الاؤ تاپئے
برگ سوزاں کے سوا درویش کچھ رکھتا نہیں
اپنی اپنی سب کی آنکھیں، اپنی اپنی خواہشیں
کس نظر میں جانے کیا جچتا ہے، کیا جچتا نہیں

ایک ہی شہر میں رہتے بستے کالے کاسوں دور رہا

ایک ہی شہر میں رہتے بستے کالے کاسوں دور رہا
اس غم سے ہم اور بھی ہارے وہ بھی تو مجبور رہا
کال تھا اشکوں کا آنکھوں میں لیکن تیری یاد نہ پوچھ
کیا کیا موتی میں بھی فراہم کرنے پر مجبور رہا
وہ اور اتنا پریشاں خاطر ربط غیر کی بات نہیں
لیکن اس کے چپ رہنے سے دل کو وہم ضرور رہا

شب فراق بھی چہرہ نما گزرتی ہے

شبِ فراق بھی چہرہ نما گزرتی ہے
کبھی چراغ بکف بھی ہوا گزرتی ہے
نہ آئی ساعتِ جاناں کہ جس کو آنا تھا
اور ایک ساعتِ جاں بارہا گزرتی ہے
کھلا یہی کہ شکست آشنا بھی ہے کیا کیا
وہ اک نگہ جو نبرد آزما گزرتی ہے

بزم والو یہ بزم آرائی

بزم والو یہ بزم آرائی
تم ہی دیکھو مجھے تو نیند آئی
ناگہاں چونک اٹھا ہے سناٹا
دفعتاً بول اٹھی ہے تنہائی
بے سبب بھی تِرا خیال آیا
بے ضرورت بھی آنکھ بھر آئی

محل سرا میں ہے کوئی نہ خیمہ گاہ میں ہے

محل سرا میں ہے کوئی نہ خیمہ گاہ میں ہے
عجیب شہر ہے سارا ہی شہر راہ میں ہے
یہ رخ ہواؤں کا صورت ہے کس تغیر کی
جو تیرے دل میں ہے وہ بھی میری نگاہ میں ہے
سخن بھی ہوتے ہیں اکثر پس سخن کیا کیا
تِرے سکوت کا لہجہ بھی میری آہ میں ہے

کھل کر آخر جہل کا اعلان ہونا چاہئے

کھل کر آخر جہل کا اعلان ہونا چاہیے
حق پرستوں کے لیے زندان ہونا چاہیے
اس وطن میں مقتدر ہونے کی پہلی شرط ہے
آدمی کے روپ میں شیطان ہونا چاہیے
آپ جیسوں کو رعایا جھیلتی ہے کس طرح
آپ کو تو سوچ کر حیران ہونا چاہیے

تم مسیحا ہو

تم مسیحا ہو
یعنی زمیں پر خدا ہو
خدا تو۔۔۔۔"سبھی" کا ہے
پھر اس سے کیسے گلے؟
اور کیسی توقع؟
خدا سے بھلا کون کہتا ہے
"بس میرے ہو کر رہو"

میرے بالوں میں چاندی اتر آئی ہے

آئینے سے جھانکتی نظم

میرے بالوں میں چاندی اتر آئی ہے
پیارے بابا! میں کچھ بال توڑوں
کہ ہم ان کو بیچیں گے
پھر جو روپے ہوں گے
ان سے
جہیز اور شادی کی تیاریاں ہو سکیں گی

مجھے نہ مژدۂ کیفیت دوامی دے

مجھے نہ مژدۂ کیفیتِ دوامی دے 
مرے خدا! مجھے اعزازِ ناتمامی دے
میں تیرے چشمۂ رحمت سے شادکام تو ہوں 
کبھی کبھی مجھے احساسِ تشنہ کامی دے
مجھے کسی بھی معزز کا ہمرکاب نہ کر 
میں خود کماؤں جسے، بس وه نیک نامی دے