Thursday, 11 August 2016

شہرہ مرا ہر صاحب کردار تلک ہے

شُہرہ مِرا ہر صاحبِ کردار تلک ہے
حالانکہ کہ مہارت مِری گفتار تلک ہے
پہلے تو کبھی ڈھنگ سے ملتا بھی نہیں تھا
اور اب وہ مِرے عشق میں بیمار تلک ہے
حاصل نہ ہوا کچھ بھی بجز حسرتِ دِیدار
اور حسرتِ دِیدار بھی،۔۔ دِیدار تلک ہے
عرضی تو مِرے ہاتھ میں شاہوں نے نہ دیکھی
اب دیکھیں مِرے ہاتھ میں تلوار تلک ہے
رکھتے ہیں کہاں میری شکستوں کی خبر غیر
یہ شوق تو اپنوں میں بھی دو چار تلک ہے

شجاع خاور

No comments:

Post a Comment