Wednesday 17 August 2016

ساقی پر الزام نہ آئے

ساقی پر الزام نہ آئے
چاہے تجھ تک جام نہ آئے
تیرے سوا جو کی ہو محبت
میری جوانی کام نہ آئے
جن کے لیے مر بھی گئے ہم
وہ چل کر دو گام نہ آئے
عشق کا سودا اتنا گراں ہے
انہیں ہم سے کام نہ آئے
میخانے میں سب ہی تو آئے
لیکن جگرؔ کا نام نہ آئے

جگر مراد آبادی

No comments:

Post a Comment