عشق کا غم نہ گیا، حسن کا غمزہ نہ گیا
میرا رونا نہ گیا،۔ آپ کا ہنسنا نہ گیا
کوۓ جاناں میں رکھی ضعف نے ثابت قدمی
مثلِ نقشِ کفِ پا بیٹھ کے اٹھا نہ گیا
ہم وہ میکش ہیں کہ دم اپنا خفا ہونے لگاصحبت مے نہ رہی، عشرتِ وصلت نہ رہی
پاس سے یار گیا،۔ ہاتھ سے پیمانہ گیا
اس شہِ حسن کے ہیں تابع فرماں معشوق
حکم محفل کا ہوا،۔ شمع کو پروانہ گیا
کچھ بھی اے دل! ہے اثر عشق قدِ بالا میں
کوئی نالہ طرفِ عالمِ بالا نہ گیا
اے صباؔ گوشۂ زنداں میں مکدر میں رہا
خاک اڑاتا طرفِ دامنِ صحرا نہ گیا
صبا لکھنوی
No comments:
Post a Comment