داغ وہ تُو نے دیا ہے کہ چھپا بھی نہ سکوں
گر ہو منظور دکھانا تو دکھا بھی نہ سکوں
کیا غضب ہے کہ تجھے پاس بلا بھی نہ سکوں
اور تُو مجھ کو پکارے تو میں آ بھی نہ سکوں
خود کرائے ہیں جو انوار پہ میں نے پردے
داغ ہے دل کا، کسی روز چمک اٹھے گا
یہ کوئی درد نہیں ہے کہ دکھا بھی نہ سکوں
صدمۂ ہجر تِرا ایک قیامت ہی سہی بھی نہ سکوں
نہیں احسان کسی کا کہ اٹھا بھی نہ سکوں
روح کے ساز پہ آزادؔ وہ رقصاں ہے غزل
کہ سنانے پہ ہوں مائل تو سنا بھی نہ سکوں
جگن ناتھ آزاد
No comments:
Post a Comment