Tuesday, 16 August 2016

بہت کچھ منتظر اک بات کا تھا

بہت کچھ منتظر اک بات کا تھا
کہ لمحہ لاکھ امکانات کا تھا
بچا لی تھی ضیا اندر کی اس نے
وہی اک آشنا اب رات کا تھا
رفاقت کیا کہاں کے مشترک خواب
کہ سارا سلسلہ شبہات کا تھا
بگولے اسکے سر پر چیختے تھے
مگر وہ آدمی چپ ذات کا تھا
حنائی ہاتھ کا منظر تھا بانیؔ
کہ تابندہ ورق اثبات کا تھا

منچندا بانی

No comments:

Post a Comment