Tuesday, 9 August 2016

دن زندگی کے کیسے کٹیں گے بہار میں

دن زندگی کے کیسے کٹیں گے بہار میں
تم اختیار میں ہو نہ دل اختیار میں
صبحِ وصال ہے نہ وہ اب شامِ انتظار
اب کیا رہا ہے گردشِ لیل و نہار میں
وہ نازنیں ہے محوِ تماشائے صحنِ گل
یا اور اک بہار کھلی ہے بہار میں
اِک مے گسار جام بکف ایک تشنہ کام
کیا وسعتیں ہیں بخششِ پروردگار میں
دنیا سے بے خبر، غمِ دنیا سے بے نیاز
بیٹھا ہے کوئی سایۂ دیوارِ یار میں
جن کو تِری وفا نے کِیا سرفرازِ دہر
وہ کھو گئے ہجومِ غمِ روزگار میں

صوفی تبسم

No comments:

Post a Comment