Saturday 20 August 2016

اشکوں سے اپنی جھولی قدح خوار بھر چکے

اشکوں سے اپنی جھولی قدح خوار بھر چکے
یوں بھی وہ اپنی روح کو سرشار کر چکے
جن سے بچھڑ کے مرنا تھا اک بار ہی روا
ہم ان کے ساتھ رہ کے کئی بار مر چکے
اے حسنِ آگہی! تِرے عشاق کیا ہوئے
ہم دشتِ بے چراغ سے تنہا گزر چکے
جن کو نہیں پسند حکایاتِ تیرگی
الزام اپنے ہونے کا سورج پہ دھر چکے
ہر بات کا شعور جنہیں ذات سے ملا
کہنے کو اپنے آپ سے کب کے گزر چکے
اک شعلہ بار دل کو تڑپنے کا شوق تھا
اے آنسوؤ! سلام، کہ پانی اتر چکے

سعادت سعید

No comments:

Post a Comment