اشکوں سے اپنی جھولی قدح خوار بھر چکے
یوں بھی وہ اپنی روح کو سرشار کر چکے
جن سے بچھڑ کے مرنا تھا اک بار ہی روا
ہم ان کے ساتھ رہ کے کئی بار مر چکے
اے حسنِ آگہی! تِرے عشاق کیا ہوئے
جن کو نہیں پسند حکایاتِ تیرگی
الزام اپنے ہونے کا سورج پہ دھر چکے
ہر بات کا شعور جنہیں ذات سے ملا
کہنے کو اپنے آپ سے کب کے گزر چکے
اک شعلہ بار دل کو تڑپنے کا شوق تھا
اے آنسوؤ! سلام، کہ پانی اتر چکے
سعادت سعید
No comments:
Post a Comment