Saturday, 13 August 2016

سرمایۂ یقین بھی ہر چند پاس تھا

سرمایۂ یقین بھی ہر چند پاس تھا​
جس نے مجھے بچایا، وہ میرا قیاس تھا​
نوواردِ بساط سے کھاتا میں کب شکست​
شہ بھی اسی نے دی تھی، مجھے اس کا پاس تھا​
تجھ سے ملا تو ذات کا عرفاں ہوا مجھے​
نکلا خیالِ خام کہ میں خودشناس تھا​
اس عہدِ ناشناس سے اب کیا گِلہ کروں​
تنہائیوں میں رہ کے بھی جو میرے پاس تھا​
اب حرفِ انبساط سے بھی کانپتا ہے دل​
گزرا ہے ایسا دور کہ جب غم بھی راس تھا​
ہونا بھی چاہئے تھا اسے میرے روبرو​
وہ شخص ہی تو میرے کبھی آس پاس تھا​

محسن بھوپالی

No comments:

Post a Comment