سرمایۂ یقین بھی ہر چند پاس تھا
جس نے مجھے بچایا، وہ میرا قیاس تھا
نوواردِ بساط سے کھاتا میں کب شکست
شہ بھی اسی نے دی تھی، مجھے اس کا پاس تھا
تجھ سے ملا تو ذات کا عرفاں ہوا مجھے
اس عہدِ ناشناس سے اب کیا گِلہ کروں
تنہائیوں میں رہ کے بھی جو میرے پاس تھا
اب حرفِ انبساط سے بھی کانپتا ہے دل
گزرا ہے ایسا دور کہ جب غم بھی راس تھا
ہونا بھی چاہئے تھا اسے میرے روبرو
وہ شخص ہی تو میرے کبھی آس پاس تھا
محسن بھوپالی
No comments:
Post a Comment