Tuesday 16 August 2016

سفر ہے مرا اپنے ڈر کی طرف

سفر ہے مِرا اپنے ڈر کی طرف
مِری ایک ذات دِگر کی طرف
بھرے شہر میں اک بیاباں بھی تھا
اشارہ تھا اپنے ہی گھر کی طرف
مِرے واسطے جانے کیا لائے گی
گئی ہے ہوا اک کھنڈر کی طرف
کنارہ ہی کٹنے کی سب دیر تھی
پھسلتے گئے ہم بھنور کی طرف
کوئی درمیاں سے نکلتا گیا
نہ دیکھا کسی ہمسفر کی طرف
تِری دشمنی خود ہی مائل رہی
کسی رشتۂ بے ضرر کی طرف
رہی دل میں حسرت کہ بانیؔ چلیں
کسی منزلِ پُر خطر کی طرف

منچندا بانی

No comments:

Post a Comment