لہو جنون کا جب میرے سر سے نکلے گا
کوئی تو راستہ اس سنگِ در سے نکلے گا
ابھی تو نالہ و شیون سنا ہے دنیا نے
تمہارا تیر بھی زخمِ جگر سے نکلے گا
خیالِ خام سے منزل کبھی نہیں ملتی
شفیقؔ خوفِ تمازت سے کانپتا کیوں ہے
پڑیگی دھوپ تو سایہ شجر سے نکلے گا
شفیق برنی
No comments:
Post a Comment