Friday, 12 August 2016

لہو جنون کا جب میرے سر سے نکلے گا

لہو جنون کا جب میرے سر سے نکلے گا
کوئی تو راستہ اس سنگِ در سے نکلے گا
ابھی تو نالہ و شیون سنا ہے دنیا نے
تمہارا تیر بھی زخمِ جگر سے نکلے گا
خیالِ خام سے منزل کبھی نہیں ملتی
سفر کا راستہ، عزمِ سفر سے نکلے گا
شفیقؔ خوفِ تمازت سے کانپتا کیوں ہے
پڑیگی دھوپ تو سایہ شجر سے نکلے گا

شفیق برنی

No comments:

Post a Comment