Sunday 24 February 2013

تخلیق؛ درد کی آگ بجھا دو کہ ابھی وقت نہیں

تخلیق 

درد کی آگ بُجھا دو کہ ابھی وقت نہیں
زخمِ دل جاگ سکے نشترِ غم رقص کرے
جو بھی سانسوں میں گُھلا ہے اُسے عریاں نہ کرو
چُپ بھی شعلہ ہے مگر کوئی نہ الزام دھرے

ایسے الزام کہ خود اپنے تراشے ہوئے بُت
جذبۂ کاوشِ خالق کو نگونسار کریں

آنکھوں سے خواب دل سے تمنا تمام شد

آنکھوں سے خواب، دل سے تمنا تمام شُد
تم کیا گئے، کہ شوقِ نظارا تمام شد
کل تیرے تشنگاں سے یہ کیا معجزہ ہوا
دریا پہ ہونٹ رکھے، تو دریا تمام شد
دنیا تو ایک برف کی سِل سے سوا نہ تھی
پہنچی ذرا جو آنچ، تو دنیا تمام شد

آگے اسپ خونی چادر اور خونی پرچم نکلے

آگے اسپ، خونی چادر اور خونی پرچم نکلے
جیسے نکلا اپنا جنازہ ایسے جنازے کم نکلے
دور اپنی خوش ترتیبی کا رات بہت ہی یاد آیا
اب جو کتابِ شوق نکالی، سارے ورق برہم نکلے
حیف درازی اس قصے کی، اس قصے کو ختم کرو
کیا تم نکلے اپنے گھر سے، اپنے گھر سے ہم نکلے

Saturday 23 February 2013

چلو پھر ہم صف آرا ہوں

چلو پھر ہم صف آراء ہوں

چلو ہم پھر صف آراء ہوں
صف آراء ہوں
کہ دُشمن چار سُو آئے
کہ قاتل رُوبرُو آئے
کہ اُن کے کاسۂ خالی میں
کچھ اپنا لہو آئے

دیکھنا یہ ہے

دیکھنا یہ ہے

آج اغیار کے تیروں سے بدن پر میرے
پھر وہی زخم چمکتے ہیں ستاروں کی طرح
پھر اُسی دُشمنِ جاں، دُشمنِ دِیں کے ہاتھوں
میرا ملبوس ہے گلرنگ بہاروں کی طرح
پھر مرے دیس کی مٹّی سے لہو رِستا ہے
پھر در و بام ہوئے سینہ فگاروں کی طرح

ترانہ لہو ترنگ ہی سہی عدو سے جنگ ہی سہی

ترانہ

لبوں پہ اہلِ امن کے
لہو ترنگ ہی سہی
عدُو سے جنگ ہی سہی
چلو کے دشمنوں کا یہ گھمنڈ
توڑ دیں
جو ہاتھ ہم پہ ظُلم کے اٹھے

Wednesday 20 February 2013

عرض غم کبھی اس کے روبرو بھی ہو جائے

عرضِ غم کبھی اس کے رُوبرُو بھی ہو جائے
شاعری تو ہوتی ہے، گُفتگُو بھی ہو جائے
زخمِ ہجر بھرنے سے، یاد تو نہیں جاتی
کچھ نِشاں تو رہتے ہیں، دِل رفُو بھی ہو جائے
رِند ہیں بھرے بیٹھے، اور مے کدہ خالی
کیا بنے جو ایسے میں ایک "ہُو" بھی ہو جائے

دنیا کو دکھانی ہے اک شکل خیالوں کی

دُنیا کو دِکھانی ہے اِک شکل خیالوں کی
آؤ کہ بنائیں ہم، تصویر اُجالوں کی
پل بھر کو مرے گھر میں، آئی جو پری اُڑ کر
کی اُس نے بسر مجھ میں سو رات وصالوں کی
ہم دیتے چلے جائیں کِس کِس کا جواب آخر
رفتار نہیں گھٹتی، دُنیا کے سوالوں کی

Monday 11 February 2013

بیمار پڑوں تو پوچھیو مت

بیمار پڑوں تو پوچھیو مت
دل خون کروں تو پوچھیو مت
میں شدّتِ غم سے حال اپنا
کہہ بھی نہ سکوں تو پوچھیو مت
ڈر ہے مجھے جنون نہ ہو جائے
ہو جائے جنوں تو پوچھیو مت

Sunday 10 February 2013

دھیان سے اے رفو گرو ہجر کا زخم بھر نہ جائے

دھیان سے اے رفو گرو! ہجر کا زخم بھر نہ جائے
جی کا جو حال ہو سو ہو ، بات ادھر ادھر نہ جائے
خانہ بدر عزیز دل، رات کا رہ روِخجل
یوں ہی پھرے اٹھائے سل، رات ڈھلے بھی گھر نہ جائے
مت یہ اسے بتا صبا، سینۂ گل میں داغ ہے
اور وہ کوئی چراغ ہے، وہ یہ سنے تو مر نہ جائے