Sunday, 10 February 2013

دھیان سے اے رفو گرو ہجر کا زخم بھر نہ جائے

دھیان سے اے رفو گرو! ہجر کا زخم بھر نہ جائے
جی کا جو حال ہو سو ہو ، بات ادھر ادھر نہ جائے
خانہ بدر عزیز دل، رات کا رہ روِخجل
یوں ہی پھرے اٹھائے سل، رات ڈھلے بھی گھر نہ جائے
مت یہ اسے بتا صبا، سینۂ گل میں داغ ہے
اور وہ کوئی چراغ ہے، وہ یہ سنے تو مر نہ جائے
لفظ میں ہے نمو میں ہے، بخیہ صفت رفو میں ہے
وہ جو نم و نمو میں ہے، جائے کہیں، مگر نہ جائے
دل تھا مچل گیا تو کیا، آنچ میں جل گیا تو کیا
ہاتھ پگھل گیا تو کیا، آئینہ گر! ہنر نہ جائے
اس کو تراشنا مگر، یوں کہ وہ تا ابد رہے
دور نگاہِ بد رہے،اس کی طرف نظر نہ جائے
مہلتِ یک نفس جو ہے، دار پہ جاؤ پے بہ پے
پھر یہ سمے گزر نہ جائے، پھر یہ نشہ اتر نہ جائے
جوت جو ہے جگا رکھو، چاک میں جی لگا رکھو
جب تک اِک اہتمام سے نقشِ بقا نکھر نہ جائے
آنکھ سے دور ہے تو کیا، بر سرِ طور ہے تو کیا
یہ بھی عجیب ہجر ہے، دل سے کوئی اگر نہ جائے

اختر عثمان

No comments:

Post a Comment