Saturday 23 February 2013

ترانہ لہو ترنگ ہی سہی عدو سے جنگ ہی سہی

ترانہ

لبوں پہ اہلِ امن کے
لہو ترنگ ہی سہی
عدُو سے جنگ ہی سہی
چلو کے دشمنوں کا یہ گھمنڈ
توڑ دیں
جو ہاتھ ہم پہ ظُلم کے اٹھے
مروڑ دیں
غنیم پر یہ عرصۂ حیات
تنگ ہی سہی
عدُو سے جنگ ہی سہی
جنگ ہی سہی
کہاں گیا ہے تُو؟
مرے دیار کو پکار کر
جو حوصلہ ہے کچھ اگر تو سامنے سے وار کر
اگر جواب خِشت سنگ ہے
تو سنگ ہی سہی
عدُو سے جنگ ہی سہی
جنگ ہی سہی

نہ چاہتے تھے ہم، مگر
یہ امتحاں بھی ہو چلے
کہاں ہے لشکرِ ستم
کہ آ گئے ہیں منچلے
اسی کی خاک اسی کے خوں سے
لالہ رنگ ہی سہی
عدُو سے جنگ ہی سہی

احمد فراز

No comments:

Post a Comment