Monday 27 May 2019

انتظار

انتظار

بڑی مشکل سے دن کاٹا
کبھی قہوے کے نشتر سے
کبھی چاۓ کے آرے سے
کبھی سگریٹ کی چھینی سے
کبھی سوہان پانی کے کڑے تیزاب دھارے سے
بڑی مشکل سے دن کاٹا

صلیبی جنگ جاری ہے

صلیبی جنگ جاری ہے

سنا تھا وقت تو اک تیر ہے 
ازلی کماں نے
جس کو نوری چوب میں پورا تشنج بھر کے اک جھٹکے سے چھوڑا تھا
دریغا
وقت جیسے رک گیا ہے 

Sleeping With The Enemy


Sleeping With The Enemy

پھنکارتی
ناگن کے پھن پہ سر کو رکھے رات بھر سویا رہا تھا میں 
نہ جانے سرسراتی نیند تھی
یا ہسہساتی بے حسی
نیلی غشی
یا زہر مہرہ خامشی تھی وہ

Thursday 23 May 2019

ملک لے لو رعایا لے لو

ٹھیلے پر رکھا ہے ملک
ملک لے لو
رعایا لے لو
سب سے سستی رعایا لے لو
نہ آہ بھرے گی نہ فریاد کرے گی
ری سیل ویلیو ہے

Wednesday 22 May 2019

سائیں حق سائیں برحق سائیں

سائیں
حق سائیں
برحق سائیں
ہم بد رنگے 
عاجز 
جھوٹے 
تم 
سچ سائیں 

اب کون کہے تم سے

مختصر نظم

اب کون کہے تم سے
ہر خوابِ محبت کی
تعبیر نہیں ہوتی

زین شکیل

مری تھم تھم جاوے سانس پیا

مِری تھم تھم جاوے سانس پیا
مِری آنکھ کو ساون راس پیا
تِرے پیر کی خاک بنا ڈالوں
مِرے تن پر جتنا ماس پیا
تُو ظاہر بھی، تُو باطن بھی
تِرا ہر جانب احساس پیا

فرشتے بھی ہمیں چھوڑ گئے

فرشتہ مہمند کی یاد میں

لوگو
آؤ
ایک بار
فقط ایک بار
صدقِ دل سے
خود پر ماتم کریں

لوگو اپنے قدم گنا کرو

لوگو
اپنے قدم گِنا کرو
آہستہ آہستہ چلا کرو
جھک جھک کر دیکھا کرو
کوئی کُچلا تو نہیں گیا
کچھ مَسلا تو نہیں گیا

Monday 20 May 2019

چھوڑ کے جانا ہے تو جا پر مات ادھوری ثابت کر

چھوڑ کے جانا ہے تو جا، پر مات ادھوری ثابت کر
مجھ سے جھگڑا کر اور مجھ کو غیر ضروری ثابت کر
میرے پتھر لہجے کی ہر روز شکایت لوگوں سے
آ کر صرف دلائل دے، میری مغروری ثابت کر
بات بجا کہ ہوتے ہیں دو چار مسائل سب کے ہی
جانتی ہوں مجبوری کو، لیکن مجبوری ثابت کر

خوف کی بجلی کڑکی ہو گی

خوف کی بجلی کڑکی ہو گی
جب جب کُنڈی کَھڑکی ہو گی
جس دن بچھڑا ہو گا تم سے
آنکھ یقیناً پھڑکی ہو گی
دئیے کے بجھ جانے سے پہلے
آگ ذرا سی بھڑکی ہو گی

آپ تو دل کو گزرگاہ سمجھ لیتے ہیں

آپ تو دل کو گذرگاہ سمجھ لیتے ہیں
ہم وہ خوش فہم اسے چاہ سمجھ لیتے ہیں
پھر خزانے کا وہ نقشہ بھی سمجھ آئے گا
پہلے جنگل کو گئی راہ سمجھ لیتے ہیں
کون سا خواب کی قیمت ہے، سو جب دل چاہے
خود کو اک ملکہ، تجھے شاہ سمجھ لیتے ہیں

پاؤں پڑتا ہوا رستہ نہیں دیکھا جاتا

پاؤں پڑتا ہوا رستہ نہیں دیکھا جاتا 
جانے والے تِرا جانا نہیں دیکھا جاتا
تیری مرضی ہے جدھر انگلی پکڑ کر لے جا 
مجھ سے اب تیرے علاوہ نہیں دیکھا جاتا
یہ حسد ہے کہ محبت کی اجارہ داری 
درمیاں اپنا بھی سایہ نہیں دیکھا جاتا

اسی لئے تو کسی کو بتانے والا نہیں

اسی لیے تو کسی کو بتانے والا نہیں
کہ تیرا میرا تعلق زمانے والا نہیں
پلٹ کے آ ہی گئے ہو تو اتنا دھیان رہے
تمہارا دوست ہوں لیکن پرانے والا نہیں
یہ جان لو کہ جو دعویٰ کرے فقیری کا
وہ آستین سے ہے، آستانے والا نہیں

Wednesday 15 May 2019

یہی نہیں کہ فقط خاک ہو گیا ہو گا

یہی نہیں کہ فقط خاک ہو گیا ہو گا
جہانِ دل خس و خاشاک ہو گیا ہو گا
سنا ہے اب وہ فقیروں سے جھک کے ملتا ہے
رموزِ عشق کا ادراک ہو گیا ہو گا
مگر جو داغ تری روح پر لگے ہیں، وہ
بدن تو بعدِ وضو پاک ہو گیا ہو گا

اندر اندر جلنے والو جیتے رہو

اندر اندر جلنے والو! جیتے رہو
ہجر میں آپ سنبھلنے والو! جیتے رہو
ہم دونوں کو دیکھ کے اک دوجے کے ساتھ
اے ہاتھوں کو ملنے والو! جیتے رہو
کیمپس کی خالی سڑکوں پر شام کے وقت
تنہا پیدل چلنے والو! جیتے رہو

Friday 10 May 2019

چلتے چلتے یونہی کوئی مل گیا تھا

فلمی گیت

چلتے چلتے، یونہی کوئی مل گیا تھا
سرِ راہ چلتے چلتے

وہیں تھم کے رہ گئی ہے
میری رات ڈھلتے ڈھلتے

جو کہی گئی نہ مجھ سے وہ زمانہ کہہ رہا ہے
کہ فسانہ بن گئی ہے، میری بات چلتے چلتے

آج سوچا تو آنسو بھر آئے

فلمی گیت

آج سوچا تو آنسو بھر آئے 
مدتیں ہو گئیں مسکرائے
ہر قدم پر اُدھر مڑ کے دیکھا
ان کی محفل سے ہم اٹھ تو آئے
رہ گئی زندگی درد بن کے 
درد دل میں چھپائے چھپائے

میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا

میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا
نئی زمین، نیا آسماں نہیں ملتا
نئی زمین، نیا آسماں مل بھی جائے
نئے بشر کا کہیں کچھ نشاں نہیں ملتا
جو اک خدا نہیں ملتا تو اتنا ماتم کیوں 
یہاں تو کوئی مِرا ہم زباں نہیں ملتا

سنا کرو میری جان ان سے ان سے افسانے

سنا کرو میری جان! اِن سے اُن سے افسانے
سب اجنبی ہیں یہاں، کون کس کو پہچانے
میرے جنونِ پرستش سے، تنگ آ گئے لوگ
سنا ہے بند کیے جا رہے ہیں بت خانے
یہاں سے جلد گزر جاؤ، قافلے والو
ہیں میری پیاس کے پھونکے ہوۓ یہ ویرانے

Sunday 5 May 2019

دل غنی ہے دعا سے کیا لینا

دل غنی ہے، دعا سے کیا لینا 
بے ضرورت خدا سے کیا لینا 
اپنی مرضی سے کچھ عطا فرما
ہم کو اپنی رضا سے کیا لینا
دردِ سر کا علاج پتھر ہے
ہوشمندو! صبا سے کیا لینا 

وہ جو عرض نیاز ہوتی ہے

وہ جو عرضِ نیاز ہوتی ہے
عاشقوں کی نماز ہوتی ہے
تجھ کو کیا علم تیری فرقت کی
رات کتنی دراز ہوتی ہے
قلب جب زخم زخم ہو جائے
آنکھ اس وقت باز ہوتی ہے

جب بھی کوئی قصور ہوتا ہے

جب بھی کوئی قصور ہوتا ہے
اتفاقاً، حضور ہوتا ہے
یہ تماشا بھی دیکھ لو آ کر
جامِ امید، چُور ہوتا ہے
دوستی چیز ہی کچھ ایسی ہے
اس میں نقصاں ضرور ہوتا ہے

دلکش و شگفتہ سے خوشنما سہانے سے

دل کش و شگفتہ سے خوشنما سہانے سے
دل میں کچھ کھلونے ہیں آپ کے پرانے سے
آ بسا وہاں فوراً کوئی دوسرا پنچھی
اڑ گیا تھا اک پنچھی اپنے آشیانے سے
جب بھی مسکرایا ہوں تیر کھا کے آیا ہوں
اب تو خوف آتا ہے مجھ کو مسکرانے سے

آپ ہیرا صدف نگیں کیوں ہیں

آپ ہیرا، صدف، نگیں، کیوں ہیں
آپ بے انتہا حسیں، کیوں ہیں
آپ کی کاکلوں کے جنگل میں
اتنی موسیقیاں، مکیں کیوں ہیں
چاند خود بھی نہیں سمجھ پایا
آپ اس درجہ مہ جبیں، کیوں ہیں

Saturday 4 May 2019

بنا ہے پھر وہ رہبر قافلوں کا

بنا ہے پھر وہ رہبر قافلوں کا 
پتہ جس کو نہیں ہے راستوں کا
ہماری قوم کے معمار دیکھو 
لگا ہے جمگھٹا سا مسخروں کا
جو کرنا ہے وہ کرنا ہے ہمی کو 
زمانہ جا چکا ہے معجزوں کا

آپ کا انتظار بھی تو نہیں

آپ کا انتظار بھی تو نہیں 
دل کو لیکن قرار بھی تو نہیں  
دل نہیں پاس تو یہ بہتر ہے 
اب کوئی انتشار بھی تو نہیں 
درد کم تو ہوا ہے چارہ گر
درد کا اعتبار بھی تو نہیں 

ہر چہرہ کب تازہ ہوتا ہے

ہر چہرہ کب تازہ ہوتا ہے 
کچھ چہروں پر غازہ ہوتا ہے 
خواب تو گروی رکھنے پڑتے ہیں 
جینے کا خمیازہ ہوتا ہے 
دیواروں کے کان نہیں ہوتے 
بیچ میں اک دروازہ ہوتا ہے 

Friday 3 May 2019

محبت دم گھٹ کر مر سکتی ہے

ورنہ، محبت دم گھٹ کر مر سکتی ہے 

محض
ایک کھونٹے سے بندھے رہنا 
محبت نہیں ہوتی 
ایک مُٹھی میں سما جانے والا دل 
اتنا چھوٹا نہیں ہوتا 
کہ نئی محبتوں کا سواگت نہ کر سکے 

ایک آسودہ تھکن سے بیزاری کے بعد

ایک آسودہ تھکن سے بیزاری کے بعد 

شاید زندگی سے 
میرا رشتہ کچھ کمزور پڑ گیا ہے 
بہت دنوں سے ہم ایک دوسرے سے الجھے نہیں 
دیر دیرتک جاگنے کی عادت نے 
مجھے اتنا بوجھل کر دیا ہے 

ایک تصویر

ایک تصویر

موم بتی کی چمکتی روشنی میں
سامنے دیوار پر
اس کا شکن آلود چہرہ کانپتا ہے

انیس ناگی

وقت مسافر

وقت مسافر

وقت ریت گھڑی میں گرتا ہے
وقت دھوپ گھڑی میں چڑھتا ہے
وقت ہندسوں میں چلتا ہے
وقت مسافر ہے
پیچھے سے آوازیں دو
آگے بھاگتا جاتا ہے

پہلے کشش عورت میں تھی

ایک بے کشش نظم

پہلے کشش عورت میں تھی
پھر کشش لفظوں میں تھی
اب لفظ عورت بے کشش
لہروں تک زمیں و آسماں کو دیکھتے ہیں
کائناتی سلسلوں میں
سلسلہ وہ ڈھونڈتے ہیں
جو ہمیں ویران کر کے جا چکا ہے

تیرے واسطے

تیرے واسطے

میں لفظ کی سب حدوں سے، سرحدوں سے
بہت دور ایسی لغت کی تلاشِ مسلسل میں ہوں
جو کبھی ان کہی داستان کو کہے گی
نیا اک جہان اس زمیں پر نمودار ہو گا
نئے لفظ سے میں شاعری لکھوں گا
تیرے واسطے

انیس ناگی

میں سرد مہر زندگی سے کیا طلب کروں

میں سرد مہر زندگی سے کیا طلب کروں
طلب تو ایک بحر ہے
زندگی تو سانس کی لپکتی ایک لہر ہے
جو آ کے پھر گزر گئی
چند سال اس کے نقشِ پا
یہیں کہیں کسی کے ذہن میں رہے

صنوبروں کی وسعت

صنوبروں کی وسعت

دور تک پھیلی صنوبروں کی وسعت
ہواؤں کی سرسراہٹ
روشنی کے مدھم اشارے
تنہا بجتی گھنٹیاں
تمہاری آنکھوں میں اترتی شام کا اندھیرا

تم موت کی طرف آہستہ آہستہ جا رہے ہو

You start dying slowly

اگر تم سفر نہیں کرتے، اگر تم مطالعہ نہیں کرتے
اگر تم زندگی کی آوازوں کو نہیں سنتے
اگر تم اپنے آپ کی تحسین نہیں کرتے
تو تم آہستہ آہستہ موت کی وادی میں اتر رہے ہو
جب تم اپنی عزت نفس کو قتل کرتے ہو
جب تم دوسروں کو اپنی مدد نہیں کرنے دیتے
تو تم موت کی طرف آہستہ آہستہ جا رہے ہو

کہو تم عدالت میں جانے سے پہلے

کہو تم عدالت میں جانے سے پہلے
کہو تم وزارت میں جانے سے پہلے
کہو تم سفارت میں جانے سے پہلے
دکھاؤ ہمیں اپنے اعمال نامے
قیامت کے دن اور خدا پر نہ چھوڑو
قیامت سے یہ لوگ ڈرتے نہیں ہیں

آج کی رات میں اپنی تمام تر اداسی لکھ سکتا ہوں

آج کی رات میں اپنی تمام تر اداسی لکھ سکتا ہوں
محبت بہت مختصر ہے اور اسے بھلانا بہت طویل
شاید یہ آخری دکھ ہے جو اس نے مجھے دیا
اور یہ آخری نظم، جو میں نے اس کے لیے لکھی

پابلو نرودا کی نظم کا اردو ترجمہ