انتظار
بڑی مشکل سے دن کاٹا
کبھی قہوے کے نشتر سے
کبھی چاۓ کے آرے سے
کبھی سگریٹ کی چھینی سے
کبھی سوہان پانی کے کڑے تیزاب دھارے سے
بڑی مشکل سے دن کاٹا
بُرادہ وقت کا ہاتھوں جھاڑا
زرد گرد آلود پوریں
جو گزشتہ دن کے لمحوں سے اَٹی تھیں
شام کے آنچل سے پونچھیں
اور پھر میں رات کے نمکیں نمیدہ بحرِ اسود میں اتر کر
اس سفینے کے لیے پتھرا گیا
جس میں اسے میرے لیے ساحل پہ آنا تھا
میں اب تک پِنڈلیوں کی مچھلیاں پانی میں ڈالے
بحرِ اسود میں کھڑا ہوں
اور اُدھر دنیا میں روزانہ
سنا ہے دن نکلتا ہے
سنا ہے رات ہوتی ہے
وحید احمد
No comments:
Post a Comment