Monday 27 May 2019

انتظار

انتظار

بڑی مشکل سے دن کاٹا
کبھی قہوے کے نشتر سے
کبھی چاۓ کے آرے سے
کبھی سگریٹ کی چھینی سے
کبھی سوہان پانی کے کڑے تیزاب دھارے سے
بڑی مشکل سے دن کاٹا

بُرادہ وقت کا ہاتھوں جھاڑا
زرد گرد آلود پوریں
جو گزشتہ دن کے لمحوں سے اَٹی تھیں
شام کے آنچل سے پونچھیں
اور پھر میں رات کے نمکیں نمیدہ بحرِ اسود میں اتر کر
اس سفینے کے لیے پتھرا گیا
جس میں اسے میرے لیے ساحل پہ آنا تھا
میں اب تک پِنڈلیوں کی مچھلیاں پانی میں ڈالے
بحرِ اسود میں کھڑا ہوں
اور اُدھر دنیا میں روزانہ
سنا ہے دن نکلتا ہے
سنا ہے رات ہوتی ہے

وحید احمد

No comments:

Post a Comment