Sunday 5 May 2019

دل غنی ہے دعا سے کیا لینا

دل غنی ہے، دعا سے کیا لینا 
بے ضرورت خدا سے کیا لینا 
اپنی مرضی سے کچھ عطا فرما
ہم کو اپنی رضا سے کیا لینا
دردِ سر کا علاج پتھر ہے
ہوشمندو! صبا سے کیا لینا 
لذتِ درد، ایک چیز تو ہے
درد والو! دوا سے کیا لینا
دانشِ راہزن سے کچھ مانگو
حکمتِ رہنما سے کیا لینا
ہم کو تیری جفا سے کیا نہ ملا
ہم کو تیری وفا سے کیا لینا
ہم فقیروں کی مشت میں سلطاں
ہم کو بالِ ہُما سے کیا لینا
بت پرستی ہے نقد کا سودا
چھپنے والے خدا سے کیا لینا
اب سرِ شوق ہی نہیں باقی
اب تِرے نقشِ پا سے کیا لینا
مل گیا جو ازل میں ملنا تھا
اے عدؔم! ماسوا سے کیا لینا

عبدالحمید عدم

No comments:

Post a Comment